الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4473
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میرے پاس جھگڑا لاتے ہو اور ہو سکتا ہے تم میں سے بعض، دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل بہتر انداز یا فطانت سے پیش کرے تو میں اس کے حق میں، اس سے سننے کے مطابق فیصلہ کر دوں تو جس کو میں نے اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دلوا دی، وہ اس کو نہ لے، کیونکہ میں اس کو اس چیز کی صورت میں آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4473]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَلحَنَ بِحُجَّتِهِ:
وہ اپنی دلیل کو بہتر طور پر سمجھتا ہو اور زیادہ مؤثر انداز سے پیش کرتا ہو۔
(2)
قطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيْهِ:
میں اس کے بھائی کے حق میں سے اس کو کچھ دلوا دوں یا دے دوں۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
قاضی یا حاکم کا فیصلہ ظاہر کے مطابق ہوتا ہے،
یعنی وہ ظاہری طور پر شاہدوں سے جو کچھ سنتا ہے،
اس کے مطابق فیصلہ کر دیتا ہے اور اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ شاہد جھوٹ بول رہے ہیں،
اس لیے جس مدعی نے اپنا دعویٰ جھوٹے شاہدوں سے ثابت کیا ہے،
اس کو چونکہ معلوم ہے کہ میں نے جھوٹے گواہ پیش کیے ہیں اور معاملہ کی اصل حقیقت وہ نہیں ہے جو میں نے گواہوں کے ذریعہ ثابت کی ہے،
اس لیے اس کو فیصلہ کو اپنے حق میں استعمال نہیں کرنا چاہیے،
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ اصل حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا،
(حالانکہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حقیقت سے آگاہ کر سکتا تھا)
تاکہ امت کے سامنے یہ حقیقت واضح رہے کہ عدالت میں جھوٹے گواہ قائم کر کے فیصلہ نافذ العمل ہو گا،
لیکن آخرت میں یہ انسان مجرم ٹھہرے گا اور سزا کا مستحق ہو گا،
جمہور علماء کا نظریہ اس حدیث کے مطابق ہے،
یعنی امام مالک،
شافعی،
احمد،
اوزاعی،
اسحاق،
ابو ثور،
داود اور ابن الحسن رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے،
لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر حاکم نے،
عقد،
فسخ عقد یا طلاق کا فیصلہ،
جھوٹے گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر کر دیا تو اس کا فیصلہ ظاہرا اور باطنا (حقیقت واقعہ)
دونوں اعتبار سے نافذ العمل ہو گا،
مثلا دو گواہوں کو انہوں نے ایکا کر کے،
ایک انسان کے بارے میں یہ گواہی دی کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور قاضی نے گواہی مان کر میاں بیوی میں جدائی ڈال دی تو گواہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم نے جھوٹ بولا ہے،
عدت کے گزرنے کے بعد اس سے شادی کر سکتا ہے یا عورت نے جھوٹے گواہ تیار کر کے جھوٹی گواہی دلوائی کہ فلاں مرد نے میرے ساتھ شادی کی ہے اور مجھے آباد نہیں کرتا اور قاضی نے اس نکاح کو تسلیم کر لیا تو وہ عورت اس مرد کے لیے حلال ہو گی؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس سے نکاح نہیں کیا تھا تو جھوٹ سے حقیقت تو تبدیل نہیں ہو گی،
اس لیے ظاہری اعتبار سے تو یہ فیصلہ نافذ العمل ہو گا،
لیکن باطن کے اعتبار سے درست نہیں ہے،
اس لیے وہ عورت حقیقت کے اعتبار سے اس کے لیے جائز نہیں ہے،
وہ حقیقت کے اعتبار سے زانی ہیں،
اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے میاں بیوی ہیں اور احناف کا اس کو انشاء قرار دینا،
یعنی گویا کہ قاضی نے نکاح کر دیا ہے،
درست نہیں ہے،
کیونکہ قاضی نے جھوٹی گواہی پر جھوٹے نکاح کو تسلیم کیا ہے،
نیا نکاح نہیں کیا،
شریعت کا اصل مقصود یہ ہے کہ ایک مسلمان ناجائز حربے استعمال نہ کرے،
کیونکہ جب ناجائز حربہ اس کو گناہ اور جرم سے بچا نہیں سکتا اور اس کی اخروی زندگی کی تباہی کا باعث ہے تو اس کو استعمال کیوں کیا جائے اور عجیب بات ہے،
احناف خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جھوٹے گواہ قائم کرنا،
ایک حرام کام ہے اور وہ اس سے بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے،
(تکملہ،
ج 2،
ص 572)
تو پھر یہ باطنا کیسے جاری ہوا،
باطنا تب ہی جاری ہو سکتا تھا،
جب وہ قاضی کے فیصلہ کی بناء پر آخرت کی سزا سے بچ سکتا ہے جو کہ احناف کے نزدیک بھی ممکن نہیں ہے،
اس لیے امام ابو یوسف اور امام محمد کا فتویٰ جمہور کے مطابق ہے اور بعض ائمہ احناف اس کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔
(تکملہ،
ج 2،
ص 571)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4473
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4475
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کمرہ کے دروازہ پر جھگڑنے والوں کا شور سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نکلے اور فرمایا: ”میں بھی ایک انسان ہوں اور صورت حال یہ ہے، میرے پاس جھگڑنے والے (اپنا جھگڑا) لے کر آتے ہیں اور ممکن ہے، ان میں سے بعض، بعض کے مقابلہ میں زیادہ مؤثر بیان کرے اور میں سمجھوں یہ سچا ہے، اس لیے اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4475]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
جَلَبه يا لَجَبه:
شور،
آوازوں کا ٹکراؤ۔
(2)
خَصم:
مفرد اور جمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں جمع کے معنی میں ہے،
جھگڑا کرنے والے۔
فوائد ومسائل:
إِنَّمَا أَنَا بَشَر:
میں بھی انسان ہوں اور ایک انسان غیب کا علم نہیں رکھتا اور اشیاء کے باطن سے آگاہ نہیں ہوتا،
اس لیے میں ایک قاضی اور حکم کی حیثیت سے عام انسانوں کی طرح ظاہر کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں،
تاکہ بعد میں آنے والے قاضی اور حاکم کے لیے،
میرا یہ فیصلہ نمونہ اور اسوہ بنے کہ وہ اصول شریعت کے مطابق بینہ (شہادت)
یا قسم کے مطابق فیصلہ کرنے کا پابند ہے،
شہادت اور قسم کی اصل حقیقت کہ وہ سچی ہے یا جھوٹی تک پہنچنے کا پابند نہیں ہے،
جیسا وہ گواہوں یا قسم کو صحیح سمجھتا ہے،
اگرچہ وہ فی الواقع جھوٹی ہے تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کر دے گا،
اب یہ مدعی اور مدعی علیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ غلط طریقہ نہ اپنائیں،
اگر وہ غلط رویہ اختیار کریں گے تو وہ مجرم ہوں گے،
قاضی بری الذمہ ہو گا،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی شہادت اور چرب زبانی سے کام لینے والے کو مخاطب کیا ہے کہ وہ قاضی کے فیصلہ کو جبکہ مدعی اصل حقیقت سے آگاہ ہے،
اس لیے جواز کا باعث نہ سمجھ لے،
وگرنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رسول تھے،
اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حقیقت سے آگاہ کر سکتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ اصل حقیقت اور واقعہ کے مطابق کر سکتے تھے۔
فَأَحسبُ أَنَّهُ صَادِقٌ:
یعنی میں چرب لسانی کرنے والے یا اپنی بات اور اپنا مقدمہ مؤثر انداز سے پیش کرنے والے کو سچا سمجھ لوں،
اس طرح اس کا تعلق فیصلہ یا مقدمہ سے ہے،
باقی رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امت کے لیے احکام و فرامین جو آپﷺ نے اپنے اجتہاد سے دئیے،
اس سے اس کا تعلق نہیں ہے،
کیونکہ وہاں تو اگر جمہور کے مطابق غلطی کے امکان کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی آپﷺ کی فورا اللہ کی طرف سے تصحیح کر دی جاتی تھی اور مقدمہ میں ظاہر کے مطابق فیصلہ کرنا خطا یا غلطی نہیں ہے،
بلکہ قاضی اور حاکم اس کا پابند ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسوہ ہونے کی حیثیت سے اس اصول کے پابند تھے،
اس لیے اللہ کی طرف سے آپﷺ کو حقیقت حال سے آگاہ نہیں کیا جانا تھا،
وگرنہ حاکموں کے لیے فیصلہ کرنا ممکن نہ ہوتا۔
فَلْيَحْمِلْهَا أَوْ يذَرَهَا:
اس کو اٹھا لے یا چھوڑ دے،
اختیار کے لیے نہیں ہے،
بلکہ تہدید اور دھمکی کے لیے ہے،
جیسا کہ فرمایا:
﴿فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ﴾ جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے اور فرمایا:
﴿اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ﴾ جو چاہو عمل کرو،
مقصد یہ ہے حاضر تو ہمارے سامنے ہی ہونا ہے تو ہم محاسبہ اور باز پرس کر لیں گے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4475
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2458
2458. ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑنے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”بس میں تو ایک بشر ہی ہوں۔ میرے پاس ایک فریق آتا ہے اور شاید ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو جس سے مجھے خیال ہوکہ اس نے سچ کہا ہے، پھر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، اندریں حالات اگر میں کسی کو دوسرے مسلمان کا حق دلادوں تو یہ آگ کاایک ٹکڑا ہے، چاہے تو اسے قبول کر لے، چاہے اسے چھوڑ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2458]
حدیث حاشیہ:
یعنی جب تک خدا کی طرف سے مجھ پر وحی نہ آئے میں بھی تمہاری طرح غیب کی باتوں سے ناواقف رہتا ہوں کیوں کہ میں بھی آدمی ہوں اور آدمیت کے لوازم سے پاک نہیں ہوں۔
اس حدیث سے ان بے وقوفوں کا رد ہوا جو آنحضرت ﷺ کے لیے علم غیب ثابت کرتے ہیں یا آنحضرت ﷺ کو بشر نہیں سمجھتے بلکہ الوہیت کی صفات سے متصف جانتے ہیں۔
﴿قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ﴾ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2458
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6967
6967. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں ایک انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں کوئی دوسرا اپنے فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو، اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں اس سے سنتا ہوں، لہذا ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کر دیتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6967]
حدیث حاشیہ:
وہ فقہاءاسلام غور کریں جو قاضی کا فیصلہ ظاہراً و باطناً نافذ سمجھتے ہیں۔
اگرچہ وہ کتنا ہی غلط اور ظلم و جور سے بھرپور ہو جیسے کسی کی عورت زبردستی پکڑ کر اس کا کسی قاضی کے یہاں دعویٰ کر دے، اس پر اپنی صفائی میں دو جھوٹے گواہ پیش کر دے اور قاضی مان لے تو ایسے مقدمات کے قاضی کے غلط فیصلے صحیح نہ ہوں گے خواہ کتنے ہی قاضی اسے مان لیں اور غاصب کے حق میں فیصلہ دے دیں مگر جھوٹ جھوٹ رہے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6967
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7169
7169. سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بس میں تو صرف ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا مقدمہ پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں نے جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا ٖفیصلہ کر دیا تو وہ اس کو نہ لے کیونکہ وہ تو میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7169]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کسی بھی قاضی کا فیصلہ عنداللہ صحیح نہیں ہو سکتا گو وہ نافذ کر دیا جائے، غلط غلط ہی رہے گا۔
اس حدیث سے امام مالک اور امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث اور جمہور علماء کا مذہب ثابت ہوا کہ قاضی کا فیصلہ ظاہر میں نافذ ہوتا ہے لیکن اس کے فیصلے سے جو شے حرام ہے وہ حلال نہیں ہوتی نہ حلال حرام ہوتی ہے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول رد ہوگیا کہ قاضی کا فیصلہ ظاہراً اور باطناً دونوں طرح نافذ ہو جاتا ہے اور اس مسئلہ کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علے وسلم کو غیب کا علم نہ تھا۔
البتہ اللہ تعالیٰ اگر آپ کو بتلا دیتا تو معلوم ہو جاتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7169
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7181
7181. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے پھر آپ نے فرمایا: ”میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ اپنے مقدمے لے کر آتےہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت اپنا مقصد واضح کرنے میں زیادہ ماہر ہو، میں یقین کرلوں کہ وہی سچا ہے اور اس طرح کے حق میں فیصلہ کر دوں ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ خالص دوزخ کا ٹکڑا ہے، وہ چاہے تو اسے لے لے یا چھوڑ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7181]
حدیث حاشیہ:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بنت ابوامیہ ہیں۔
پہلے ابوسلمہ کے نکاح میں تھیں۔
سنہ4ھ میں ان کے انتقال کے بعد حرم نبوی میں داخل ہوئیں۔
84 سال کی عمر میں سنہ59ھ میں فوت ہوکر بقیع غرقد میں دفن ہوئیں۔
رضي اللہ عنها و أرضاہ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7181
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2680
2680. حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ایسا ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ ہوشیار ہو اور اس کے کہنے کے مطابق میں اس کے بھائی کا حق اسے دے دوں تو میں نے اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ نہ لے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2680]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں امام مالک، شافعی، امام احمد اور جمہور علماء کا مذہب ثابت ہوا کہ قاضی کا حکم ظاہراً نافذ ہوتا ہے نہ کہ باطناً، یعنی قاضی اگر غلطی سے کوئی فیصلہ کردے تو جس کے موافق فیصلہ کرے عنداللہ اس کے لیے وہ شے درست ہوگی اور حنفیہ کا رد ہوا جن کے نزدیک قاضی کی قضا ظاہراً اور باطناً دونوں طرح نافذ ہوجاتی ہیں۔
حدیث سے بھی یہی نکلا کہ پیغمبر صاحب ﷺ کو بھی دھوکہ ہوجانا ممکن تھا اور آپ کو علم غیب نہ تھا اور جب آپ سے جو سارے جہاں سے افضل تھے۔
غلطی ہوجانا ممکن ہوا تو اور کسی قاضی یا مجتہد یا امام یا عالم کی کیا حقیقت اور کیا ہستی ہے اوربڑا بے وقوف ہے وہ شخص جو کسی مجتہد یا پیر کو خطا سے معصوم سمجھے۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2680
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7185
7185. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے اپنے دروازے پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی تو ان کی طرف تشریف لے گئے،پھر آپ نے ان سے فرمایا: ”میں تمہارے جیسا ایک انسان ہی ہوں۔ میرے پاس لوگ مقدمات لے کر آتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک فریق دوسرے کے مقابلے میں عمدہ بات کرنے کا ماہر ہو اور میں اس کی بات سن کر اس کے حق فیصلہ کردیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ بات کرنے میں سچا ہے تو ایسے حالات میں اگر میں کسی دوسرے کے حق کا فیصلہ کردوں تو بلاشبہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے وہ اسے لے لے یا چھوڑدے۔“۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7185]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قاضی کا فیصلہ اگر غلط ہو تو وہ نافذ نہ ہو گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7185
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2458
2458. ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑنے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”بس میں تو ایک بشر ہی ہوں۔ میرے پاس ایک فریق آتا ہے اور شاید ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو جس سے مجھے خیال ہوکہ اس نے سچ کہا ہے، پھر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں، اندریں حالات اگر میں کسی کو دوسرے مسلمان کا حق دلادوں تو یہ آگ کاایک ٹکڑا ہے، چاہے تو اسے قبول کر لے، چاہے اسے چھوڑ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2458]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ جو انسان جان بوجھ کر کسی ناحق بات پر جھگڑ کر کسی کا حق لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے وہ جہنم کا مستحق ہے، نیز قاضی کے فیصلے سے کوئی ناحق چیز جائز نہیں ہو جاتی، اس کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ العمل ہو گا، باطنی طور پر نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ اور ناحق لینے والے کے درمیان وہ فیصلہ نافذ نہیں ہو گا بلکہ قیامت کے دن ضرور بازپرس ہو گی۔
(2)
جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے کیونکہ خود رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
میں، صورت واقعہ جس شکل میں پیش کی جاتی ہے اسے سامنے رکھ کر فیصلہ دے دیتا ہوں۔
اگر کوئی اپنی چرب زبانی سے بازی جیت لیتا ہے اور میرے فیصلے سے کسی کا حق مارتا ہے تو وہ جو کچھ لے رہا ہے وہ آگ کا ٹکڑا ہے اسے قبول کرے یا ترک کر دے، یعنی وہ کسی کا حق لینے میں خود ذمہ دار ہے میرا فیصلہ اس کے لیے وہ چیز جائز نہیں کر دے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2458
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2680
2680. حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ایسا ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دلیل بیان کرنے میں دوسرے سے زیادہ ہوشیار ہو اور اس کے کہنے کے مطابق میں اس کے بھائی کا حق اسے دے دوں تو میں نے اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کردیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ نہ لے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2680]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قاضی کا فیصلہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرتا۔
اس میں معاملات و عقود برابر ہیں۔
اس پر سب علماء کا اتفاق ہے، لہذا اگر دو جھوٹے گواہ کسی شخص کے لیے مال کی گواہی دیں اور قاضی بظاہر ان کی سچائی پر فیصلہ کر دے تو جس کے لیے مال کا فیصلہ کیا گیا ہے اس کے لیے وہ مال حلال نہیں ہو گا۔
اسی طرح اگر جھوٹے گواہ کسی پر قتل کی گواہی دیں تو مقتول کے وارث کے لیے جائز نہیں کہ اس سے قصاص لے جبکہ اسے گواہوں کے جھوٹے ہونے کا علم ہو۔
(2)
علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں:
حدیث میں موجود صورت حال اس وقت متصور ہو گی کہ قسم اٹھانے کے بعد گواہ پیش کیے جائیں۔
شارح بخاری ابن منیر ؒ نے اس حدیث کی عنوان سے مطابقت ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ جھوٹی قسم کھا کر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے لیے حلال یا اپنا حق اس پر ثابت نہیں کر سکتا۔
وہ چیز قسم اٹھانے کے بعد بھی اس پر حرام رہے گی۔
قسم اٹھانے سے پہلے اور بعد دونوں حالتوں میں وہ چیز حق دار کی ہے اگر وہ گواہی لے آئے۔
(فتح الباري: 355/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2680
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6967
6967. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”میں ایک انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں کوئی دوسرا اپنے فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو، اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کر دوں جو میں اس سے سنتا ہوں، لہذا ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں کسی چیز کا فیصلہ کر دوں تو وہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کر دیتا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6967]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کوئی عنوان قائم نہیں فرمایا، گویا یہ پہلے عنوان کے لیے فصل کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے مذکورہ حدیث کی مناسبت پہلے باب سے ہوگی جو بالکل واضح ہے کہ جھوٹ یا جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر حاکم نے جو فیصلہ کیا ہے اگرحق لینے والا جانتا ہے کہ یہ میرا حق نہیں کہ بلکہ کسی اور کا ہے توعدالت کے فیصلے سے یہ حق اس کا نہیں ہو جائے گا بلکہ اسے وہ اپنے لیے آگ کا ٹکڑا خیال کرے کیونکہ عدالت کا فیصلہ کسی حرام کو حلال یا کسی حلال کو حرام نہیں کر سکتا۔
2۔
دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیلہ سازوں کے سہاروں کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس کی بنیاد ایک مشہور اختلافی مسئلے پر ہے کہ جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت جو فیصلہ کرتی ہے وہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے نافذ ہوتا ہے یا وہ صرف ظاہری اعتبار سے ہے باطنی لحاظ سے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
ظاہری اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ وہ فیصلہ صرف دنیوی جھگڑا ختم کرنے کے لیے کارگر ہوتا ہے لیکن اخروی حلت اس سے ثابت نہیں ہوتی، قانونی حیثیت سے مدعی کو اس سے فائدہ ضرور ہوگا لیکن آخرت میں اس سے ضرور باز پر س ہوگی کیونکہ اس نے جانتے بوجھتے ہوئے غیر کا حق مارا ہے۔
جمہور اہل علم اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
3۔
باطنی اعتبار کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی وہ چیزمدعی کے لیے حلال ہو جائے گی اور اسے کسی قسم کا گناہ نہیں ہوگا اور نہ آخرت ہی میں اس سے کوئی باز پرس ہوگی، اہل کوفہ کا یہی موقف ہے۔
اس موقف کو محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے سختی سے مسترد کیا ہے۔
ان میں سرفہرست امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
انھوں نے مذکورہ بالا حدیث سے ثابت کیا ہے کہ عدالت کا فیصلہ تو بہت دور کی بات ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بھی ایسے حالات میں اسے اخروی باز پرس سے نہیں بچا سکتا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اپنی چرب زبانی سے جو کوئی مجھ سے اپنے حق میں فیصلہ لے لےتو وہ غیر کا حق کسی صورت میں اس کے لیے حلال نہ ہوگا بلکہ میں اس کے لیے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں۔
4۔
ہم اس مناسبت سے ان فقہائے کرام کو دعوت فکر دیتے ہیں۔
جو جھوٹے گواہوں کی بنیاد پر عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی لحاظ سے نافذ سمجھتے ہیں اگرچہ وہ کتنا ہی غلط اور ظلم وزیادتی سے بھر پور ہو۔
ذرا چشم تصور کھول کر سوچیں اگر کوئی بدفطرت حیلہ ساز کسی کی معصوم بیٹی زبردستی چھین کر عدالت میں دعویٰ کر دے کہ یہ میری بیوی ہے اور اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے دو جھوٹے گواہ پیش کر دے، عدالت ان گواہوں پر اعتبار کر کے اس کے حق میں فیصلہ کر دے تو کیا واقعی وہ معصوم لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی اور اس سے اپنی شہوت پوری کرنا اس کے لیے جائز ہو جائے گا؟ بہرحال اس قسم کے مقدمات میں عدالت کے فیصلے صحیح نہ ہوں گے، خواہ دنیا جہان کی ساری عدالتیں اسے تسلیم کرلیں اور غاصب کے حق میں فیصلہ دے دیں مگر جھوٹ جھوٹ ہی رہے گا۔
اس مسئلے کی مزید وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6967
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7169
7169. سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بس میں تو صرف ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے مقدمات لاتے ہو، ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی اپنا مقدمہ پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو اور میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں تو میں نے جس کے لیے اس کے بھائی کے حق کا ٖفیصلہ کر دیا تو وہ اس کو نہ لے کیونکہ وہ تو میں اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7169]
حدیث حاشیہ:
اس سے معلوم ہوا کہ قاضی فیصلہ کرتے وقت فریقین کو وعظ و نصیحت کرے کہ کوئی دوسرےکے حق پر ڈاکا نہ مارے بلکہ صرف اپنا حق لینے کے لیے تگ ودو اور کوشش کرے۔
نیز اس حدیث سے پتا چلا کہ قاضی کا فیصلہ صرف ظاہر میں نافذ ہوتا ہے۔
کہ اس سے جھگڑا ختم ہو جاتا ہے لیکن اس فیصلے سے جو چیز حرام ہو وہ حلال نہیں ہو جاتی اور نہ حلال چیز حرام ہی ہوتی ہے۔
کسی بھی قاضی کا غلط فیصلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صحیح نہیں ہو سکتا کہ اسے جوں کا توں نافذ کر دیا جائے۔
غلط، غلط ہی رہے گا جیسا کہ ہم کتاب الحدود میں اس کی وضاحت بیان کر آئے ہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7169
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7181
7181. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدنا ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو باہر تشریف لائے پھر آپ نے فرمایا: ”میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ اپنے مقدمے لے کر آتےہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک فریق دوسرے کی نسبت اپنا مقصد واضح کرنے میں زیادہ ماہر ہو، میں یقین کرلوں کہ وہی سچا ہے اور اس طرح کے حق میں فیصلہ کر دوں ایسے حالات میں جس شخص کے لیے بھی میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ خالص دوزخ کا ٹکڑا ہے، وہ چاہے تو اسے لے لے یا چھوڑ دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7181]
حدیث حاشیہ:
1۔
اگرقاضی جھوٹے گواہوں سے متاثر ہوکر کوئی فیصلہ کر دیتا ہے تو کیا وہ ظاہری اور باطنی امورپر نافذ العمل ہوگا؟ اس کے متعلق اکثر اہل علم کا موقف ہے کہ ایسا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ ہوگا کہ اس سے جھگڑا ختم ہو جائے گا لیکن باطنی طور پر وہ نافذ نہیں ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جس کے حق میں فیصلہ ہوا ہے اس سے باز پرس ہوگی جیسا کہ حدیث بالا سے معلوم ہوتا ہے۔
لیکن کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ گواہوں کی گواہی پر فیصلہ تعبدی حکم ہے تو یہ باطن میں بھی نافذ العمل ہوگا ایسے شخص کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی کوئی مواخذہ نہیں ہوگا ہاں اگرقاضی گواہوں کی گواہی پر نہیں بلکہ اپنے ذاتی علم کی وجہ سے فیصلہ کرتا ہے تو اسے مسترد کر دیا جائے گا۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ قاضی کا فیصلہ کسی حرام کو حلال یا حلال کو حرام نہیں کرےگا، لہذا کسی دوسرے کا حق لینے والے کو خوب سوچ وبچار کرنی چاہیے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7181
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7185
7185. سیدہ ام سلمہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ نے اپنے دروازے پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی تو ان کی طرف تشریف لے گئے،پھر آپ نے ان سے فرمایا: ”میں تمہارے جیسا ایک انسان ہی ہوں۔ میرے پاس لوگ مقدمات لے کر آتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک فریق دوسرے کے مقابلے میں عمدہ بات کرنے کا ماہر ہو اور میں اس کی بات سن کر اس کے حق فیصلہ کردیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ بات کرنے میں سچا ہے تو ایسے حالات میں اگر میں کسی دوسرے کے حق کا فیصلہ کردوں تو بلاشبہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے وہ اسے لے لے یا چھوڑدے۔“۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7185]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ ان کا جھگڑا ایک وراثتی جائیداد کے متعلق تھا جو بالکل ہی خستہ اور پُرانی ہوچکی تھی اور ان میں سے کسی کے پاس کوئی گواہ وغیرہ نہ تھے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حق غیر کے متعلق خبردار کیا تو دونوں رونے لگے اور اس جائیداد سے دستبردار ہوگئے اور ان میں سے ہر ایک کہنے لگے:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ دوسرے کو ہی جائیداد دے دیں۔
یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر تم اس پر آمادہ ہو ہوتو اس جائیداد کو تقسیم کرو، پھر حق تلاش کرنے کی کوشش کرو۔
اس کے بعد قرعہ اندازی سے اپنا حصہ متعین کرلو اور ایک دوسرے سے معافی بھی مانگ لو۔
“ (طحاوي: 287/2 کتاب الفضاء والشھادات)
2۔
بہرحال مال تھوڑا ہو یا زیادہ اگر کسی نے ناجائز ذرائع سے اسے ہتھیا لیا اور حق دار کو اس سے محروم کردیا تو دونوں صورتوں میں مذکورہ وعید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7185