ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری قسم کا اعتبار اسی چیز پر ہو گا جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے“۔ مسدد کی روایت میں: «أخبرني عبد الله بن أبي صالح» ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عباد بن ابی صالح اور عبداللہ بن ابی صالح دونوں ایک ہی ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ/حدیث: 3255]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الأیمان 4 (1653)، سنن الترمذی/الأحکام 19 (1354)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 14 (2120)، (تحفة الأشراف: 12826)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/228)، سنن الدارمی/النذور 11 (2394) (صحیح)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3255
فوائد ومسائل: مسلمانوں کے درمیان آپس میں تنازعات کے فیصلوں کے لئے اشارات وتعریضآات(توریے)سے قسم اٹھانا کسی طرح مفید مطلب نہیں۔ بلکہ ناجائز ہے۔ البتہ کفار یا ظالموں سے آویزش ہو تو رخصت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3255
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2121
´جو کوئی قسم میں توریہ کرے اس کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری قسم اسی مطلب پر واقع ہو گی جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2121]
اردو حاشہ: فائدہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قسم کھا کر ذو معنی بات کہی اور ایسا معنی مراد لیا جو سچ تھا لیکن مخاطب اس سے وہ معنی نہیں سمجھا اور جو معنی مخاطب نے سمجھا اس کے لحاظ سے بات غلط تھی تو یہ جھوٹی قسم ہو گی۔ قسم کا وہی مفہوم معتبر ہو گا جو قسم دلانے والا سمجھتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2121
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4284
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم میں قسم لینے والے کی نیت کا اعتبار ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4284]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، اگر کوئی آدمی کسی نیت کی بنا پر جائز طور پر قسم اٹھواتا ہے، تو ایسی صورت میں قسم اٹھوانے والے کی نیت اور اس کے معنی و مفہوم کا اعتبار ہوگا، قسم اٹھانے والا، اگر قسم کا توریہ یا تعریض کرتا ہے، تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا، اگر یہ قسم عدالت کے لیے اٹھائی گئی ہے، تو پھر اس میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، اگر قسم لینا جائز تھا، اور قسم عدالت میں، اللہ تعالیٰ یا اس کی صفات کی اٹھائی گئی ہے، تو اس میں قاضی یا اس کے نائب کی نیت و قصد معتبر ہوگا، اور اگر قسم لینے والا، عدالت کی بجائے، خود قسم لیتا ہے، اور ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنا چاہتاہے، تو پھر سنن ابی داود کی روایت کی روشنی میں، توریہ و تعریض سے کام لینا جائزہے، آپ کو بتایا گیا، کہ ہم آپ کے پاس آرہے تھے، تو حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کو ان کے دشمنوں نے پکڑ لیا، تو ان میں سے حضرت سوید بن غفلہ نے قسم اٹھائی کہ یہ میرا (دینی) بھائی ہے، اس پر دشمن نے انہیں چھوڑدیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سوید رضی اللہ عنہ کو فرمایا، تم نے سچ بولا، مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، اس سے ثابت ہوا، اگر قسم لینے والا، ظلم و زیادتی کا مرتکب ہو، تو پھر توریہ جائز ہے، تفصیلات کے لیے (المغنی، ج (13) ص 497 تا 501، مسلہ نمبر (1803) دکتور ترکی۔ اور بقول علامہ نووی اگر حالف سے طلاق یا غلام آزاد کرنے کی قسم اٹھوائی گئی، تو پھر قسم اٹھانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا، یعنی وہ توریہ و تعریض سے کام لے سکے گا، علامہ تقی نے احناف کا بھی یہی موقف بتایا ہے لیکن علامہ سعیدی نے اس کی مخالفت کی ہے، اور کہا ہے، فقہاء کے احناف کے نزدیک اگر کسی شخص کے حق میں قسم لی گئی ہے، تو حلف لینے والے کی نیت کا اعتبار رہے گا، خواہ اللہ کی قسم لی جائے یا طلاق اور عتاق کی، اور جب کوئی خود قسم اٹھائے تو اس کی نیت کا اعتبار ہو گا اور وہ تاویل اور توریہ کر سکتا ہے، اور آخر میں لکھا ہے، اس مسئلہ میں علامہ ابن قدامہ حنبلی نے جو بحث کی ہے، وہی حق اور صحیح ہے۔ (شرح مسلم سعیدی، ج 4، ص 587)