عبداللہ بن مسلمہ کہتے ہیں کہ مالک نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قول ”جدا جدا مال کو اکٹھا نہیں کیا جائے گا اور نہ اکٹھے مال کو جدا کیا جائے گا“ کا مطلب یہ ہے: مثلاً ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہوں، جب مصدق ان کے پاس زکاۃ وصول کرنے آئے تو وہ سب اپنی بکریوں کو ایک جگہ کر دیں تاکہ ایک ہی شخص کی تمام بکریاں سمجھ کر ایک بکری زکاۃ میں لے، ”اکٹھا مال جدا نہ کئے جانے“ کا مطلب یہ ہے: دو ساجھے دار ہوں اور ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہوں (دونوں کی ملا کر دو سو دو) تو دونوں کو ملا کر تین بکریاں زکاۃ کی ہوتی ہیں، لیکن جب زکاۃ وصول کرنے والا آتا ہے تو دونوں اپنی اپنی بکریاں الگ کر لیتے ہیں، اس طرح ہر ایک پر ایک ہی بکری لازم ہوتی ہے، یہ ہے وہ چیز جو میں نے اس سلسلے میں سنی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ/حدیث: 1571]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:19254)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 11 (23) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح سنده صحيح الي مالك بن انس المدني، وھو في الموطأ (رواية يحييٰ: 1/ 264) قال معاذ علي زئي: قد ثبت عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه أنه قال: ’’ولا يجمع بين متفرق، ولا يفرق بين مجتمع، خشية الصدقة‘‘ (صحيح بخاري: 145)