حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 242
´بغیر علم کے فتویٰ اور مشورہ دینے والے کا گناہ`
«. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَفْتَى بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ وَمَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِأَمْرٍ يَعْلَمُ أَنَّ الرُّشْدَ فِي غَيْرِهِ فَقَدْ خانه» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو فتوی دیا گیا بغیر علم کے تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہو گا، اور جس نے مشورہ دیا اپنے بھائی کو ایسے کام کا کہ جانتا ہے کہ بھلائی اس کے غیر میں ہے تو اس نے خیانت کی، یعنی اس نے اپنے مسلمان کو غلط مشورہ دیا جس سے اس کو نقصان پہنچا اور یہ خیانت ہے۔“ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 242]
تحقیق الحدیث:
اس کی سند حسن ہے۔
اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح کہا ہے۔!
فقہ الحدیث:
➊ لوگوں کی دو قسمیں ہیں:
اول: وہ جو مسئلہ بتاتے ہیں یعنی علماء۔
دوم: وہ جو مسئلہ پوچھتے ہیں یعنی عوام۔
➋ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دلیل (مثلاً قرآن، حدیث اور اجماع) یا دلیل نہ ہونے کی صورت میں ذاتی اجتہاد (مثلاً آثار سلف صالحین سے استدلال، عموم سے استدلال، صحیح قیاس اور دیگر اجتہادی دلائل) کے بغیر فتویٰ دینا جائز نہیں بلکہ غلط و ممنوع ہے۔
➌ غلط فتویٰ دینے والا گناہ گار ہے اور اس فتوے کا وبال اسی پر ہے۔
◄ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«من أفتي بفتيا يعمي فيها فإنما إثمها عليه»
”جس نے ایسا فتویٰ دیا جس میں دھوکا دیا جاتا ہے تو اس کا گناہ اس فتویٰ دینے والے پر ہے۔“ [جامع بيان العلم وفضله 2؍132 ح859 وسنده حسن، سنن الدارمي: 162]
➍ بغیر علم کے فتویٰ دینا ممنوع ہے، جیسا کہ نمبر ۱ میں بیان کر دیا گیا ہے۔
➎ ہمیشہ کھلے دل سے بہترین مشورہ دینا چاہئے۔
➏ حق چھپانا حرام ہے۔
➐ مشورہ امانت ہے، لہٰذا جب کوئی مشورہ طلب کرے تو مفید مشورہ دینا چاہئیے۔ غلط اور خیر خواہی کے خلاف مشورہ دے کر خیانت کا مرتکب نہیں ہونا چاہئے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 242