عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو“، پھر فرمایا: ”مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو جس کا جی چاہے“، یہ اس اندیشے سے فرمایا کہ لوگ اس کو (راتب) سنت نہ بنا لیں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1281]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/التہجد 35 (1183)، والاعتصام 27 (7368)، (تحفة الأشراف: 9660)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/55) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مغرب سے پہلے دو رکعت نفل پڑھنا مسنون ہے، یہی راجح اور قوی قول ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1281
1281۔ اردو حاشیہ: اذان مغرب کے بعد اقامت سے قبل دو رکعت سنت ادا کرنا مندوب اور مستحب عمل ہے۔ عہد رسالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انہیں ذوق و شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ ان کی بابت فرمایا: «صلُّوا قبلَ صلاةِ المغربِ»”مغرب کی نماز سے قبل نماز پڑھو۔“ تیسری مرتبہ فرمایا: «لمن شاء»”جس کا دل چاہے۔“[صحيح بخاري: 1183 وصحيح مسلم: 838] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لیے فرمایا کہ کہیں لوگ اسے سنت نہ سمجھ لیں (سنت مؤکدہ نہ بنا لیں۔) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا معمول تھا کہ اذان مغرب کے فوراًَ بعد اور اقامت سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں مؤذن اذان مغرب سے فارغ ہوتا تو ہم سب ستونوں کی طرف دوڑتے اور دو رکعتیں ادا کرتے، لوگ اس کثرت سے دو رکعتیں پڑھتے کہ نووارد سمجھتا مغرب کی نماز ہو چکی ہے۔ دیکھیے: [صحيح مسلم، صلاة المسافرين، حديث: 837] نیز مرثد بن عبداللہ ایک مرتبہ حضرت عقبہ بن عامر کے پاس آئے اور کہا کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ابوتمیم مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھتے ہیں؟ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسی طرح پڑھتے تھے، انہوں نے پوچھا: اب کیوں نہیں پڑھتے؟ فرمانے لگے کہ مصروفیت کی وجہ سے۔ دیکھیے: [صحيح بخاري: 1184] علاوہ ازیں صحیح ابن حبان میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا کی ہیں۔ دیکھیے: [صحيح ابن حبان: 1588] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے ہوتے ہوئے ایسی محبو ب و مرغوب سنت کو قول امام اور فتوائے مذہب کی بنا پر ترک کر دینا بہت بڑی محرومی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1281
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 286
´نفل نماز کا بیان` سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔ مغرب سے پہلے نماز پڑھو پھر تیسری مرتبہ فرمایا (یہ حکم اس شخص کے لئے ہے) جو پڑھنا چاہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس اندیشہ کے پیش نظر فرمایا کہ لوگ اسے سنت نہ بنا لیں۔ (بخاری) ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب سے پہلے دو رکعت ادا فرمائیں اور مسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ غروب شمس کے بعد (فرض نماز سے پہلے) دو رکعت پڑھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ملاحظہ فرما رہے ہوتے تھے، نہ تو آپ ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ منع فرماتے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 286»
تخریج: «أخرجه البخاري، التهجد، باب الصلاة قبل المغرب، حديث:1183، وابن حبان (موارد الظمآن):617، وحديث أنس أخرجه مسلم، حديث:836.»
تشریح: مغرب کے فرضوں سے پہلے دوگانہ پڑھنا سنن زائدہ میں شمار ہوتا ہے‘ سنن مؤکدہ میں نہیں۔ ان کا پڑھنا مستحب ہے‘ اس لیے یہ پڑھنی چاہییں۔
راویٔ حدیث: «عبداللہ بن مغفل مزنی» مزینہ قبیلے سے تعلق رکھنے کی بنا پر مزنی (میم پر ضمہ اور زا پر فتحہ ہے) کہلائے۔ مغفل میں ”میم“ پر ضمہ ”غین“ پر فتحہ اور ”فا“ پر فتحہ اور تشدید ہے۔ یہ اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔ پہلے مدینہ میں رہائش رکھی‘ بعدازاں مصر میں سکونت اختیار کر لی۔ یہ ان دس اصحاب میں شامل تھے جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اہل بصرہ کو تعلیم دینے کے لیے بھیجا۔ ۶۰ ہجری میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 286
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1183
1183. حضرت عبداللہ مزنی ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا کرو۔“ تیسری مرتبہ فرمایا: ”جس کا دل چاہے۔“ یہ اس لیے فرمایا کہ مبادا لوگ اسے سنت مؤکدہ بنا لیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1183]
حدیث حاشیہ: حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ مغرب کی جماعت سے قبل ان دو رکعتوں کو پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1183
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7368
7368. سیدنا عبداللہ مزنی ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”نماز مغرب سے پہلے نماز پڑھو“ تیسری مرتبہ فرمایا: ”یہ اس کے لیے جو پڑھنا چاہے۔“ کیونکہ آپ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ لوگ اسے لازمی سنت بنالیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7368]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ امر وجوب کے لیے ہے جب تو آپ نے تیسری بار لمن شاء فرما کر یہ وجوب رفع کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7368
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1183
1183. حضرت عبداللہ مزنی ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا کرو۔“ تیسری مرتبہ فرمایا: ”جس کا دل چاہے۔“ یہ اس لیے فرمایا کہ مبادا لوگ اسے سنت مؤکدہ بنا لیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1183]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھو، مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھو۔ “ پھر تیسری مرتبہ یہ الفاظ بھی ساتھ کہے: ”جو پڑھنا چاہے۔ “ آپ نے یہ بات اس اندیشے کے پیش نظر فرمائی کہ کہیں لوگ اسے سنت لازمہ نہ بنا لیں۔ (صحیح ابن خزیمة: 267/3) اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا ایک عمومی ارشاد بھی ہے کہ ہر دو اذانوں، یعنی اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے۔ لیکن تیسری مرتبہ اس فرمان کے ساتھ یہ فرمایا کہ صرف اس کے لیے جو پڑھنا چاہے۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 824)(2) رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث کے آخر میں جو فرمایا ہے اس سے ان کے استحباب کی نفی کرنا مقصود نہیں، کیونکہ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ آپ کسی ایسی بات کا حکم دیں جو مستحب نہ ہو، بلکہ یہ حدیث اس نماز کے مستحب ہونے کی زبردست دلیل ہے۔ صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن بریدہ ؓ خود بھی مغرب سے پہلے دو رکعات پڑھتے تھے۔ (صحیح ابن خزیمة: 266/3) اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اس سنت کو جاری نہیں رکھا گیا بلکہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے دور میں چھوڑ دیا گیا تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1183
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7368
7368. سیدنا عبداللہ مزنی ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”نماز مغرب سے پہلے نماز پڑھو“ تیسری مرتبہ فرمایا: ”یہ اس کے لیے جو پڑھنا چاہے۔“ کیونکہ آپ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ لوگ اسے لازمی سنت بنالیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7368]
حدیث حاشیہ: 1۔ دراصل امر کا صیغہ وجوب کے لیے ہوتا ہے بشرطیکہ کوئی ایسا قرینہ حائل نہ ہو۔ جو اسے وجوب سے پھیر دے۔ اگر وہاں کوئی قرینہ صارفہ پایا گیا تو اس وقت اپنی وضع اور بناوٹ سے ہٹ کر وجوب کے لیے نہیں رہتا جیسا کہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومرتبہ حکم دیا کہ نماز مغرب سے پہلے نماز پڑھو تیسری مرتبہ جو پڑھنا چاہے فرمایا۔ یہ الفاظ ایک ایسا قرینہ ہے جو اس حکم کو وجوب سے پھیر رہا ہے۔ اس میں کھلا اشارہ ہے کہ مغرب سے پہلے دو نفل ادا کرنا ضروری نہیں لیکن اس کے باوجود لوگ بکثرت پڑھتے تھے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ مدینہ طیبہ میں جب مؤذن مغرب کی اذان دیتا تو ہم سب لوگ ستونوں کی طرف دوڑتے اور دو رکعت پڑھتے۔ لوگ اس کثرت سے دورکعت پڑھتے کہ اجنبی انسان گمان کرتا کہ مغرب کی جماعت ہو چکی ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1939(837) حضرت مرثد بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور کہا: یہ عجیب بات نہیں کہ ابو تمیم مغرب کی نماز سے پہلے دو رکعت پڑھتے ہیں؟ حضرت عقبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پڑھتےتھے۔ اس نے پوچھا: اب کیوں نہیں پڑھتے؟ فرمایا: مصروفیت کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے۔ (صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1184) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے مروی ہے کہ ہم غروب آفتاب کے بعد دو رکعت ادا کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھ رہے ہوتے نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس کا حکم دیتے اور نہ اس سے منع ہی کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1938(838) 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اصل میں امر وجوب کے لیے ہوتا ہے لیکن اگر امر سے پھیرنے والا کوئی قرینہ آجائے تو وجوب سے ہٹ جاتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لِمَنْ شَاءَ) فرما کر اس وجوب کو ختم کیا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7368