حدیث حاشیہ: 1۔
یہ زمین جس پر ہم آباد ہیں، سورج اس سے کروڑوں میل کی بلندی پر ہے۔
اس قدر بلند ہونے کے باوجود بھی یہ اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے ہے۔
اور عرش عظیم تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے۔
اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن وحدیث میں اس کی صراحت ہے۔
اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات باری تعالیٰ کے لیے علو ثابت کیا ہے۔
یہ علو کیسا ہے؟ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے مگر اس استواء کی کیفیت کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا:
لفظ استواء سے اللہ تعالیٰ کے عرش پر قرار پکڑنے یا بلند ہونے کے معنی تو واضح ہیں مگر اللہ تعالیٰ کےعرش پر مستوی ہونے کی کیفیت کے متعلق ہمیں شارع علیہ السلام کی طرف سے کچھ نہیں بتایا گیا، اس لیے اللہ تعالیٰ کے مستوی علی العرش ہونے پر ایمان لانا تو واجب ہے جبکہ اس کی کیفیت کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔
(فتح الباري: 500/13) 2۔
بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر ہے لیکن شارح صحیح بخاری ابن منیر پر تعجب ہے کہ انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کے خلاف یہ کہا کہ اس عنوان سے ابطال جہت مقصود ہے۔
اگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہی غرض ہوتی تو عروج ملائکہ اور صَعُود کلمات طیبات پر مشتمل آیات اور ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علوثابت کرنے والی احادیث اس عنوان کے تحت کیوں لائے؟3۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کےعلو اور اس کے مستوی علی العرش ہونے کے متعلق لوگوں کی چار قسمیں ہین جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
اللہ تعالیٰ نہ عالم سے خارج ہے اور نہ اس میں داخل ہے، اس کے لیے کوئی جہت اوپر یا نیچے نہیں۔
۔
اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے۔
وحدت الوجود کی بنیاد بھی یہی ہے۔
۔
وہ عرش کے اوپر بھی ہے اورذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود بھی ہے۔
۔
کتاب و سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لیے وہی چیز ثابت کی جائے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ثابت کی ہے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق نشاندہی کی ہے۔
اس میں کوئی تحریف وتاویل نہ کی جائے اور نہ مخلوق کے مماثل ہی قرار دیا جائے۔
اس عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے عرش پر بلند ہے، آسمانوں کے اوپر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔
(مجموع الفتاویٰ: 229/5) 4۔
برصغیر میں بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے اور وہ وحدت الوجود کو صحیح اور برحق قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ عقیدہ سراسر باطل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔
وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں اور جو اس میں چڑھتی ہے اور جہاں کہیں بھی تم ہو، وہ تمہارے ساتھ ہے۔
“ (الحدید 4) اس آیت کریمہ میں دونوں مسئلے ثابت ہوئے کہ وہ اللہ ذات کے اعتبار سے اپنے عرش پر بلند ہے اور علم کے اعتبار سے ہرجگہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معیت سے مراد اس کی ہمہ گیر نگرانی ہے اوروہ روئے زمین سے متعلق نہیں بلکہ کائنات میں ہرجگہ موجود رہتی ہے۔
انسانوں کے تمام اقوال وافعال اور ان کی تمام حرکات وسکنات اس کے علم میں ہیں۔
نہ کوئی اللہ تعالیٰ سے چھپ سکتاہے اور نہ اپنے افعال واعمال ہی سے اس سے چھپا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معیت اس کی ذات کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس کی قدرت اور اس کے علم کے لحاظ سے ہوتی ہے، چنانچہ امام ابن جریر طبری مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اے لوگو! وہ اللہ تم پر گواہ ہے، تم جہاں بھی ہو وہ تمھیں جانتا ہے۔
وہ تمہارے اعمال، تمہارا ٹھکانا اور نقل وحرکت جانتا ہے اور وہ ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔
(تفسیر طبری: 125/27) امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اللہ تعالیٰ کی معیت کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے فرمایا:
اس سے اللہ تعالیٰ کا علم مراد ہے۔
وہ عالم الغیب ہے، ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
وہ شاہد ہے، علامہ الغیوب ہے۔
وہ غیب جانتا ہے اور ہمارا رب تکییف کے بغیرعرش پر ہے لیکن ہم اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتے۔
(شرح حدیث النزول:
ص: 74) بہرحال اس بات پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔
(سیر أعلام النبلاء: 650/17)