الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
5.21. وصیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
حدیث نمبر: 165
‏‏‏‏وَعَنْهُ: قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَأَوْصِنَا قَالَ: «أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ كَانَ عبدا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ من يَعش مِنْكُم يرى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ إِلَّا أَنَّهُمَا لَمْ يَذْكُرَا الصَّلَاةَ
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک روز رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر آپ نے اپنا رخ انور ہماری طرف کیا تو ایک بڑے بلیغ انداز میں ہمیں وعظ و نصیحت فرمائی جس سے آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور دل ڈر گئے، ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو الوداعی نصیحتیں معلوم ہوتی ہیں، پس آپ ہمیں وصیت فرمائیں، تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے، سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں خواہ وہ (امیر) حبشی غلام ہو، کیونکہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلاف دیکھے گا، پس تم پر میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے، پس تم اس سے تمسک اختیار کرو اور داڑھوں کے ساتھ اسے پکڑ لو، اور دین میں نئے کام جاری کرنے سے بچو، کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اس حدیث کو احمد، ترمذی، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔البتہ امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے نماز کا ذکر نہیں کیا۔ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/حدیث: 165]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه أحمد (4/ 126، 127 ح 17275) و أبو داود (4607) والترمذي (2676 وقال: حسن صحيح) و ابن ماجه (43) [و صححه ابن حبان (الموارد: 102) والحاکم (1/ 95، 96) ووافقه الذهبي .] »

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   جامع الترمذيأوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن عبد حبشي من يعش منكم يرى اختلافا كثيرا إياكم ومحدثات الأمور فإنها ضلالة من أدرك ذلك منكم عليه بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ
   سنن أبي داودأوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن عبدا حبشيا من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا عليكم بسنتي وسنة الخلفاء المهديين الراشدين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنواجذ إياكم ومحدثات الأمور فإن كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة
   سنن ابن ماجهعليكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن عبدا حبشيا سترون من بعدي اختلافا شديدا عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ إياكم والأمور المحدثات كل بدعة ضلالة
   سنن ابن ماجهتركتكم على البيضاء ليلها كنهارها لا يزيغ عنها بعدي إلا هالك من يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا عليكم بما عرفتم من سنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ عليكم بالطاعة وإن عبدا حبشيا المؤمن كالجمل الأنف حيثما قيد انقاد
   مشكوة المصابيحاوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة وإن كان عبدا حبشيا فإنه من يعش منكم يرى اختلافا كثيرا

مشکوۃ المصابیح کی حدیث نمبر 165 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 165  
تحقیق الحدیث
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
اسے امام ترمذی کے علاوہ حافظ ابن حبان [الاحسان: 5، الموارد: 102] حاکم [المستدرك 1؍95، 96 ح329] اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔
◄ حافظ بغوی نے کہا:
«هذا حديث حسن» [شرح السنه 1؍205 ح102]
سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث دو تابعین نے سنی ہے:
① عبدالرحمٰن بن عمرو بن عبسہ السلمی صدوق ہیں۔ دیکھئے: [الكاشف للذهبي 2؍158]
بلکہ جمہور کی توثیق کو مدنظر رکھتے ہوئے قول راجح میں وہ ثقہ ہیں۔
② حجر بن حجر الکلاعی کو صرف حافظ ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے، لہٰذا وہ قول راجح میں مجہول الحال ہے، لیکن یاد رہے کہ اس حدیث میں وہ منفرد نہیں بلکہ عبدالرحمٰن بن عمرو: ثقہ صدوق نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔
ان دونوں تابعین سے خالد بن معدان الشامی رحمہ اللہ ثقہ تابعی نے یہ حدیث سنی ہے اور سماع کی تصریح بھی ہے، حالانکہ قول راجح میں خالد بن معدان تدلیس کے الزام سے بری ہیں۔ دیکھئے میری کتاب: [الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين ص38 ت46؍2]
خالد بن معدان سے ثور بن یزید [ثقه وصحيح الحديث/ ديكهئے ميري كتاب نماز ميں هاته باندهنے كا حكم اور مقام ص22] اور بحیر بن سعد [ثقه ثبت/ تقريب التهذيب: 640] نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ خلاصہ التحقیق یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ «والحمدلله»

فقه الحدیث:
➊ وعظ کے دوران میں آداب شرعیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے، ضرورت کے وقت خطیب سے سوال کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ مقصد فتنہ و فساد نہ ہو۔
➋ ایسے مسلمان حکمرانوں کی اطاعت ضروری ہے جو دین اسلام کو نافذ کرتے اور کتاب و سنت کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ ایسے صحیح العقیدہ مسلمان حکمرانوں کے خلاف نہ تو خروج کرنا جائز ہے اور نہ ان کے خلاف منبروں پر علانیہ تنقید جائز ہے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہر حال میں اور ہر وقت حجت ہے۔
حافظ ابن حبان فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: پس میری سنت کو لازم پکڑو۔ جب آپ کی امت میں اختلاف ہو گا، کے ذکر کے وقت میں واضح بیان ہے کہ جو شخص سنتوں (احادیث) کو مضبوطی سے پکڑتا ہے اور اسی کے مطابق فتویٰ دیتا ہے، اس کے علاوہ آراء (رائے و قیاس) کی طرف توجہ نہیں دیتا تو وہ قیامت کے دن فرقہ ناجیہ میں سے ہے، اللہ سے دعا ہے کہ وہ اپنے احسان کے ساتھ ہمیں اس میں شامل فرمائے۔ [الاحسان بترتيب صحيح ابن حبان 1؍180 ح5]
➍ خلفائے راشدین سے سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر بن خطاب، سیدنا عثمان بن عفان اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم مراد ہں، جیسا کہ سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حسن لذاتہ حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [مشكوٰة المصابيح بتحقيقي 5395] سنن ابی داود [4646] اور سنن الترمذی [2226] وغیرہ
◄ اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے علمائے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ خلفائے راشدین چار ہیں۔ اختصار کی وجہ سے دو بڑے سنی علماء کے حوالے پیش خدمت ہیں:
① امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ کا عقیدہ تھا کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اجمعین خلفاء (یعنی خلفائے راشدین) میں سے ہیں۔ دیکھئے: [مسائل عبدالله بن أحمد بن حنبل ج3 ص1319، فقره: 1832، مسائل ابي داود ص277، السنة للخلال ص419 فقره: 626 وغيره]
② امام ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری السنی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«وكذلك نقول فأفضل أصحابه صلى الله عليه وسلم الصديق أبوبكر رضى الله عنه ثم الفاروق بعده عمر ثم ذوالنورين عثمان بن عفان ثم أمير المؤمنين وإمام المتقين على بن أبى طالب رضوان الله عليهم أجمعين»
اور اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سب سے افضل ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر ذوالنورین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر امیر المؤمنین اور امام المتقین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہو۔ [صريح السنه ص24 فقره: 24]
اس کے متصل بعد ابن جریر سنی نے اپنی کتاب صريح السنة میں خلفائے راشدین کے بارے میں سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔
➎ خلفائے راشدین کی سنت سے کیا مراد ہے؟ اس کے تین حصے ہیں:
اول:
جس بات پر خلفائے راشدین کا اتفاق ہے یا کسی ایک خلیفہ راشد سے ثابت ہے اور دوسرے خلفاء سے اس کی مخالفت ثابت نہیں ہے۔
دوم:
جس بات پر خلفائے راشدین کا آپس میں اختلاف ہے۔
سوم:
خلفائے راشدین میں سے کسی خلیفہ سے ایک بات ثابت ہے، لیکن دوسرے صحابہ کرام کا اس سے اختلاف ہے۔ حدیث مذکور میں صرف اول الذکر مراد ہے۔ یاد رہے کہ قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہر شخص کی بات مردود ہے چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو، لیکن ہر ایرے غیرے کو خلاف قرار دینے کا حق نہیں بلکہ اس کے لئے سلف صالحین کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا۔
➏ اہل حدیث (محدثین کرام اور متبعین حدیث) کے خلاف بعض آل تقلید یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ یہ تو خلفائے راشدین کے خلاف ہیں۔ اسی سلسلے میں پالن گجراتی نامی ایک شخص نے جماعت اہل حدیث کا خلفائے راشدین سے اختلاف نامی کتاب لکھی ہے جس میں کذب و افتراء اور مغالطات پر کاربند وگامزن رہتے ہوئے اس شخص نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اہل حدیث خلفائے راشدین کے خلاف ہیں۔ اس مناسبت سے خلفائے راشدین کے گیارہ حوالے پیش خدمت ہیں جن میں آل تقلید نے خلفائے راشدین کی صریح مخالفت کی ہے:

مثال نمبر ①:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ ظہر کا وقت ایک ذراع سایہ ہونے سے لے کر آدمی کے برابر سایہ ہونے تک ہے۔ [الاوسط لابن المنذر ج2 ص328 وسنده صحيح] ۔
معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک عصر کا وقت ایک مثل ہونے پر شروع ہو جاتا ہے مگر اس فتوے کے مخالف آل تقلید کا یہ طرز عمل ہے کہ وہ دو مثل کے بعد عصر کی اذان دیتے ہیں۔

مثال نمبر ②:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ صبح کی نماز پڑھو اور ستارے صاف گہنے ہوئے ہوں۔ [موطأ امام مالك ج1 ص6 ح6 وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے مگر اس فاروقی حکم کے سراسر مخالف آل تقلید خوب روشنی کر کے صبح کی نماز پڑھتے ہیں۔

مثال نمبر ③
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔ [الاوسط لابن المنذر ج1 ص462 وسنده صحيح]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس عمل کے مخالف آل تقلید کہتے ہیں کہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے۔

مثال نمبر ④
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے سجدہ (تلاوت) کیا تو صحیح کیا اور جس نے سجدہ نہ کیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا۔ [صحيح بخاري: 1077]
جبکہ آل تقلید یہ کہتے ہیں کہ سجدہ تلاوت واجب ہے۔

مثال نمبر ⑤
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وتر نماز کی طرح حتمی (واجب اور ضروری) نہیں ہے، لیکن وہ سنت ہے پس اسے نہ چھوڑو۔ [مسند أحمد ج1 ص107 ح842 وسنده حسن]
جبکہ آل تقلید کے نزدیک وتر واجب ہے۔

مثال نمبر ⑥
عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بسم اللہ جہراً (اونچی آواز سے) پڑھی۔ [مصنف ابن ابي شيبه 1؍412 ح7857، شرح معاني الآثار للطحاوي 1؍137، وسنده صحيح]
جبکہ آل تقلید (نماز میں) کبھی اونچی آواز سے بسم اللہ نہیں پڑھتے۔

مثال نمبر ⑦
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سورۃ الحج پڑھی تو اس میں دو سجدے کئے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 2؍11 ح4288، السنن الكبريٰ للبيهقي 2؍317 وسنده صحيح]
جبکہ آل تقلید اس سورت میں صرف ایک سجدے کے قائل ہیں اور دوسرے سجدے کو «السجدة عند الشافعي» کہتے ہیں!

مثال نمبر ⑧
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایک تابعی نے قرأت خلف الامام کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: «اِقرأ بفاتحة الكتاب» سورہ فاتحہ پڑھ، اس نے کہا: اگر آپ قرأت بالجہر کر رہے ہوں تو؟ انہوں نے فرمایا: اگرچہ میں جہر سے پڑھ رہا ہوں تو بھی پڑھ۔ [المستدرك للحاكم ج1 ص230 وصححه الحاكم والذهبي، نيز ديكهئے كتاب الكواكب الدريه ص84 تا 90]
اس فاروقی حکم کے سراسر خلاف آل تقلید یہ کہتے پھرتے ہیں کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔

مثال نمبر ⑨
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو عورت بھی ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ الخ [السنن الكبريٰ للبيهقي ج7 ص111، وقال: هذا إسناده صحيح]
جبکہ آل تقلید یہ کہتے ہیں کہ ولی کے بغیر نکاح ہو جاتا ہے۔

مثال نمبر ⑩
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے صرف ایک رکعت وتر پڑھااور فرمایا: یہ میرا وتر ہے۔ [السنن الكبري للبيهقي ج3ص25وسنده حسن]
جبکہ آل تقلید یہ کہتے ہیں کہ ایک وتر جائز نہیں ہے۔

مثال نمبر ⑪
سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نماز میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں جگہ رفع یدین کرتے تھے۔ دیکھیے: [السنن الكبري للبيهقي ج2ص73و سنده صحيح]
اس حدیث کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «رواته ثقات» اس کے راوی ثقہ ہیں۔ [ج2ص37]
آل تقلید کی طرف سے اس حدیث پر تین اعتراضات کیے جاتے ہیں؟
① محمد بن عبداللہ الصفار نے سماع کی تصریح نہیں کی اور یہ روایت اس کے سوا کسی نے بیان نہیں کی۔
جواب: محمد بن عبداللہ الصفار کا مدلس ہونا ثابت نہں ہے اور وہ اپنے استاذ سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا یہ روایت سماع پر محمول ہے۔ الصفارمذکور ثقہ ہیں، لہٰذا ان کا تفرد (اکیلے روایت کرنا) مضر نہیں ہے۔
② ابواسماعیل محمد بن اسماعیل السلمی پر کلام ہے۔
جواب: یہ کلام باطل ہے کیونکہ جمہور محدثین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ثقہ حافظ ہیں، ابوحاتم (کے بیٹے) کا کلام ان کے بارے میں واضح نہیں ہے۔ [تقريب التهذيب: 5738]
③ ابوالنعمان محمد بن فضل کا دماغ آخری عمر میں خراب ہو گیا تھا۔
جواب: اس کے دو جوابات ہیں:
اول: حافظ ذہبی فرماتے ہیں: «تغير قبل موته فما حدث» وہ اپنی موت سے پہلے تغیر کا شکار ہوئے تھے، پس انہوں نے (اس حالت میں) کوئی حدیث بیان نہیں کی۔ [الكاشف ج3ص79ت5197]
دوم: روایت مزکورہ میں امام محمد بن اسماعیل السلمی فرماتے ہیں: میں نے محمد بن الفضل کے پیچھے نماز پڑھی۔ الخ [السنن الكبري 237] ۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث ان کے دماغ خراب ہونے سے پہلے کی ہے ورنہ جس کا دماغ خراب ہو جائے اسے کون امام بناتا ہے؟ جس کا دماغ خراب ہو، اس کے پیچھے تو وہی نماز پڑھتا ہے جس کا اپنا دماغ خراب ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے رفع یدین کرنا ثابت ہے اور نہ کرنا ثابت نہیں جبکہ صدیقی حکم کے سراسر خلاف آل تقلید یہ کہتے پھرتے ہیں کہ رفع یدین نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ منسوخ یا متروک ہے۔ سبحان اللہ!
پالن دیوبندی نے قیام رمضان عرف تراویح کے دروازے سے داخل ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اہل حدیث خلفائے راشدین کے خلاف ہیں لیکن ہوا یہ کہ پالن خود اپنے جال میں پھنس گیا کیونکہ خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے تو گیارہ رکعات ثابت ہو گئیں اور بیس رکعات کا بسند صحیح متصل نام و نشان تک نہ ملا، دوسرے یہ کہ آل تقلید نے خلفائے راشدین سے ثابت شدہ بہت سے مسائل کی مخالفت کر رکھی ہے جیسا کہ باحوالہ ثابت کر دیا گیا ہے۔
➐ دین میں ہر بدعت گمراہی اور مردود ہے۔
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انتہائی فصیح و بلیغ وعظ فرماتے تھے جس کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہا پر بڑا اثر ہوتا تھا۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو ہر خوبی میں کامل بنا کر بھیجا۔
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری . . . آں چہ خوباں ہمہ دارندتو تنہاداری
➒ ضرورت کے وقت نماز کے بعد وعظ کرنا جائز ہے۔
➓ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو غیب کی بہت سی خبریں بذریعہ وحی بتا دی تھیں جن میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے اور غیب کی یہ خبر من وعن پوری ہوئی، لہٰذا یہ حدیث بھی ان بہت سے دلائل میں سے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے سچے رسول اور برحق نبی ہیں۔ «فداه أبى و أمي و روحي»
اے اللہ! ہمیں قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں میں جگہ عطا فرما اور آپ کی شفاعت کا مستحق بنا۔ اے اللہ! قبر کے عذاب اور روزمحشر کی سختیوں سے بچانا۔ «آمين يا رب العالمين»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 165   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4607  
´سنت کی پیروی ضروری ہے۔`
عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہ ہم عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت کریمہ «ولا على الذين إذا ما أتوك لتحملهم قلت لا أجد ما أحملكم عليه» ۱؎ نازل ہوئی، تو ہم نے سلام کیا اور عرض کیا: ہم آپ کے پاس آپ سے ملنے، آپ کی عیادت کرنے، اور آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں، اس پر عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4607]
فوائد ومسائل:

ایک بڑے کام میں ضمنی کئی منتیں کرلی جائیں تو جائز ہے۔
اجر وثواب نیتوں ہی کے مطابق ملتا ہے۔
چنانچہ زیارت علماء عیادت مریض اور علمی استفادہ سب کیر کے کام ہیں، لہذا موقع محل اور حالات کی مناسبت سے یہ تمام کام کرنے چاہییں۔


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب ضرورت نمازوں کے بعد بھی درس دیا کرتے تھے۔
کتاب وسنت کا وعظ سن کر رونا جائز ہے۔


اختلاف امت کو مٹانے اور نجات وفلاح کی کلیدی صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت ہے۔
خیال رہے کہ یہ کوئی دو سنتیں نہیں ہیں بلکہ یہ ایک ہی سنت ہے۔
اگر بالفرض کہیں کوئی اختلاف محسوس ہو تو حجت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ قول و فعل ہی ہے۔


مسلمانوں کے امام یعنی جس کو شوری کے ذریعے سے اپنا قائد چن لیا گیا ہو، اس کی اطاعت واجب ہے بغیر اس کے کہ اس کا نام ونسب یا رنگ وروپ دیکھا جائے بشرطیکہ وہ قیادت میں شریعت کا پیرو ہو۔


دین میں بدعات سراسر گمراہی اور امت میں افتراق وفتنہ کا باعث ہیں۔
جبکہ سنت وحدت واتفاق کی باعث اور نجات کی ضامن ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4607   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث42  
´ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع۔`
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، آپ نے ہمیں ایک مؤثر نصیحت فرمائی، جس سے دل لرز گئے اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے، لہٰذا آپ ہمیں کچھ وصیت فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے ڈرو، اور امیر (سربراہ) کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، گرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، عنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 42]
اردو حاشہ:
(1)
رخصت کے وقت نصیحت اور وصیت کرنا مسنون ہے۔

(2)
تقویٰ کی اہمیت:
۔
تقویٰ کا مطلب ہے اللہ کی ناراضی سے بچنے کے لیے برے کاموں سے پرہیز کیا جائے، تاکہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں۔

(3)
شرعی حاکم کی فرماں برداری فرض ہے، الا یہ کہ وہ کوئی ایسا حکم دے جو واضح طور پر خلاف شریعت ہو۔

(4)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امت میں بہت سے اختلافات ہوں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ مسلمانوں میں مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر بہت سے اختلافات پیدا ہو گئے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلے سے اس کی خبر دے دینا آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔

(5)
اختلافات میں فیصلہ کن قرآن و حدیث ہے۔
سنت نبوی کی یہ اہمیت قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَإِن تَنازَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الٰاخِرِ‌ ذلِكَ خَيرٌ‌ وَأَحسَنُ تَأويلًا﴾  (النساء: 59)
اگر کسی معاملے میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لے جاؤ اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہ طرز عمل بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے۔

(6)
خلفائے راشدین کی زندگی بھی قرآن و حدیث پر عمل کی روشن مثال ہے۔
انہوں نے اسلام کی تعلیمات براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی تھیں، اس لیے ان کا فہم دین قابل اعتماد ہے۔
خصوصاً اس لیے بھی کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حضرات کو ہدایت یافتہ فرمایا ہے۔

(7)
خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام ؓ  قرآن و سنت پر عمل کرتے تھے اور بدعات سے اجتناب کرتے تھے، اس لیے بدعات سے پرہیز ضروری ہے۔

(8)
بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کر کے بعض بدعات کو اچھی اور جائز قرار دینا درست نہیں، البتہ وہ ایجادات جن کا تعلق دین سے نہیں، جائزدنیوی امور سے ہے، انہیں شرعاً بدعت نہیں کہا جاتا، اس لیے ان کا استعمال درست ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 42   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث43  
´ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع۔`
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھیں ڈبدبا گئیں، اور دل لرز گئے، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو رخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے، تو آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا، تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین ۱؎ کی سنت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 43]
اردو حاشہ:
(1)
شرعی احکام سے روگردانی ہلاکت کا باعث ہے۔

(2)
مومن شرعی احکام کی اتباع کرتا ہے، اگرچہ بظاہر مشکل ہوں۔
مومن کو اونٹ کے ساتھ تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ وہ اپنے مالک کے حکم کے مطابق چلتا ہے، اگرچہ سفر مشکل ہی ہو۔

(3)
اسلام نے غلامی کے سلسلے میں جو دور رس اصلاحات کیں اور جس طرح انہیں بہ تدریج تمام انسانی حقوق سے نوازا، ان ہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کی بنیاد پر اعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر بھی فائز ہو سکتے ہیں۔
ایسے حالات میں مسلمانوں کو یہی ہدایت ہے کہ وہ اس پر ناک بھوں نہ چڑھائیں، بلکہ اس کی اُس حیثیت کو تسلیم کریں جو اسے اس کی ذہنی و دماغی صلاحیتوں کی وجہ سے حاصل ہوئی ہو۔

(4)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق قرون ثلاثہ کے بعد امت محمدیہ میں وسیع اختلاف ہوا، نئے نئے مذاہب اور گمراہ فرقوں نے جنم لیا۔
ہر ایک نے اپنا اپنا امام اور پیشوا ٹھہرا لیا ہے کہ اختلاف کے وقت اس کی طرف رجوع کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کو بھول گئے ہیں، حالانکہ آپ نے وصیت کی تھی کہ اختلاف کے وقت میری اور خلفائے راشدین کی سنت پر چلنا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 43