تحقیق الحدیث اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
اسے امام ترمذی کے علاوہ حافظ ابن حبان
[الاحسان: 5، الموارد: 102] حاکم
[المستدرك 1؍95، 96 ح329] اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔
◄ حافظ بغوی نے کہا:
«هذا حديث حسن» [شرح السنه 1؍205 ح102] سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث دو تابعین نے سنی ہے:
① عبدالرحمٰن بن عمرو بن عبسہ السلمی صدوق ہیں۔ دیکھئے:
[الكاشف للذهبي 2؍158] بلکہ جمہور کی توثیق کو مدنظر رکھتے ہوئے قول راجح میں وہ ثقہ ہیں۔
② حجر بن حجر الکلاعی کو صرف حافظ ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے، لہٰذا وہ قول راجح میں مجہول الحال ہے، لیکن یاد رہے کہ اس حدیث میں وہ منفرد نہیں بلکہ عبدالرحمٰن بن عمرو: ثقہ صدوق نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔
ان دونوں تابعین سے خالد بن معدان الشامی رحمہ اللہ ثقہ تابعی نے یہ حدیث سنی ہے اور سماع کی تصریح بھی ہے، حالانکہ قول راجح میں خالد بن معدان تدلیس کے الزام سے بری ہیں۔ دیکھئے میری کتاب:
[الفتح المبين فى تحقيق طبقات المدلسين ص38 ت46؍2] خالد بن معدان سے ثور بن یزید
[ثقه وصحيح الحديث/ ديكهئے ميري كتاب ”نماز ميں هاته باندهنے كا حكم اور مقام“ ص22] اور بحیر بن سعد
[ثقه ثبت/ تقريب التهذيب: 640] نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ خلاصہ التحقیق یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
«والحمدلله» فقه الحدیث: ➊ وعظ کے دوران میں آداب شرعیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے، ضرورت کے وقت خطیب سے سوال کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ مقصد فتنہ و فساد نہ ہو۔
➋ ایسے مسلمان حکمرانوں کی اطاعت ضروری ہے جو دین اسلام کو نافذ کرتے اور کتاب و سنت کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔ ایسے صحیح العقیدہ مسلمان حکمرانوں کے خلاف نہ تو خروج کرنا جائز ہے اور نہ ان کے خلاف منبروں پر علانیہ تنقید جائز ہے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہر حال میں اور ہر وقت حجت ہے۔
حافظ ابن حبان فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: پس میری سنت کو لازم پکڑو۔ جب آپ کی امت میں اختلاف ہو گا، کے ذکر کے وقت میں واضح بیان ہے کہ جو شخص سنتوں
(احادیث) کو مضبوطی سے پکڑتا ہے اور اسی کے مطابق فتویٰ دیتا ہے، اس کے علاوہ آراء
(رائے و قیاس) کی طرف توجہ نہیں دیتا تو وہ قیامت کے دن فرقہ ناجیہ میں سے ہے، اللہ سے دعا ہے کہ وہ اپنے احسان کے ساتھ ہمیں اس میں شامل فرمائے۔
“ [الاحسان بترتيب صحيح ابن حبان 1؍180 ح5] ➍ خلفائے راشدین سے سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر بن خطاب، سیدنا عثمان بن عفان اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم مراد ہں، جیسا کہ سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حسن لذاتہ حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے:
[مشكوٰة المصابيح بتحقيقي 5395] سنن ابی داود
[4646] اور سنن الترمذی
[2226] وغیرہ
◄ اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے علمائے اہل سنت کا یہ عقیدہ ہے کہ خلفائے راشدین چار ہیں۔ اختصار کی وجہ سے دو بڑے سنی علماء کے حوالے پیش خدمت ہیں:
① امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ کا عقیدہ تھا کہ ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اجمعین خلفاء
(یعنی خلفائے راشدین) میں سے ہیں۔ دیکھئے:
[مسائل عبدالله بن أحمد بن حنبل ج3 ص1319، فقره: 1832، مسائل ابي داود ص277، السنة للخلال ص419 فقره: 626 وغيره] ② امام ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری السنی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«وكذلك نقول فأفضل أصحابه صلى الله عليه وسلم الصديق أبوبكر رضى الله عنه ثم الفاروق بعده عمر ثم ذوالنورين عثمان بن عفان ثم أمير المؤمنين وإمام المتقين على بن أبى طالب رضوان الله عليهم أجمعين» ”اور اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سب سے افضل ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر عمر الفاروق رضی اللہ عنہ ہیں، پھر ذوالنورین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر امیر المؤمنین اور امام المتقین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہو۔
“ [صريح السنه ص24 فقره: 24] اس کے متصل بعد ابن جریر سنی نے اپنی کتاب صريح السنة میں خلفائے راشدین کے بارے میں سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔
➎ خلفائے راشدین کی سنت سے کیا مراد ہے؟ اس کے تین حصے ہیں:
اول: جس بات پر خلفائے راشدین کا اتفاق ہے یا کسی ایک خلیفہ راشد سے ثابت ہے اور دوسرے خلفاء سے اس کی مخالفت ثابت نہیں ہے۔
دوم: جس بات پر خلفائے راشدین کا آپس میں اختلاف ہے۔
سوم: خلفائے راشدین میں سے کسی خلیفہ سے ایک بات ثابت ہے، لیکن دوسرے صحابہ کرام کا اس سے اختلاف ہے۔ حدیث مذکور میں صرف اول الذکر مراد ہے۔ یاد رہے کہ قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہر شخص کی بات مردود ہے چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو، لیکن ہر ایرے غیرے کو خلاف قرار دینے کا حق نہیں بلکہ اس کے لئے سلف صالحین کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا۔
➏ اہل حدیث
(محدثین کرام اور متبعین حدیث) کے خلاف بعض آل تقلید یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ یہ تو خلفائے راشدین کے خلاف ہیں۔ اسی سلسلے میں پالن گجراتی نامی ایک شخص نے
”جماعت اہل حدیث کا خلفائے راشدین سے اختلاف
“ نامی کتاب لکھی ہے جس میں کذب و افتراء اور مغالطات پر کاربند وگامزن رہتے ہوئے اس شخص نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اہل حدیث خلفائے راشدین کے خلاف ہیں۔ اس مناسبت سے خلفائے راشدین کے گیارہ حوالے پیش خدمت ہیں جن میں آل تقلید نے خلفائے راشدین کی صریح مخالفت کی ہے:
مثال نمبر ①: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ ظہر کا وقت ایک ذراع سایہ ہونے سے لے کر آدمی کے برابر سایہ ہونے تک ہے۔
[الاوسط لابن المنذر ج2 ص328 وسنده صحيح] ۔
معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک عصر کا وقت ایک مثل ہونے پر شروع ہو جاتا ہے مگر اس فتوے کے مخالف آل تقلید کا یہ طرز عمل ہے کہ وہ دو مثل کے بعد عصر کی اذان دیتے ہیں۔
مثال نمبر ②: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ صبح کی نماز پڑھو اور ستارے صاف گہنے ہوئے ہوں۔
[موطأ امام مالك ج1 ص6 ح6 وسنده صحيح] معلوم ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے مگر اس فاروقی حکم کے سراسر مخالف آل تقلید خوب روشنی کر کے صبح کی نماز پڑھتے ہیں۔
مثال نمبر ③ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔
[الاوسط لابن المنذر ج1 ص462 وسنده صحيح] سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس عمل کے مخالف آل تقلید کہتے ہیں کہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے۔
مثال نمبر ④ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”جس نے سجدہ
(تلاوت) کیا تو صحیح کیا اور جس نے سجدہ نہ کیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
“ اور عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا۔
[صحيح بخاري: 1077] جبکہ آل تقلید یہ کہتے ہیں کہ سجدہ تلاوت واجب ہے۔
مثال نمبر ⑤ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”وتر نماز کی طرح حتمی
(واجب اور ضروری) نہیں ہے، لیکن وہ سنت ہے پس اسے نہ چھوڑو۔
“ [مسند أحمد ج1 ص107 ح842 وسنده حسن] جبکہ آل تقلید کے نزدیک وتر واجب ہے۔
مثال نمبر ⑥ عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بسم اللہ جہراً
(اونچی آواز سے) پڑھی۔
[مصنف ابن ابي شيبه 1؍412 ح7857، شرح معاني الآثار للطحاوي 1؍137، وسنده صحيح] جبکہ آل تقلید
(نماز میں) کبھی اونچی آواز سے بسم اللہ نہیں پڑھتے۔
مثال نمبر ⑦ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سورۃ الحج پڑھی تو اس میں دو سجدے کئے۔
[مصنف ابن ابي شيبه 2؍11 ح4288، السنن الكبريٰ للبيهقي 2؍317 وسنده صحيح] جبکہ آل تقلید اس سورت میں صرف ایک سجدے کے قائل ہیں اور دوسرے سجدے کو
«السجدة عند الشافعي» کہتے ہیں!
مثال نمبر ⑧ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ایک تابعی نے قرأت خلف الامام کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے فرمایا:
«اِقرأ بفاتحة الكتاب» سورہ فاتحہ پڑھ، اس نے کہا: اگر آپ قرأت بالجہر کر رہے ہوں تو؟ انہوں نے فرمایا: اگرچہ میں جہر سے پڑھ رہا ہوں تو بھی پڑھ۔
[المستدرك للحاكم ج1 ص230 وصححه الحاكم والذهبي، نيز ديكهئے كتاب الكواكب الدريه ص84 تا 90] اس فاروقی حکم کے سراسر خلاف آل تقلید یہ کہتے پھرتے ہیں کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔
مثال نمبر ⑨ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو عورت بھی ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ الخ
[السنن الكبريٰ للبيهقي ج7 ص111، وقال: هذا إسناده صحيح] جبکہ آل تقلید یہ کہتے ہیں کہ ولی کے بغیر نکاح ہو جاتا ہے۔
مثال نمبر ⑩ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے صرف ایک رکعت وتر پڑھااور فرمایا: یہ میرا وتر ہے۔
[السنن الكبري للبيهقي ج3ص25وسنده حسن] جبکہ آل تقلید یہ کہتے ہیں کہ ایک وتر جائز نہیں ہے۔
مثال نمبر ⑪ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نماز میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں جگہ رفع یدین کرتے تھے۔ دیکھیے:
[السنن الكبري للبيهقي ج2ص73و سنده صحيح] اس حدیث کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«رواته ثقات» اس کے راوی ثقہ ہیں۔
[ج2ص37] آل تقلید کی طرف سے اس حدیث پر تین اعتراضات کیے جاتے ہیں؟
① محمد بن عبداللہ الصفار نے سماع کی تصریح نہیں کی اور یہ روایت اس کے سوا کسی نے بیان نہیں کی۔
جواب: محمد بن عبداللہ الصفار کا مدلس ہونا ثابت نہں ہے اور وہ اپنے استاذ سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا یہ روایت سماع پر محمول ہے۔ الصفارمذکور ثقہ ہیں، لہٰذا ان کا تفرد
(اکیلے روایت کرنا) مضر نہیں ہے۔
② ابواسماعیل محمد بن اسماعیل السلمی پر کلام ہے۔
جواب: یہ کلام باطل ہے کیونکہ جمہور محدثین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ان کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ثقہ حافظ ہیں، ابوحاتم
(کے بیٹے) کا کلام ان کے بارے میں واضح نہیں ہے۔
[تقريب التهذيب: 5738] ③ ابوالنعمان محمد بن فضل کا دماغ آخری عمر میں خراب ہو گیا تھا۔
جواب: اس کے دو جوابات ہیں:
اول: حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
«تغير قبل موته فما حدث» وہ اپنی موت سے پہلے تغیر کا شکار ہوئے تھے، پس انہوں نے
(اس حالت میں) کوئی حدیث بیان نہیں کی۔
[الكاشف ج3ص79ت5197] دوم: روایت مزکورہ میں امام محمد بن اسماعیل السلمی فرماتے ہیں: میں نے محمد بن الفضل کے پیچھے نماز پڑھی۔ الخ
[السنن الكبري 237] ۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث ان کے دماغ خراب ہونے سے پہلے کی ہے ورنہ جس کا دماغ خراب ہو جائے اسے کون امام بناتا ہے؟ جس کا دماغ خراب ہو، اس کے پیچھے تو وہی نماز پڑھتا ہے جس کا اپنا دماغ خراب ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے رفع یدین کرنا ثابت ہے اور نہ کرنا ثابت نہیں جبکہ صدیقی حکم کے سراسر خلاف آل تقلید یہ کہتے پھرتے ہیں کہ رفع یدین نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ منسوخ یا متروک ہے۔ سبحان اللہ!
پالن دیوبندی نے قیام رمضان عرف تراویح کے دروازے سے داخل ہو کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اہل حدیث خلفائے راشدین کے خلاف ہیں لیکن ہوا یہ کہ پالن خود اپنے جال میں پھنس گیا کیونکہ خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے تو گیارہ رکعات ثابت ہو گئیں اور بیس رکعات کا بسند صحیح متصل نام و نشان تک نہ ملا، دوسرے یہ کہ آل تقلید نے خلفائے راشدین سے ثابت شدہ بہت سے مسائل کی مخالفت کر رکھی ہے جیسا کہ باحوالہ ثابت کر دیا گیا ہے۔
➐ دین میں ہر بدعت گمراہی اور مردود ہے۔
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم انتہائی فصیح و بلیغ وعظ فرماتے تھے جس کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہا پر بڑا اثر ہوتا تھا۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو ہر خوبی میں کامل بنا کر بھیجا۔
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری . . . آں چہ خوباں ہمہ دارندتو تنہاداری
➒ ضرورت کے وقت نماز کے بعد وعظ کرنا جائز ہے۔
➓ اللہ تعالی نے اپنے رسول کو غیب کی بہت سی خبریں بذریعہ وحی بتا دی تھیں جن میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے اور غیب کی یہ خبر من وعن پوری ہوئی، لہٰذا یہ حدیث بھی ان بہت سے دلائل میں سے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے سچے رسول اور برحق نبی ہیں۔
«فداه أبى و أمي و روحي» اے اللہ! ہمیں قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں میں جگہ عطا فرما اور آپ کی شفاعت کا مستحق بنا۔ اے اللہ! قبر کے عذاب اور روزمحشر کی سختیوں سے بچانا۔
«آمين يا رب العالمين»