الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
5. باب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ
5. باب: چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1573
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، وَسَمَّى آخَرَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، وَالْحَارِثِ الْأَعْوَرِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَوَّلِ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ:" فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ، يَعْنِي فِي الذَّهَبِ، حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا، فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي، أَعَلِيٌّ يَقُولُ: فَبِحِسَابِ ذَلِكَ؟ أَوْ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ"، إِلَّا أَنَّ جَرِيرًا، قَالَ: ابْنُ وَهْبٍ يَزِيدُ فِي الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ".
علی رضی اللہ عنہ اس حدیث کے ابتدائی کچھ حصہ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: جب تمہارے پاس دو سو (۲۰۰) درہم ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان میں پانچ (۵) درہم زکاۃ ہو گی، اور سونا جب تک بیس (۲۰) دینار نہ ہو اس میں تم پر زکاۃ نہیں، جب بیس (۲۰) دینار ہو جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار زکاۃ ہے، پھر جتنا زیادہ ہو اس میں اسی حساب سے زکاۃ ہو گی (یعنی چالیسواں حصہ)۔ راوی نے کہا: مجھے یاد نہیں کہ «فبحساب ذلك» علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے یا اسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع کیا ہے؟ اور کسی بھی مال میں زکاۃ نہیں ہے جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، مگر جریر نے کہا ہے کہ ابن وہب اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا اضافہ کرتے ہیں: کسی مال میں زکاۃ نہیں ہے جب تک اس پر سال نہ گزر جائے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الزَّكَاةِ/حدیث: 1573]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:10039) (صحیح) (شواہد کی بناپر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود5/294)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
انظر الحديث السابق (1572)
وروي الإمام مالك عن ابن عمر قال: ’’ لا تجب في مال زكوة حتي يحول عليه الحول ‘‘ (الموطأ رواية يحيي 246/1 ح 584) وسنده صحيح
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 63

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1573 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1573  
1573. اردو حاشیہ:
➊ درہم کا وزن موجودہ حساب سے 2.975 گرام اور دینار (سونے) کا وزن 4.25 گرام ہوتا ہے۔ اس طرح چاندی کا نصاب زکوۃ پانچ سو پچانوے گرام اور سونے کا پچاسی گرام ہوا۔ امام ابوداؤد نے کتاب الزکوۃ کے آغاز ہی سے نصاب کے حوالے سے جو احادیث ذکر کی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں سونا، چاندی (چاہے درہم و دینار وغیرہ کرنسی کی شکل میں ہوں، زیور کی شکل میں ہوں یا کسی اور شکل میں)، بنیادی غذائی اجناس اور چرنے والے مویشیوں پر ہر جنس کے لیے الگ الگ زکوۃ فرض کی گئی ہے۔ ان کا الگ الگ نصاب مقرر کیا گیا ہے۔ ہر مستقل جنس میں سے جس کا نصاب پورا ہو جائے گا اور سال گزر جائے گا اس پر مقرر شرح سے زکوۃ کی ادائیگی ضروری ہو جائے گی۔ اگر کسی بھی چیز کا نصاب پورا ہو گا، یا اس پر سال نہ گزرا ہو گا تو اس پر زکوۃ نہ ہوگی۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قابل زکوۃ اشیاء خصوصاً سونا، چاندی میں دونوں کو ملا کر مجموعی حیثیت سے نصاب کو متعین کیا جانا چاہیے۔ یعنی اگر کسی شخص کے پاس سال بھر سونے کا آدھا نصاب اور چاندی کا آدھا نصاب موجود رہا ہو تو اس پر زکوۃ کی ادائیگی فرض ہوگی۔ البتہ وہ دونوں میں سے الگ الگ21/2 فیصد زکوۃ ادا کرے گا۔ لیکن احادیث مبارکہ کے الفاظ اس کی تائید نہیں کرتے۔ وہ حدیث، جسے امام ترمذی کے پوچھنے پر امام بخاری صحیح قرار دیا ہے۔ [جامع الترمذي، الزکوة ‘باب ما جاء في زکوة الذھب والورق‘حدیث:620) اس سلسلے میں واضح ہے کہ اگر کسی کے پاس 190 درہم چاندی ہو تو زکوۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ اگر سونے کے نصاب میں آدھا دینار بھی کم ہو گا تو زکوۃ واجب نہ ہوگی۔ اسی طرح حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے کہ اگر چاندس پانچ اوقیہ (یا دو سو درہم) سے کم ہو تو اس میں زکوۃ نہیں ہو گی۔ دیکھیے:- صحیح البخاري، الزکوة، باب زکوة الورق، حدیث:1447‘ و صحیح مسلم، الزکوة، باب لیس فیما دون خمسة أوسق صدقة، حدیث:979]
صحابہ کرام حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ابن عمر نے بھی رسول اللہ ﷺ سے یہی بات بیان کی ہے۔ دیکھیے [سنن ابن ماجة‘ الزکوة‘باب زکوة الورق و الذھب‘ حدیث:1790‘1791]
اسلام میں جہاں فقراء اور مساکین کے لیے شفقت و رحمت کے طور پر زکوۃ کا نظام قائم کیا گیا وہاں دینے والوں کے لیے بھی آسانی کا راستہ اختیار کیا گیا ہے اور ہر چیز کا الگ الگ نصاب رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دور زوال میں جب زکوۃ کی وصولی کا صحیح نظام موجود نہ رہا تب بھی اصحاب مال کی ایک بڑی تعداد خودبخود اس کی ادائیگی کا اہتمام کرتی رہی اور اب بھی کرتی ہے۔ ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ چاندی کے نصاب کی مالیت سونے کے نصاب کے مقابلے میں بہت کم بنتی ہے۔ یہ درست ہے اس سلسلے میں بات یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے زکوۃ کا نصاب مقرر فرماتے ہوئے یہ التزام نہیں فرمایا کہ تمام اشیاء کے نصاب ہم مالیت ہوں۔ مختلف اشیاء کے نصاب مثلاً پانچ اونٹ، تیس گائیں، چالیس بکریاں اور پانچ وسق (750 کلوگرام) غلہ یا کھجور کی مالیت مساوی نہ تھی جیسا کہ آگے دیے ہوئے قیمتوں کے چارٹ سے واضح ہو جائے گا۔ ہم نے یہ چارٹ مندرجہ ذیل صحیح یا حسن درجے کی روایات سےمرتب کیا ہے۔ 1) حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔ [صحیح البخاري‘ الجهاد والسیر‘ باب ماقیل فیئ درع النبي ﷺ والقمیص في الحرب‘حدیث:2916]
2) حضرت انس نقدی کے حوالے سے زرہ رہن رکھ کر حاصل کیے جانے والے قرضے کی مالیت بتاتے ہوئے فرماتے ہیں آپ ﷺ نے اپنی زرہ ایک دینا ر کے بدلے میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی وفات تک یہ ایک دینار میسر نہ آیا کہ دے کر زرہ چھڑا لیتے۔ [صحیح ابن حبان‘ الرھن‘باب ثمن الشعیر الذي کان للیھودي علی المصطفیٰ ﷺ عند رھنه إياه درعه‘ حدیث:5907 ]
3) رسو ل اللہ ﷺ نے دیت کے لیے سو اونٹ مقرر فرمائے، لیکن شہر والوں کے لیے ان کی قیمت چار سو دینار یا ان کی ہم مالیت چاندی /درہم مقرر فرمائی۔ یہ قیمت اونٹوں کی قیمتوں میں کمی بیشی کےمطابق گھٹتی بڑھتی رہتی تھی، اس لیے آپ ﷺ ہی کے عہد میں یہ قیمت چار سو سے آٹھ سو دینار تک پہنچ گئی۔ [سنن النسائي‘ القسامة‘باب ذکر اختلاف علی خالد الحذاء‘حدیث:4805‘ إرواء الغلیل‘ حدیث:2199]
4) حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے ان کا تھکا ماندہ اونٹ ایک اوقیہ چاندی کے عوض خریدلیا۔ [سنن النسائي‘ البیوع‘باب البیع یکون فیه الشرط فيصح البيع والشرط‘ حدیث:4641]
اور ایک اوقیہ چاندی چالیس درہم کے برابر تھی۔ 5)حضرت انس کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق فریضئہ زکوۃ کے بارے میں ان کےلیے یہ تحریر لکھی..... جس آدمی کے ذمے زکوۃ میں جذعہ (چار سال کی اونٹنی) ہو لیکن اس کے پاس حقہ (تین سال کی اونٹنی) ہوتو حقہ قبول کر لیں اور ساتھ دو بکریاں میسر نہ ہوں تو بیس درہم وصول کریں..... [صحیح البخاي‘ الزکوة‘باب من بلغت عندہ صدقه بنت مخاض ولیست عندہ‘حدیث:1453]
ان احادیث کی روشنی میں رسول اللہ ﷺ کےعہد میں مختلف اشیاء کا چارٹ اس طرح بنتا ہے۔ اس میں مختلف اوقات میں دیت کی مقدار کے تعین کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اونٹ دینار درہم شعیر 100 400۔800 8000 1 30 صاع اونٹ دینار درہم بقر غنم 100 1000 12000 200 2000 ٭حضرت عمر ؓ نے زمانے میں اونٹ مہنگے ہو گئے تو آپ نے دیت کی قیمتوں پر نظر ثانی فرمائی اورنئی قمتیں یہ سامنے آئیں۔ دیکھیے: [ابوداود‘ الدیات‘ باب الدیه کم هى‘ حدیث:4542]
اس دور میں غلے کی قیمتوں کا تعین ان احادیث کی مدد سے کیا جا سکتا ہے: ٭حضرت امیر معاویہ ؓ نے اپنے دور میں لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میرا خیال ہےکہ شام کی گندم سمراء کے دو مد (1/2صاع) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں۔ لوگوں نے اسے قبول کر لیا، لیکن اس حدیث کو روایت کرنے والیے جلیل القدر صحابی حضرت ابوسعیدخدری ؓ نے خود اس بات کو قبول نہیں کیا۔ [ابوداود‘ الزکوة‘باب کم یؤدی في صدقة الفطر‘ حدیث:1616]
٭حضرت عمر بن عبدالعزیز سے ثابت ہے کہ آپ نے صدقۃ الفطر کے لیے گندم ما نصف صاع اور ان لوگوں کے لیے جنہیں بیت المال سے (نقد) عطیہ ملتا تھا، نصف درہم مقرر فرمایا۔ [المحلی، الزکوة‘ مسئلة مقدار ما يخرج زكاة الفطر:6/130]
حضرت امیر معاویہ ؓ اور عمر بن عبدالعزیز کےعہد میں غلے کی قمیت کا چارٹ اس طرح بنے گا: گندم جو درہم ½ صاع 1 صاع ½ ٭حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں اونٹ کی قیمت 100 درہم ہوگئی تو اس طرح دیت 100 اونٹ کے مقابل 10000 درہم قرار پائی۔ [المحلی‘ الدیة، أحکام شبه العمد:10/300]
٭ان تمام احادیث کو سامنے رکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اونٹ جن کے لیے عرب مال کا لفظ بولتے تھے، قیمت میں سب سے زیادہ مستحکم تھے انہی کو دیت میں اصل قرار دیا گیا۔ ان کے بعد سونا مستحکم تھا اور کرنسی کے طور پر استعمال ہونے کے لائق تھا، اسی لیے قیمتوں کےتعین کے لیے اس کو بنیاد بنایا گیا۔ مذکورہ بالا احادیث اور چارٹوں کے ذریعے سے زکوۃ کے نصاب یعنی 5 اونٹوں کو بنیاد بنا کر قیمتوں کا چارٹ اس طرح بنتا ہے: اونٹ دینار درہم بقر غنم غلہ شعیر تمر عہدرسالت 1
➍ 8 40۔80۔
➍ 8۔ 120 صاع 2 وسق عہد عمرؓ 1 10 120 2 20۔ 300صاع 5 وسق قیمتوں کے حوالے سے 5 اونٹوں کو بنیاد بنائیں، جو زکوۃ کا نصاب ہیں، تو قیمتوں کا تناسب یہ ہوگا: اونٹ دینار درہم بقر غنم غلہ شعیر تمر عہدرسالت 5 20۔40 200۔400۔ 20۔40۔ 600صاع 10وسق عہدعمر 5 50 600 10 100۔ 1500صاع 15وسق رسول اللہ ﷺ نے زکوۃ کا جونصاب مقرر فرمایا وہ یہ تھا: زکوۃ کانصاب اونٹ دینار درہم بقر غنم غلہ شعیر تمر 5 20 200 30 40 300صاع 5 وسق رسالت مآب ﷺ کے عہد میں قیمتوں کے چارٹ اور زکوۃ کے نصاب کا موازنہ کریں تو مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں: 1) رسول اللہ ﷺ نے تمام اشیاء کے نصاب کو لازمی طور پر ہم مالیت نہیں رکھا۔ یہ بات گایوں اور غلے کی مالیت کے فرق سے زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے۔ 2خود رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قیمتوں میں تبدیلی آ گئی۔ آپ نے نقد دیت قیمتوں کے مطابق بڑھا دی، زکوۃ کے نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ 3)حضرت عمر کے عہد میں قیمتوں کا فرق اور زیادہ ہو گیا۔ حضرت عمر نے بھی دیت میں دینار اور درہم بڑھا دیے لیکن زکوۃ کا نصاب جوں کا توں رکھا۔ 4) حضرت معاریہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز نے صدقۃ الفطر کے معاملے میں قیمتوں کے پیش نظر اجتہاد فرمایا۔ (حضرت ابو سعید خدری جیسے صحابی نے حضرت معاویہ کے اجتہاد کو قبول نہیں کیا) لیکن اصل زکوۃ کے نصاب میں کسی تبدیلی کا سوچا تک نہیں۔ ان حقائق سے ثابت ہو جاتاہے: (الف) رسول اللہ ﷺ نے نصاب کے تعین میں معاشرے کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھا ہے۔ مالیت کو دوسری حیثیت دی ہے۔ اسی لیے آپ نے غلے کا نصاب جس کی ضرورت سب سے فائق ہوتی ہے، سب سے کم رکھا تاکہ بنیادی ضرورت کی یہ چیز لوگ آپس میں زیادہ سے زیادہ تقسیم کریں اور کوئی محروم نہ رہے۔ اس کے بعد غنم بکریوں میں نصاب نسبتاً کم ہے کہ ایک گھرانے کی بنیاد ی ضرورتوں کے حوالے سے بکری کی اونٹ یا گائے کی نسبت ضرورت زیادہ تھی۔ (ب) آپ ﷺ نے اونٹوں کی مالیت کے مطابق دینار و درہم کا نصاب مقرر فرمایا لیکن جب یہ نقدی اونٹ کے مقابلے میں سستی ہوگئی تو دیت کی قیمتوں میں تبدیلی کی، تاہم زکوۃ کے نصاب کو ایک ہی جگہ منجمد رکھا۔ خلفاء راشدین ؓ نے بھی قیمتوں کی تبدیلیوں کے باوجود زکوۃ کا نصاب علی حالہ قائم رکھا اور آج تک اسی صورت میں برقرار ہے۔ زکوۃ چونکہ عبادت ہے، اس لیے اس کے طریق میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ اس کے مقابلے میں دیت جان یا عضو کی قیمت ہے اور اس میں اونٹ کو بنیاد بنایا گیا، اس لیے وہ قیمتوں کی تبدیلی نظر تبدیل کی جاتی رہی۔ آج کل زکوۃ کو ٹیکس کے نظام پر قیاس کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ زیادہ مال داروں سے زیادہ زکوۃ وصول کرنی چاہیے اس لیے کہ جتنا کسی کا مال بڑھتا ہے اس کی قدر اس شخص کی حقیقی ضرورت کے مقابل کم ہوتی جاتی ہے کیونکہ اسے اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی کہ محتاج کو۔ یہ قیاس درست نہیں۔ زکوۃ میں امیروں کے لیے قدر میں کمی کی بجائے فقیروں کی شدید احتیاج کی نسبت سے نصاب اور شرح کا تعین کیا گیا ہے۔ 5 وسق غلہ اس زمانے میں 5 اونٹوں کی قیمت کا آدھا یا اس سے بھی کم بنتا تھا۔ پھر اس میں زکوۃ بھی چالیس فیصد کی بجائے دس فیصد یا اگر بارانی ہو تو 20 فیصد رکھی گئی ہے۔ مقصد یہی ہے کہ فقراء کو غلے کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے اس لیے زیادہ سے زیادہ مقدار میں ان کو پہنچایا جائے چاہے نسبتاً کم مال داروں کی اس غرض سے قربانی دینی پڑے۔ پھر یہ قربانی ان کے لیے عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے۔ اسلامی معاشرے کا حسن یہ ہے کہ اس میں ایثار کرنے والوں کا دائرہ وسیع ترین ہوتا ہے۔ زکوۃ عبادت ہے، ٹیکس کی طرح نہیں۔ ہاں زائد از ضرورت مال اللہ کی راہ میں خرچ کروانے کے لیےالگ طریقے موجود ہیں۔ اور مسلمان کسی حکومت کی طرف سے وصولی کے بغیر بھی انفاق کے ان طریقوں کو اپناتے ہیں، حکومت بھی اس سلسلے میں اقدامات کر سکتی ہے۔ تعین نصاب کے اسلامی طریقے کی ایک اور بڑی حکمت یہ ہے کہ ہر چیز میں الگ الگ نصاب اتنا مقرر کیا گیا جو ایک کنبے کی ضروریات کے لیے کفایت کر سکتا ہو۔ حضر ت شاہ ولی فرماتے ہیں: دو سو درہم ایک کنبے کی سال بھر کی ضرورت کے لیے کفایت کرتے ہیں۔ [حجۃ اللہ، باب: زکوۃ کی مقدر کا بیان]
اگر کفالت کا ذریعہ اونٹ ہوں تو ایک کنبے کے لیے کم از کم 5 جانور اور اگر بکریاں ہوں تو تقریباً چالیس کی ضرورت ہو گئی، چاہے ان کی قیمت اونٹوں سےکم بنتی ہو اور کھیتی والوں کے لیے سال بھر کا غلہ تقریباً 19 من ضروری ہو گا۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ کھیتی میں اصل زمین پر زکوۃ نہیں بلکہ صرف پیداوار پر زکوۃ ہے، جبکہ مویشی والوں کے اصل سرمائے پر زکوۃ ہے۔ نصاب زکوۃ کی حکمتوں کو سمجھنے کے لیے ایک او ربات جس پر دھیان دینا ‎چاہیے یہ ہے کہ کھیت میں ہر سال ایک یا دو مرتبہ پیداوار ہوتی ہے اور بیج کےمقابلے میں اس میں اضافے کی مقدار بہت زیادہ ہے، جبکہ اونٹ اور گائے میں اضافے کے لیے تین یا چار سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بھیڑ بکریوں میں نئی نسل نسبتاً زیادہ جلدی یعنی ڈیڑھ دو سال میں بڑی ہو جاتی ہے۔ یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اونٹ یا بھیڑ بکریاں جن کی زکوۃ رکھی گئی ہے، جنگلوں، چراگاہوں سے اپنا رزق حاصل کرتی ہیں۔ گائیوں کے لیے مزید کچھ نہ کچھ اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ ان کی پرورش میں بھی زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں اس لیے ان ا نصاب اونٹ کے مقابلے میں زیادہ رکھا ہے۔ فقہاء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ بھینسوں کو بھی، اگر بنیادی طور پر چرنے والی ہو ں جیسے جنوبی ایشیا اور افریقہ کے بعض ممالک میں اب بھی یہی طریقہ موجود ہے تو ان کی گائیوں پر قیاس کرنا ہوگا۔ [الفقه الإسلامي و أدلته‘ حدیث:2‘ ص:842]
کیونکہ وہ اسی طرح گائیوں کی ہم جنس ہیں، جس طرح بھیڑیں اور بکریاں آپس میں ہم جنس ہیں نیز گائیوں اور بھینسوں ملاکر نصاب شمار ہو گا۔ دیکھیے: [موطأ‘ الصدقة‘ باب ما جاء في صدقة البقر]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1573