الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
5.32. مسلمان جماعت سے دوری کے مفاسد
حدیث نمبر: 185
‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شبْرًا فقد خلع رقة الْإِسْلَامِ مِنْ عُنُقِهِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس نے جماعت سے بالشت برابر علیحدگی اختیار کی تو اس نے اپنی گردن سے اسلام کی رسی (یعنی پابندی) اتار دی۔ اس حدیث کو احمد نے روایت کیا ہے۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 185]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه أحمد (5/ 180 ح 21894) و أبو داود (4758)
٭ و روي ابن أبي عاصم في السنة (1053)، بسند حسن عن خالد بن وھبان عن أبي ذر بلفظ: ’’من فارق الجماعة والإسلام فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه‘‘ و خالد ھذا تابعي معروف و ثقه ابن حبان و جھله الحافظ في تقريب التهذيب و أشار الحاکم (1/ 117) بأن العلماء يحتجون بحديثه و حديثه حسن بالشواھد و له شاھد عند الترمذي (2863) وھو حديث صحيح .»

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   سنن أبي داودمن فارق الجماعة شبرا فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه
   مشكوة المصابيحمن فارق الجماعة شبرا فقد خلع رقة الإسلام من عنقه

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 185 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 185  
تحقیق الحدیث
حسن ہے۔
اس روایت کی سند خالد بن وہبان کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
خالد مذکور کو حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات [207/4] میں ذکر کر کے کہا:
وہ ابوذر الغفاری کا خالہ زاد تھا، اس سے لوگوں نے روایت کی ہے۔
حاکم نے اسے تابعی معروف یعنی مشہور تابعی قرار دیا۔
سیدنا الحارث الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
«فانه من فارق الجماعة قيد شبر فقد خلع ربقة الاسلام من عنقه الا ان يرجع»
بے شک جو شخص بالشت برابر جماعت سے دور ہوا تو اس نے اسلام کا طوق اپنی گردن سے اتار پھینکا، الا یہ کہ وہ رجوع کر لے یعنی واپس آ جائے۔ [سنن الترمذي: 2863 وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب وسنده صحيح، الشريعة للآجري 287/1ح 7 وسنده صحيح، دوسرا نسخه ص 8]
اس شاہد کے ساتھ درج بالا حدیث بھی حسن ہے۔

فائدہ:
خالد بن وہبان کی بیان کردہ حدیث کتاب [السنة لابن ابي عاصم 1053] میں «من فاروق الجماعة والاسلام فقه خلع ربقة الاسلام من عنقه» (جس نے اسلام اور جماعت سے جدائی اختیار کی تو اس نے اسلام کا طوق اپنی گردن سے نکال پھینکا۔) کے متن سے موجود ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ اجماع شرعی حجت ہے۔
➋ خلیفہ اور مسلمان حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں بلکہ کبیرہ گناہ ہے الا یہ کہ فریقین یا ایک فریق کسی اجتہادی خطا میں مبتلا ہو تو وہ معذور ہے۔
➌ سلف صالحین کے متفقہ فہم کے خلاف ہر قسم کی تشریح، تاویل اور استدلال مردود ہے۔
➍ باجماعت نماز قائم کرنے کا ہمیشہ اہتمام کرنا چاہئے۔
➎ امت اجابت میں گمراہی کی اصل وجوہات چار ہیں:
اول:
قرآن و حدیث اور اجماع کا انکار (مثلا تکفیری خوارج، معتزلہ اور منکرین حدیث وغیرہ)
دوم:
سلف صالحین کے متفقہ فہم سے فرار (مثلاً جہمیہ، مرجیہ، روافض اور قدریہ وغیرہ)
سوم:
تاویلات باطلہ اور مردود روایات سے پیار (مثلا اہل بدعت اور اہل شرک کے تمام گروہوں کا طرز عمل)
چہارم:
علمائے حق اور اہل حق سے برسرپیکار (مثلاً تکفیری اور تنفیری خوارج وغیرہ)
➏ نصوص شرعیہ کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ مسلمانوں میں ہمیشہ اتفاق ہو۔
➐ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 9 سے ثابت ہے کہ باغی بغاوت کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا بلکہ اہل ایمان میں شامل رہتا ہے، لہٰذا دوسری نصوص شرعیہ کو چھوڑ کر صرف وعید و تشدید والے دلائل کی وجہ سے تکفیر کرنا باطل ہے۔

فائدہ:
تکفیری ان لوگوں کو کہتے ہیں جو صحیح العقیدہ مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں اور تنفیری ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو صحیح العقیدہ مسلم علماء کی توہین و تنقیص کرتے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 185   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4758  
´خوارج سے قتال کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جماعت ۲؎ سے ایک بالشت بھی علیحدگی اختیار کی تو اس نے اسلام کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4758]
فوائد ومسائل:
جماعة سے مراد اہل السنتہ والجماعتہ ہیں جو عقیدہ توحید اور تمسک بالسنہ کو دین کی بنیاد مانتے ہیں، اسی پر آپس میں متحدہ متفق ہیں۔

2:مسلمانوں کے حاکم سے کوئی گناہ اور غلطی ہو جائے تو اس کے خلاف بغاوت کرنا جائز نہیں الا یہ کہ وہ صریح کفر کا مرتکب ہو یا جب وہ نفاذدین کے راستے سے انحراف کریں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4758