الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْقَسَامَةِ
قسموں کا بیان
4. باب يَمِينِ الْحَالِفِ عَلَى نِيَّةِ الْمُسْتَحْلِفِ:
4. باب: قسم کھلانے والے کی نیت کے موافق قسم ہو گی۔
حدیث نمبر: 4284
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ هُشَيْمٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْيَمِينُ عَلَى نِيَّةِ الْمُسْتَحْلِفِ ".
یزید بن ہارون نے ہشیم سے، انہوں نے عباد بن ابی صالح سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم، حلف لینے والے کی نیت کے مطابق ہو گی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم میں قسم لینے والے کی نیت کا اعتبار ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1653
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح مسلماليمين على نية المستحلف
   صحيح مسلميمينك على ما يصدقك عليه صاحبك
   جامع الترمذياليمين على ما يصدقك به صاحبك
   سنن أبي داوديمينك على ما يصدقك عليها صاحبك
   سنن ابن ماجهاليمين على نية المستحلف
   سنن ابن ماجهيمينك على ما يصدقك به صاحبك

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4284 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4284  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اگر کوئی آدمی کسی نیت کی بنا پر جائز طور پر قسم اٹھواتا ہے،
تو ایسی صورت میں قسم اٹھوانے والے کی نیت اور اس کے معنی و مفہوم کا اعتبار ہوگا،
قسم اٹھانے والا،
اگر قسم کا توریہ یا تعریض کرتا ہے،
تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا،
اگر یہ قسم عدالت کے لیے اٹھائی گئی ہے،
تو پھر اس میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے،
اگر قسم لینا جائز تھا،
اور قسم عدالت میں،
اللہ تعالیٰ یا اس کی صفات کی اٹھائی گئی ہے،
تو اس میں قاضی یا اس کے نائب کی نیت و قصد معتبر ہوگا،
اور اگر قسم لینے والا،
عدالت کی بجائے،
خود قسم لیتا ہے،
اور ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنا چاہتاہے،
تو پھر سنن ابی داود کی روایت کی روشنی میں،
توریہ و تعریض سے کام لینا جائزہے،
آپ کو بتایا گیا،
کہ ہم آپ کے پاس آرہے تھے،
تو حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کو ان کے دشمنوں نے پکڑ لیا،
تو ان میں سے حضرت سوید بن غفلہ نے قسم اٹھائی کہ یہ میرا (دینی)
بھائی ہے،
اس پر دشمن نے انہیں چھوڑدیا،
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سوید رضی اللہ عنہ کو فرمایا،
تم نے سچ بولا،
مسلمان،
مسلمان کا بھائی ہے،
اس سے ثابت ہوا،
اگر قسم لینے والا،
ظلم و زیادتی کا مرتکب ہو،
تو پھر توریہ جائز ہے،
تفصیلات کے لیے (المغنی،
ج (13)
ص 497 تا 501،
مسلہ نمبر (1803)
دکتور ترکی۔
اور بقول علامہ نووی اگر حالف سے طلاق یا غلام آزاد کرنے کی قسم اٹھوائی گئی،
تو پھر قسم اٹھانے والے کی نیت کا اعتبار ہو گا،
یعنی وہ توریہ و تعریض سے کام لے سکے گا،
علامہ تقی نے احناف کا بھی یہی موقف بتایا ہے لیکن علامہ سعیدی نے اس کی مخالفت کی ہے،
اور کہا ہے،
فقہاء کے احناف کے نزدیک اگر کسی شخص کے حق میں قسم لی گئی ہے،
تو حلف لینے والے کی نیت کا اعتبار رہے گا،
خواہ اللہ کی قسم لی جائے یا طلاق اور عتاق کی،
اور جب کوئی خود قسم اٹھائے تو اس کی نیت کا اعتبار ہو گا اور وہ تاویل اور توریہ کر سکتا ہے،
اور آخر میں لکھا ہے،
اس مسئلہ میں علامہ ابن قدامہ حنبلی نے جو بحث کی ہے،
وہی حق اور صحیح ہے۔
(شرح مسلم سعیدی،
ج 4،
ص 587)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4284   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3255  
´قسم کھانے میں توریہ کرنا یعنی اصل بات چھپا کر دوسری بات ظاہر کرنا کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری قسم کا اعتبار اسی چیز پر ہو گا جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے۔‏‏‏‏ مسدد کی روایت میں: «أخبرني عبد الله بن أبي صالح» ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عباد بن ابی صالح اور عبداللہ بن ابی صالح دونوں ایک ہی ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3255]
فوائد ومسائل:
مسلمانوں کے درمیان آپس میں تنازعات کے فیصلوں کے لئے اشارات وتعریضآات(توریے)سے قسم اٹھانا کسی طرح مفید مطلب نہیں۔
بلکہ ناجائز ہے۔
البتہ کفار یا ظالموں سے آویزش ہو تو رخصت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3255   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2121  
´جو کوئی قسم میں توریہ کرے اس کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری قسم اسی مطلب پر واقع ہو گی جس پر تمہارا ساتھی تمہاری تصدیق کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2121]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قسم کھا کر ذو معنی بات کہی اور ایسا معنی مراد لیا جو سچ تھا لیکن مخاطب اس سے وہ معنی نہیں سمجھا اور جو معنی مخاطب نے سمجھا اس کے لحاظ سے بات غلط تھی تو یہ جھوٹی قسم ہو گی۔
قسم کا وہی مفہوم معتبر ہو گا جو قسم دلانے والا سمجھتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2121