الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابي داود
كتاب التطوع
کتاب: نوافل اور سنتوں کے احکام و مسائل
11. باب الصَّلاَةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ
11. باب: مغرب سے پہلے سنت پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1282
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْبَزَّازُ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ، عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: أَرَآكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:" نَعَمْ رَآنَا" فَلَمْ يَأْمُرْنَا وَلَمْ يَنْهَنَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھیں۔ مختار بن فلفل کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یہ نماز پڑھتے دیکھا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ نے ہم کو دیکھا تو نہ اس کا حکم دیا اور نہ اس سے منع کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1282]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المسافرین 55 (836)، (تحفة الأشراف: 1576) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (836)

   صحيح البخاريكبار أصحاب النبي يبتدرون السواري عند المغرب
   صحيح مسلمنصلي على عهد النبي ركعتين بعد غروب الشمس قبل صلاة المغرب فقلت له أكان رسول الله صلاهما قال كان يرانا نصليهما فلم يأمرنا ولم ينهنا
   سنن أبي داودصليت الركعتين قبل المغرب على عهد رسول الله
   سنن ابن ماجهالمؤذن ليؤذن على عهد رسول الله فيرى أنها الإقامة من كثرة من يقوم فيصلي الركعتين قبل المغرب

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 1282 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1282  
1282۔ اردو حاشیہ:
یعنی لازمی حکم نہیں دیا کہ ضرور پڑھا کرو بلکہ ترغیب کے طور پر پڑھنے کا حکم دیا جیسا کہ اس سے پہلی روایت میں ہے، علاوہ ازیں پڑھنے والوں کو منع نہیں فرمایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی اس عمل کی توثیق ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1282   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1163  
´مغرب سے پہلے کی دو رکعت سنت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مؤذن اذان دیتا تو لوگ اتنی کثرت سے مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے کہ محسوس ہوتا کہ نماز مغرب کے لیے اقامت کہہ دی گئی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1163]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعت سنت غیر مؤکدہ پڑھنا صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کامعمول تھا۔

(2)
اقامت ہونے پر نماز باجماعت کی ادایئگی کے لئے سب لوگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین مغرب کی پہلی سنتیں پڑھنے کےلئے بھی اس طرح کھڑے ہوجاتے تھے یعنی تمام صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین پڑھتے تھے۔

(3)
بعض لوگ شبہ پیش کرتے ہیں۔
چونکہ نماز مغرب کا وقت مختصر ہوتا ہے۔
اس لئے اس سے پہلے سنتیں پڑھنے سےفرض نماز کی ادایئگی میں تاخیر ہوجاتی ہے۔
لیکن یہ شبہ درست نہیں کیونکہ فرض سے پہلےاور بعد کی سنتیں اسی نماز کا حصہ ہوتی ہیں۔
اس لئے سنتوں کی ادایئگی کو فرض میں تاخیر کا سبب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ فرض نماز کا مسنون وقت یہی ہے کہ اذان کے بعد دو رکعت سنت پڑھ کرجماعت کھڑی ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1163   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1938  
مختار بن فلفل سے روایت ہے،انھوں نے کہا: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا:حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عصر کے بعد نماز پڑھنے پر ہاتھوں پر مارتے تھے اور ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےدور میں ہم سورج کے غروب ہو جانے کے بعد نماز مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھتے تھے۔ تو میں نے ان سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو رکعت پڑھتے تھے؟ انھوں نے کہا: آپﷺ ہمیں پڑھتا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1938]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دوسری روایات سے آپ کا حکم دینا ثابت ہے،
آپ نے فرمایا تھا:
(صَلُّوا قَبْلَ صَلاَةِ الْمَغْرِبِ)
"اور مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔
"(بخاری)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1938   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 503  
503. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے بڑے بڑے صحابہ کرام کو دیکھا، وہ مغرب کی نماز کے وقت ستونوں کے سامنے جلدی چلے جاتے تھے۔ شعبہ نے اس روایت میں یہ اضافہ بیان کیا ہے: تا آنکہ نبی ﷺ (اپنے حجرے سے) باہر تشریف لاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:503]
حدیث حاشیہ:
مغرب کی اذان اورنماز کے درمیان دوہلکی پھلکی رکعتیں پڑھنا سنت ہے۔
عہدرسالت میں یہ صحابہ ؓ کا عام معمول تھا۔
مگربعد میں نبی کریم ﷺ نے فرمادیا کہ جو چاہے ان کو پڑھے جو چاہے نہ پڑھے۔
اس حدیث سے ستونوں کو سترہ بناکر نماز پڑھنے کا ثبوت ہوا اور ان دورکعتوں کا بھی جیسا کہ روایت سے ظاہر ہے۔
شعبہ کی روایت کو خودامام بخاری ؒ نے کتاب الأذان میں وصل کیاہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 503   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:503  
503. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے بڑے بڑے صحابہ کرام کو دیکھا، وہ مغرب کی نماز کے وقت ستونوں کے سامنے جلدی چلے جاتے تھے۔ شعبہ نے اس روایت میں یہ اضافہ بیان کیا ہے: تا آنکہ نبی ﷺ (اپنے حجرے سے) باہر تشریف لاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:503]
حدیث حاشیہ:

ان د ونوں روایات سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت سلمہ بن اکوع ؓ اور دیگرکبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ستونوں کو بطور سترہ استعمال کرتے تھے۔
پہلی روایت میں ہے کہ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ اس ستون کے پاس نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے جس کے نزدیک قرآن مجید رکھا رہتا تھا۔
صحیح مسلم میں ہے کہ وہ صندوق کے پیچھے نماز پڑھتے۔
اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا ایک نسخہ صندوق میں بند کر کے مسجد نبوی کے ایک ستون کے پاس رکھا رہتا تھا۔
اس ستون کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
مصحف شریف کے لیے ایک صندوق تھا جس میں وہ (حضرت عثمان ؓ کے وقت سے)
رکھا جاتا تھا۔
چونکہ اس کے لیے ایک خاص جگہ مقررتھی، اس لیے اس سے اسطوانہ کی تعیین کی گئی۔
اس ستون کے متعلق ہمارے بعض مشائخ نےہمیں تحقیقی طور پر بتایا ہے کہ وہ روضہ مکرمہ کے درمیان میں ہے اور اسطوانہ مہاجرین کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ اگر لوگ اس کو پہچان لیتے تو قرعہ اندازی کے ذریعے سے اس کا قرب تلاش کرتے۔
آپ نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کو راز کے طور پر بتایا تھا تو وہ اس کے پاس بکثرت نمازیں پڑھا کرتے تھے، پھر میں نے ابن نجار کی تاریخ مدینہ میں بھی یہ بات دیکھی۔
اس میں یہ بھی ہے کہ مہاجرین قریش اس ستون کے پاس جمع ہوا کرتے تھے۔
اور اس سے پہلے محمد بن حسن نے بھی اخبار مدینہ میں ایسا ہی رواج کیا ہے۔
(فتح الباري: 446/1)

مسجد نبوی میں ایک ایسا مقام ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ قراردیا ہے۔
اس میں چند ایک ستون ہیں، مثلاً: 1۔
اُسطوانہ علم مصلی نبوی۔

اُسطوانہ عائشہ۔

اسطوانہ توبہ۔

اسطوانہ سریر۔

اسطوانہ علی۔

اسطوانہ وفود۔
ہم ذیل میں صرف دو ستونوں کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کی روایت اور حافظ ابن حجر ؒ کی مذکورہ وضاحت سے ہے:
۔
اسطوانہ علم مصلیٰ نبوی:
یہ ستون، حضرت عائشہ ؓ کی طرف منسوب ستون سے متصل مغربی جانب ہے۔
صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث سلمہ میں اسی ستون کا ذکر ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ اسی کو تلاش کرکے اس کے پاس نماز پڑھتے تھے۔
جب ان سے وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو بھی اسی طرح اس جگہ کو تلاش کرتے اور اس جگہ نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے یہاں آخر دم تک نماز پڑھائی۔
حضرت عثمان ؓ کے عہد خلافت میں مصحف شریف جس صندوق میں رکھا گیا تھا جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے، وہ اسطوانے سے دائیں جانب تھا۔
۔
اسطوانہ عائشہ:
۔
یہ ستون، روضۃ من ریاض الجنۃ کے درمیان ہے۔
اس پر سنہرے حروف میں اس کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔
اس کو اسطوانہ مہاجرین، اسطوانہ قرعہ اوراسطوانہ مخلقہ کہتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے تحویل قبلہ کے بعد چند روز تک اس کے پاس نماز پڑھائی تھی، پھر اپنے مصلی پر آخر وقت تک نماز پڑھاتے رہے۔
اور رسول اللہ ﷺ اس پر ٹیک لگا کر شمال کی طرف منہ کرکے بیٹھا کرتے تھے۔
چونکہ عائشہ ؓ نے اس کی تعین کی تھی، اس لیے اسطوانہ عائشہ کے نام سے مشہور ہوا۔
وضاحت:
۔
رسول اللہ ﷺ کا پہلا مصلیٰ مسجد نبوی کے شمال میں تھا جبکہ آپ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھائی۔
دوسرا مصلیٰ اسطوانہ عائشہ کے پاس تھا جہاں آپ نے تحویل قبلہ کے بعد چند روز تک نماز پڑھائی۔
تیسرا مصلیٰ اسطوانہ عائشہ ؓ سے متصل مغربی جانب اسطوانہ علم مصلیٰ کے پاس تھا جو آخر عمرتک رہا۔
مصلیٰ منبر نبوی اور مصلیٰ نبوی کا درمیانی فاصلہ 14 ذراع اور ایک بالشت ہے۔
(وفاء الوفاء: 267/1)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جس ستون کے پاس مصحف شریف رکھا گیا تھا، وہ اسطوانہ مہاجرین نہیں بلکہ اسطوانہ علم مصلیٰ نبوی ہے۔
یہ بات حافظ ابن حجر ؒ کی بیا ن کردہ تحقیق کے خلاف ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 503