علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے(زہیر کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”چالیسواں حصہ نکالو، ہر چالیس (۴۰) درہم میں ایک (۱) درہم، اور جب تک دو سو (۲۰۰) درہم پورے نہ ہوں تم پر کچھ لازم نہیں آتا، جب دو سو (۲۰۰) درہم پورے ہوں تو ان میں پانچ (۵) درہم زکاۃ کے نکالو، پھر جتنے زیادہ ہوں اسی حساب سے ان کی زکاۃ نکالو، بکریوں میں جب چالیس (۴۰) ہوں تو ایک (۱) بکری ہے، اگر انتالیس (۳۹) ہوں تو ان میں کچھ لازم نہیں“، پھر بکریوں کی زکاۃ اسی طرح تفصیل سے بیان کی جو زہری کی روایت میں ہے۔ گائے بیلوں میں یہ ہے کہ ہر تیس (۳۰) گائے یا بیل پر ایک سالہ گائے دینی ہو گی اور ہر چا لیس (۴۰) میں دو سالہ گائے دینی ہو گی، باربرداری والے گائے بیلوں میں کچھ لازم نہیں ہے، اونٹوں کے بارے میں زکاۃ کی وہی تفصیل اسی طرح بیان کی جو زہری کی روایت میں گزری ہے، البتہ اتنے فرق کے ساتھ کہ پچیس (۲۵) اونٹوں میں پانچ (۵) بکریاں ہوں گی، ایک بھی زیادہ ہونے یعنی چھبیس (۲۶) ہو جانے پر پینتیس (۳۵) تک ایک (۱) بنت مخاض ہو گی، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون نر ہو گا، اور جب چھتیس (۳۶) ہو جائیں تو پینتالیس (۴۵) تک ایک (۱) بنت لبون ہے، جب چھیالیس (۴۶) ہو جائیں تو ساٹھ (۶۰) تک ایک (۱) حقہ ہے جو نر اونٹ کے لائق ہو جاتی ہے“، اس کے بعد اسی طرح بیان کیا ہے جیسے زہری نے بیان کیا یہاں تک کہ جب اکیانوے (۹۱) ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو (۲) حقہ ہوں گی جو جفتی کے لائق ہوں، جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو ہر پچاس (۵۰) پر ایک (۱) حقہ دینا ہو گا، زکاۃ کے خوف سے نہ اکٹھا مال جدا کیا جائے اور نہ جدا مال اکٹھا کیا جائے، اسی طرح نہ کوئی بوڑھا جانور قابل قبول ہو گا اور نہ عیب دار اور نہ ہی نر، سوائے اس کے کہ مصدق کی چاہت ہو۔ (زمین سے ہونے والی)، پیداوار کے سلسلے میں کہا کہ نہر یا بارش کے پانی کی سینچائی سے جو پیداوار ہوئی ہو، اس میں دسواں حصہ لازم ہے اور جو پیداوار رہٹ سے پانی کھینچ کر کی گئی ہو، اس میں بیسواں حصہ لیا جائے گا“۔ عاصم اور حارث کی ایک روایت میں ہے کہ زکاۃ ہر سال لی جائے گی۔ زہیر کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ہر سال ایک بار کہا۔ عاصم کی روایت میں ہے: ”جب بنت مخاض اور ابن لبون بھی نہ ہو تو دس درہم یا دو بکریاں دینی ہوں گی“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ/حدیث: 1572]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/الزکاة 4 (1790)، سنن الدارمی/الزکاة 7 (1669)، (تحفة الأشراف:10039)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزکاة 3 (620)، سنن النسائی/الزکاة 18 (2479)، مسند احمد (1/121، 132، 146) (صحیح) (شواہد کی بنا پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو:صحیح ابی داود5/291)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف ابن ماجه (1790) أبو إسحاق مدلس وعنعن انوار الصحيفه، صفحه نمبر 63
هاتوا ربع العشور من كل أربعين درهما درهم وليس عليكم شيء حتى تتم مائتي درهم فإذا كانت مائتي درهم ففيها خمسة دراهم فما زاد فعلى حساب ذلك وفي الغنم في أربعين شاة شاة فإن لم يكن إلا تسع وثلاثون فليس عليك فيها شيء وساق صدقة الغنم مثل الزهري قال وفي البقر في كل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1572
1572. اردو حاشیہ: ➊ صحیح تر احادیث میں اونٹوں کی زکوۃ کی بابت یہ مروی ہے کہ میں چوبیس تک میں چار بکریاں ہیں۔ پچیس ہو جائیں تو ان میں ایک بنت مخاض (ایک سالہ مادہ) ہے۔ ➋ گایوں کی زکوۃ کی تفصیل یوں بنتی ہے کہ تیس سےانتالیس تک ایک سالہ ”بچھڑی“ خیال رہے لفظ ”تبیع“(بچھڑا، بچھڑی) مذکر مؤنث دونوں کے لیے بولا جاتاہے۔ چالیس میں دو سالہ، انسٹھ تک۔ساٹھ سے انہتر تک میں ایک ایک سالہ دو بچھڑیاں۔ ستر ہو جائیں تو ایک عدد ایک سالہ اور ایک عدد دوسالہ، اناسی تک۔ اسی گایوں میں دو دو سالہ دو عدد، نواسی تک۔ نوے گایوں میں تین عدد ایک سالہ بچھڑیاں، ننانوے تک۔ اور سو گایوں میں دو عدد ایک سالہ اور ایک عدد دو سالہ جانور دینا ہوگا- [علی ھذا القیاس) خیال رہے کہ بھینسیں بھی گایوں کے حکم میں ہیں۔ امام ابن المنذر نےاس پر اجماع لکھا ہے۔ دیکھیے [فتاوی ابن تیمیة:25/37] ➌ ہل چلانے، پانی کھینچنے یا گاڑیاں چلانے میں زیر استعمال یا دودھ کے لیے پالے گئے جانوروں پر کوئی زکوۃ نہیں۔ ان کی آمدنی پر زکوۃ ہے۔ ➍ بارانی اور سیلابی زمینوں سے دسواں حصہ جب کہ نہری، چاہی اور ٹیوب ویل وغیرہ سے سیراب ہونے والی زمینوں کی کاشت پر بیسواں حصہ آتا ہے۔ بشرطیکہ مجموعی حاصل پانچ وسق ہو۔ (بر صغیر میں یہ ماپ تقریباً بیس من غلہ کے برابر کہا جاتا ہے۔)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1572
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 490
´رہائشی مکان، گھر میں استعمال ہونے والی اشیاء پر زکاۃ کا نصاب` ”سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کام کرنے والے بیلوں پر زکٰوۃ واجب نہیں۔“[بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 490]
لغوی تشریح: «اَلْبَقَرِ الْعَوَامِلِ» «عوامل»، «عاملة» کی جمع ہے۔ عاملہ وہ جانور ہیں جنہیں کھیتی باڑی کے لیے جوتتے ہیں، گاہنے کا کام لیتے ہیں، کنوئیں سے پانی نکالنے کا کام لیتے ہیں اور وزنی چیزوں کو کھینچ کر لے جانے کا کام لیتے ہیں اور ایسی دوسری ضروریات کے کام آتے ہیں۔
فائدہ: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس پر طویل بحث کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکیھے: [صحيح سنن ابي داود مفصل، رقم: 1404] بنابریں رہائشی مکان، گھر میں استعمال ہونے والی اشیاء اور کارخانوں کی عمارتوں اور مشیریوں پر زکاۃ نہیں۔ اگر ان پر بھی زکاۃ ہوتی تو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ بعض دفعہ لاکھوں کروڑوں روپے کارخانوں اور میشنریوں پر لگانے کے باوجود کئی سال تک کوئی نفع نہیں ہوتا، اس صورت میں اگر کارخانے دار کو کاروبار میں لگائے ہوئے لاکھوں کروڑوں کی سالانہ زکاۃ بھی ادا کرنا پڑتی تو اس کی مشکلات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، اس لیے اسلام نے عمارتوں، آلات و اوزار اور مشینریوں کا زکاۃ سے مستشنیٰ رکھا ہے۔ ہاں، ان کے ذریعے سے جو منافع حاصل ہو گا اس پر زکاۃ ہو گی اور وہ بھی تب، جب منافع میں سے جو کچھ اس کی ضروریات پوری ہونے کے بعد بچ جائے اور وہ اس کے پاس ایک سال تک پڑا رہے اور اس کی مقدار بھی نصاب کے مطابق ہو۔ اگر ان میں سے ایک بھی شرط کم ہو گی تو زکاۃ اس پر عائد نہیں ہو گی۔ «والله اعلم» اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جن جانوروں سے پیداوار حاصل کرنے کے لیے کام لیا جائے، یعنی وہ آلات و ذرائع کے طور پر استعمال ہوں، ان پر کوئی زکاۃ نہیں۔ اسی طرح وہ کارخانے جن سے پیداوار حاصل ہوتی ہے ان کی مشینری پر بھی زکاۃ نہیں کیونکہ وہ بھی آلات پیداوار اور ذرائع پیداوار ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 490
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:54
54- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”میں نے تمہیں گھوڑے اور غلام کی زکوٰاۃ معاف کردی ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:54]
فائده◄ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو گھوڑے ذاتی کام کے لیے ہوں،اسی طرح جو غلام خدمت کے لیے ہوں،ان کی زکاۃ دینا فرض نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص گھوڑوں یا غلاموں کی خرید وفروخت کا کاروبار کرتا ہے، تو اسے عام مال تجارت کی طرح قیمت کا اندازہ کر کے ان کی زکاۃ ادا کرنا ہو گی۔عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بھی تاجروں سے مال تجارت پر زکاۃ وصول کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ (مؤطا امام مالك: 235/1، وسنده حسن)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 54