فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5403
´ظاہری دلائل کے مطابق فیصلہ کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے سامنے مقدمات لاتے ہو، میں تو بس تمہاری طرح ایک انسان ہوں ۱؎، ممکن ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو اسے وہ نہ لے کیونکہ میں تو اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5403]
اردو حاشہ:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ اہم مسئلہ بیان کرنا ہے کہ قاضی اور جج ظاہری دلائل کے مطابق فیصلہ کرے گا، اس لیے اگر کسی قاضی یا حاکم وغیرہ نے غلط فیصلہ کر دیا تو غلط ہی ہوگا اور ناجائز بھی۔ کسی بھی شخص کے ناجائز فیصلہ کرنے سے وہ فیصلہ شرعی طور پر جائز قرار نہیں پاتا۔ قاضی، ثالث یا حاکم اور جج وغیرہ کے سامنے جس قسم کے دلائل ہوں گے، وہ انہیں کے مطابق فیصلہ صادر کریں گے، اس لیے ان کے فیصلہ کرنے سے نہ کوئی حرام کام حلال قرار پائے گا اور نہ حلال کام حرام ہی ہوگا بلکہ اس کا وبال غلط دلائل مہیا کرنے والے کے سر ہوگا۔
(2) باطل پر ڈٹ جانا، نیز باطل کی حمایت اور وکالت کرنا شرعاً حرام اور ناجائز ہے۔ جو وکیل ناجائز اور باطل کیس لڑتا ہے اور ان کا معاوضہ لیتا ہے، وہ خود بھی حرام کھاتا اور اپنے اہل عیال کو بھی حرام ہی کھلاتا ہے۔ أعاذنا اللہ منه
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑا مجتہد بھی غلطی کر سکتا ہے اور اس کی غلطی شرعاً غلطی ہی ہوگی، ظاہر دلائل کی وجہ سے وہ چیز حقیقت میں حلال یا حرام نہیں ہوگی، تاہم مجتہد کو اپنے اجتہاد اور کوشش کرنے کا اجر و ثواب ضرور ملے گا بشرطیکہ اس نے جان بوجھ کر غلطی نہ کی ہو۔ جانتے بوجھتے غلطی کرنے والا تو گناہ گار ہوگا۔
(4) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس مسئلے کی بابت وحی نازل نہ ہوئی ہوتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بابت اپنے اجتہاد سے فیصلہ فرماتے۔ واللہ أعلم
(5) ”انسان ہوں“ دلائل سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے۔ غیب دان نہیں کہ عین حقیقت پر پہنچ جاؤں۔ میں ظاہری دلائل کی بنا پر فیصلہ کر سکتا ہوں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5403
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5424
´فیصلہ کی بنیاد پر حاصل ہونے مال کی شرعی حقیقت کا بیان۔`
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، حالانکہ میں ایک انسان ہوں، اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے سے دلیل دینے میں چرب زبان ہو۔ میں تو صرف اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں جو میں سنتا ہوں، اب اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو گویا میں اس کو جہنم کا ٹکڑا دلا رہا ہوں۔“ [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5424]
اردو حاشہ:
قاضی کا فیصلہ حرام کو حلال نہیں کر سکتا۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے۔ احناف اس روایت کو اموال کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں گویا عقود‘ مثلا: بیع‘ نکاح‘ طلاق وغیرہ قاضی کے فیصلے سے مفقود ہو جائیں گے لیکن یہ بات بلا دلیل ہے۔ عقود کے لیے فریقین کی رضا مندی ضروری ہے نہ کہ قاضی کا فیصلہ (مزید دیکھیے حدیث:5403)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5424
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2458
2458. ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑنے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”بس میں تو ایک بشر ہی ہوں۔ میرے پاس ایک فریق آتا ہے اور شاید ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو جس سے مجھے خیال ہوکہ اس نے سچ کہا ہے، پھر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، اندریں حالات اگر میں کسی کو دوسرے مسلمان کا حق دلادوں تو یہ آگ کاایک ٹکڑا ہے، چاہے تو اسے قبول کر لے، چاہے اسے چھوڑ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2458]
حدیث حاشیہ:
یعنی جب تک خدا کی طرف سے مجھ پر وحی نہ آئے میں بھی تمہاری طرح غیب کی باتوں سے ناواقف رہتا ہوں کیوں کہ میں بھی آدمی ہوں اور آدمیت کے لوازم سے پاک نہیں ہوں۔
اس حدیث سے ان بے وقوفوں کا رد ہوا جو آنحضرت ﷺ کے لیے علم غیب ثابت کرتے ہیں یا آنحضرت ﷺ کو بشر نہیں سمجھتے بلکہ الوہیت کی صفات سے متصف جانتے ہیں۔
﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2458
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6967
6967. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں ایک انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں کوئی دوسرا اپنے فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو، اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں اس سے سنتا ہوں، لہذا ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کر دیتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6967]
حدیث حاشیہ:
وہ فقہاءاسلام غور کریں جو قاضی کا فیصلہ ظاہراً و باطناً نافذ سمجھتے ہیں۔
اگرچہ وہ کتنا ہی غلط اور ظلم و جور سے بھرپور ہو جیسے کسی کی عورت زبردستی پکڑ کر اس کا کسی قاضی کے یہاں دعویٰ کر دے، اس پر اپنی صفائی میں دو جھوٹے گواہ پیش کر دے اور قاضی مان لے تو ایسے مقدمات کے قاضی کے غلط فیصلے صحیح نہ ہوں گے خواہ کتنے ہی قاضی اسے مان لیں اور غاصب کے حق میں فیصلہ دے دیں مگر جھوٹ جھوٹ رہے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6967
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7169
7169. سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بس میں تو صرف ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا مقدمہ پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں نے جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا ٖفیصلہ کر دیا تو وہ اس کو نہ لے کیونکہ وہ تو میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7169]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کسی بھی قاضی کا فیصلہ عنداللہ صحیح نہیں ہو سکتا گو وہ نافذ کر دیا جائے، غلط غلط ہی رہے گا۔
اس حدیث سے امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث اور جمہور علماء کا مذہب ثابت ہوا کہ قاضی کا فیصلہ ظاہر میں نافذ ہوتا ہے لیکن اس کے فیصلے سے جو شے حرام ہے وہ حلال نہیں ہوتی نہ حلال حرام ہوتی ہے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول رد ہوگیا کہ قاضی کا فیصلہ ظاہراً اور باطناً دونوں طرح نافذ ہو جاتا ہے اور اس مسئلہ کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علے وسلم کو غیب کا علم نہ تھا۔
البتہ اللہ تعالیٰ اگر آپ کو بتلا دیتا تو معلوم ہو جاتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7169
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7181
7181. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے پھر آپ نے فرمایا: ”میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ اپنے مقدمے لے کر آتےہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت اپنا مقصد واضح کرنے میں زیادہ ماہر ہو، میں یقین کرلوں کہ وہی سچا ہے اور اس طرح کے حق میں فیصلہ کر دوں ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ خالص دوزخ کا ٹکڑا ہے، وہ چاہے تو اسے لے لے یا چھوڑ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7181]
حدیث حاشیہ:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بنت ابوامیہ ہیں۔
پہلے ابوسلمہ کے نکاح میں تھیں۔
سنہ4ھ میں ان کے انتقال کے بعد حرم نبوی میں داخل ہوئیں۔
84 سال کی عمر میں سنہ59ھ میں فوت ہوکر بقیع غرقد میں دفن ہوئیں۔
رضي اللہ عنها و أرضاہ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7181
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2680
2680. حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ایسا ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ ہوشیار ہو اور اس کے کہنے کے مطابق میں اس کے بھائی کا حق اسے دے دوں تو میں نے اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ نہ لے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2680]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں امام مالک، شافعی، امام احمد اور جمہور علماء کا مذہب ثابت ہوا کہ قاضی کا حکم ظاہراً نافذ ہوتا ہے نہ کہ باطناً، یعنی قاضی اگر غلطی سے کوئی فیصلہ کردے تو جس کے موافق فیصلہ کرے عنداللہ اس کے لیے وہ شے درست ہوگی اور حنفیہ کا رد ہوا جن کے نزدیک قاضی کی قضا ظاہراً اور باطناً دونوں طرح نافذ ہوجاتی ہیں۔
حدیث سے بھی یہی نکلا کہ پیغمبر صاحب ﷺ کو بھی دھوکہ ہوجانا ممکن تھا اور آپ کو علم غیب نہ تھا اور جب آپ سے جو سارے جہاں سے افضل تھے۔
غلطی ہوجانا ممکن ہوا تو اور کسی قاضی یا مجتہد یا امام یا عالم کی کیا حقیقت اور کیا ہستی ہے اوربڑا بے وقوف ہے وہ شخص جو کسی مجتہد یا پیر کو خطا سے معصوم سمجھے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2680
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7185
7185. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے اپنے دروازے پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی تو ان کی طرف تشریف لے گئے،پھر آپ نے ان سے فرمایا: ”میں تمہارے جیسا ایک انسان ہی ہوں۔ میرے پاس لوگ مقدمات لے کر آتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک فریق دوسرے کے مقابلے میں عمدہ بات کرنے کا ماہر ہو اور میں اس کی بات سن کر اس کے حق فیصلہ کردیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ بات کرنے میں سچا ہے تو ایسے حالات میں اگر میں کسی دوسرے کے حق کا فیصلہ کردوں تو بلاشبہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے وہ اسے لے لے یا چھوڑدے۔“۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7185]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قاضی کا فیصلہ اگر غلط ہو تو وہ نافذ نہ ہو گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7185
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2458
2458. ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑنے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”بس میں تو ایک بشر ہی ہوں۔ میرے پاس ایک فریق آتا ہے اور شاید ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو جس سے مجھے خیال ہوکہ اس نے سچ کہا ہے، پھر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، اندریں حالات اگر میں کسی کو دوسرے مسلمان کا حق دلادوں تو یہ آگ کاایک ٹکڑا ہے، چاہے تو اسے قبول کر لے، چاہے اسے چھوڑ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2458]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ جو انسان جان بوجھ کر کسی ناحق بات پر جھگڑ کر کسی کا حق لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ جہنم کا مستحق ہے، نیز قاضی کے فیصلے سے کوئی ناحق چیز جائز نہیں ہو جاتی، اس کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ العمل ہو گا، باطنی طور پر نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ اور ناحق لینے والے کے درمیان وہ فیصلہ نافذ نہیں ہو گا بلکہ قیامت کے دن ضرور بازپرس ہو گی۔
(2)
جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
میں، صورت واقعہ جس شکل میں پیش کی جاتی ہے اسے سامنے رکھ کر فیصلہ دے دیتا ہوں۔
اگر کوئی اپنی چرب زبانی سے بازی جیت لیتا ہے اور میرے فیصلے سے کسی کا حق مارتا ہے تو وہ جو کچھ لے رہا ہے وہ آگ کا ٹکڑا ہے اسے قبول کرے یا ترک کر دے، یعنی وہ کسی کا حق لینے میں خود ذمہ دار ہے میرا فیصلہ اس کے لیے وہ چیز جائز نہیں کر دے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2458
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2680
2680. حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ایسا ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ ہوشیار ہو اور اس کے کہنے کے مطابق میں اس کے بھائی کا حق اسے دے دوں تو میں نے اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ نہ لے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2680]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قاضی کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔
اس میں معاملات و عقود برابر ہیں۔
اس پر سب علماء کا اتفاق ہے، لہذا اگر دو جھوٹے گواہ کسی شخص کے لیے مال کی گواہی دیں اور قاضی بظاہر ان کی سچائی پر فیصلہ کر دے تو جس کے لیے مال کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کے لیے وہ مال حلال نہیں ہو گا۔
اسی طرح اگر جھوٹے گواہ کسی پر قتل کی گواہی دیں تو مقتول کے وارث کے لیے جائز نہیں کہ اس سے قصاص لے جبکہ اسے گواہوں کے جھوٹے ہونے کا علم ہو۔
(2)
علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں:
حدیث میں موجود صورت حال اس وقت متصور ہو گی کہ قسم اٹھانے کے بعد گواہ پیش کیے جائیں۔
شارح بخاری ابن منیر ؒ نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے لیے حلال یا اپنا حق اس پر ثابت نہیں کر سکتا۔
وہ چیز قسم اٹھانے کے بعد بھی اس پر حرام رہے گی۔
قسم اٹھانے سے پہلے اور بعد دونوں حالتوں میں وہ چیز حق دار کی ہے اگر وہ گواہی لے آئے۔
(فتح الباري: 355/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2680
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6967
6967. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں ایک انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں کوئی دوسرا اپنے فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو، اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں اس سے سنتا ہوں، لہذا ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کر دیتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6967]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی عنوان قائم نہیں فرمایا، گویا یہ پہلے عنوان کے لیے فصل کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے مذکورہ حدیث کی مناسبت پہلے باب سے ہوگی جو بالکل واضح ہے کہ جھوٹ یا جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر حاکم نے جو فیصلہ کیا ہے اگرحق لینے والا جانتا ہے کہ یہ میرا حق نہیں کہ بلکہ کسی اور کا ہے توعدالت کے فیصلے سے یہ حق اس کا نہیں ہو جائے گا بلکہ اسے وہ اپنے لیے آگ کا ٹکڑا خیال کرے کیونکہ عدالت کا فیصلہ کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام نہیں کر سکتا۔
2۔
دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیلہ سازوں کے سہاروں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس کی بنیاد ایک مشہور اختلافی مسئلے پر ہے کہ جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت جو فیصلہ کرتی ہے وہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے نافذ ہوتا ہے یا وہ صرف ظاہری اعتبار سے ہے باطنی لحاظ سے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
ظاہری اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ وہ فیصلہ صرف دنیوی جھگڑا ختم کرنے کے لیے کارگر ہوتا ہے لیکن اخروی حلت اس سے ثابت نہیں ہوتی، قانونی حیثیت سے مدعی کو اس سے فائدہ ضرور ہوگا لیکن آخرت میں اس سے ضرور باز پر س ہوگی کیونکہ اس نے جانتے بوجھتے ہوئے غیر کا حق مارا ہے۔
جمہور اہل علم اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
3۔
باطنی اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہ چیزمدعی کے لیے حلال ہو جائے گی اور اسے کسی قسم کا گناہ نہیں ہوگا اور نہ آخرت ہی میں اس سے کوئی باز پرس ہوگی، اہل کوفہ کا یہی موقف ہے۔
اس موقف کو محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے مسترد کیا ہے۔
ان میں سرفہرست امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
انھوں نے مذکورہ بالا حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ تو بہت دور کی بات ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بھی ایسے حالات میں اسے اخروی باز پرس سے نہیں بچا سکتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اپنی چرب زبانی سے جو کوئی مجھ سے اپنے حق میں فیصلہ لے لےتو وہ غیر کا حق کسی صورت میں اس کے لیے حلال نہ ہوگا بلکہ میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں۔
4۔
ہم اس مناسبت سے ان فقہائے کرام کو دعوت فکر دیتے ہیں۔
جو جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی لحاظ سے نافذ سمجھتے ہیں اگرچہ وہ کتنا ہی غلط اور ظلم وزیادتی سے بھر پور ہو۔
ذرا چشم تصور کھول کر سوچیں اگر کوئی بدفطرت حیلہ ساز کسی کی معصوم بیٹی زبردستی چھین کر عدالت میں دعویٰ کر دے کہ یہ میری بیوی ہے اور اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے دو جھوٹے گواہ پیش کر دے، عدالت ان گواہوں پر اعتبار کر کے اس کے حق میں فیصلہ کر دے تو کیا واقعی وہ معصوم لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی اور اس سے اپنی شہوت پوری کرنا اس کے لیے جائز ہو جائے گا؟ بہرحال اس قسم کے مقدمات میں عدالت کے فیصلے صحیح نہ ہوں گے، خواہ دنیا جہان کی ساری عدالتیں اسے تسلیم کرلیں اور غاصب کے حق میں فیصلہ دے دیں مگر جھوٹ جھوٹ ہی رہے گا۔
اس مسئلے کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6967
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7169
7169. سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بس میں تو صرف ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا مقدمہ پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں نے جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا ٖفیصلہ کر دیا تو وہ اس کو نہ لے کیونکہ وہ تو میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7169]
حدیث حاشیہ:
اس سے معلوم ہوا کہ قاضی فیصلہ کرتے وقت فریقین کو وعظ و نصیحت کرے کہ کوئی دوسرےکے حق پر ڈاکا نہ مارے بلکہ صرف اپنا حق لینے کے لیے تگ ودو اور کوشش کرے۔
نیز اس حدیث سے پتا چلا کہ قاضی کا فیصلہ صرف ظاہر میں نافذ ہوتا ہے۔
کہ اس سے جھگڑا ختم ہو جاتا ہے لیکن اس فیصلے سے جو چیز حرام ہو وہ حلال نہیں ہو جاتی اور نہ حلال چیز حرام ہی ہوتی ہے۔
کسی بھی قاضی کا غلط فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صحیح نہیں ہو سکتا کہ اسے جوں کا توں نافذ کر دیا جائے۔
غلط، غلط ہی رہے گا جیسا کہ ہم کتاب الحدود میں اس کی وضاحت بیان کر آئے ہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7169
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7181
7181. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے پھر آپ نے فرمایا: ”میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ اپنے مقدمے لے کر آتےہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت اپنا مقصد واضح کرنے میں زیادہ ماہر ہو، میں یقین کرلوں کہ وہی سچا ہے اور اس طرح کے حق میں فیصلہ کر دوں ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ خالص دوزخ کا ٹکڑا ہے، وہ چاہے تو اسے لے لے یا چھوڑ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7181]
حدیث حاشیہ:
1۔
اگرقاضی جھوٹے گواہوں سے متاثر ہوکر کوئی فیصلہ کر دیتا ہے تو کیا وہ ظاہری اور باطنی امورپر نافذ العمل ہوگا؟ اس کے متعلق اکثر اہل علم کا موقف ہے کہ ایسا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ ہوگا کہ اس سے جھگڑا ختم ہو جائے گا لیکن باطنی طور پر وہ نافذ نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہے اس سے باز پرس ہوگی جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوتا ہے۔
لیکن کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ گواہوں کی گواہی پر فیصلہ تعبدی حکم ہے تو یہ باطن میں بھی نافذ العمل ہوگا ایسے شخص کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوگا ہاں اگرقاضی گواہوں کی گواہی پر نہیں بلکہ اپنے ذاتی علم کی وجہ سے فیصلہ کرتا ہے تو اسے مسترد کر دیا جائے گا۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ قاضی کا فیصلہ کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام نہیں کرےگا، لہذا کسی دوسرے کا حق لینے والے کو خوب سوچ وبچار کرنی چاہیے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7181
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7185
7185. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے اپنے دروازے پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی تو ان کی طرف تشریف لے گئے،پھر آپ نے ان سے فرمایا: ”میں تمہارے جیسا ایک انسان ہی ہوں۔ میرے پاس لوگ مقدمات لے کر آتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک فریق دوسرے کے مقابلے میں عمدہ بات کرنے کا ماہر ہو اور میں اس کی بات سن کر اس کے حق فیصلہ کردیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ بات کرنے میں سچا ہے تو ایسے حالات میں اگر میں کسی دوسرے کے حق کا فیصلہ کردوں تو بلاشبہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے وہ اسے لے لے یا چھوڑدے۔“۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7185]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ ان کا جھگڑا ایک وراثتی جائیداد کے متعلق تھا جو بالکل ہی خستہ اور پُرانی ہوچکی تھی اور ان میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ وغیرہ نہ تھے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حق غیر کے متعلق خبردار کیا تو دونوں رونے لگے اور اس جائیداد سے دستبردار ہوگئے اور ان میں سے ہر ایک کہنے لگے:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ دوسرے کو ہی جائیداد دے دیں۔
یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر تم اس پر آمادہ ہو ہوتو اس جائیداد کو تقسیم کرو، پھر حق تلاش کرنے کی کوشش کرو۔
اس کے بعد قرعہ اندازی سے اپنا حصہ متعین کرلو اور ایک دوسرے سے معافی بھی مانگ لو۔
“ (طحاوي: 287/2 کتاب الفضاء والشھادات)
2۔
بہرحال مال تھوڑا ہو یا زیادہ اگر کسی نے ناجائز ذرائع سے اسے ہتھیا لیا اور حق دار کو اس سے محروم کردیا تو دونوں صورتوں میں مذکورہ وعید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7185