الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ} :
1. باب: آیت «والشمس تجري لمستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4803
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا سورة يس آية 38، قَالَ:" مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے فرمان «والشمس تجري لمستقر لها‏» اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے۔ کے متعلق سوال کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4803]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريمستقرها تحت العرش
   صحيح البخاريمستقرها تحت العرش
   صحيح مسلممستقرها تحت العرش

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4803 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4803  
حدیث حاشیہ:
ابن کثیر اور قسطلانی نے کہا کہ عرش کروی نہیں ہے، جیسے اہل ہیئات سمجھتے ہیں بلکہ وہ ایک قبہ ہے۔
اس میں پائے ہیں جس کو فرشتے تھامے ہوئے ہیں۔
تو عرش آدمیوں کی سر کی جانب اوپر کی طرف ہے۔
پھر وہ دن کو سورج عرش کے بہت قریب ہوتا ہے اور آدھی رات وقت چوتھے آسمان پر اپنے مقام عرش سے دور ہوتا ہے، اسی وقت سجدہ کرتا ہے اور اس کی مشرق کی طرف جانے کی اور وہاں سے نکلنے کی اجازت ملتی ہے۔
سجدے سے اس کی عاجزی اور انقیاد مراد ہے۔
میں کہتا ہوں یہ اس زمانے کی تقریریں ہیں۔
جب زمین کا کروی ہونا اور زمین کی طرف آبادی ہونا اس کا علم اچھی طرح لوگوں کو نہ تھا۔
اب یہ بات تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہو گئی ہے کہ زمین کروی ہے لیکن اس میں حکیموں کا اختلاف ہے کہ زمین آفتاب کے گرد گھوم رہی ہے یا آفتاب زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔
حال کے حکیموں نے پہلا قول اختیار کیا ہے اور حدیث سے دوسرے قول کی تائید ہوتی ہے۔
اب جب عرش سب جانب سے زمین کے اوپر ہو تو اس کا بھی کروی ہونا ضروری ہے اور باعتبار اختلاف آفاق کے ہر آن میں کہیں نہ کہیں طلوع ہو رہا ہے کہیں نہ کہیں غروب۔
اس صورت میں حدیث میں اشکال پیدا ہوگا اور اس کا جواب یہ ہے کہ سجدے سے انقیاد اور خضوع مراد ہے تو وہ ہر وقت عرش کے تلے گویا سجدے میں ہے اور پرورد گار سے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے۔
قیامت کے قریب یہ اجازت اس کو نہ ملے گی اور حکم ہوگا کہ جدھر سے آیا ہے ادھر لوٹ جا تو وہ پھر مغرب سے نمودار ہوگا۔
واللہ أعلم آمناباللہ وکما قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم (وحیدی)
والشمس تجري لمستقر لھا قال صاحب اللمعات قد ذکر له في التفاسیر وجوہ غیرھا في ھذا الحدیث ولا شك أن ما وقع في الحدیث المتفق علیه ھو المعتبر و المعتمد والعجب من البیضاوي أنه ذکر وجودھا في تفسیرہ ولم یذکر ھذا الوجه ولعله أوقعه تفلسفه نعوذ باللہ من ذالك وفي کلام الصلیبي أیضا ما یشعر لضیق الصدر نسأل اللہ العافیة انتھی (حاشیہ بخاری، ص: 709)
صاحب لمعات نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿والشمسُ تَجرِي الخ﴾ (اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے)
کے بارے میں تفسیروں میں دوسری باتیں بیان کی گئی ہیں اور اس حدیث کے مضمون کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ مذکورہ بخاری و مسلم کی حدیث میں سورج کے بارے میں جو بیان کیا گیا ہے وہی قابل اعتماد واعتبار ہے۔
امام بیضاوی پر تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی تفسیر میں سورج کی حالت پر بہت سی وجوہات بیان کی ہیں اور وہ وجہ اور بیان چھوڑ دیا ہے جو اس حدیث میں ہے، یہ شاید ان پر یونانی فلسفہ کا اثر ہے۔
پناہ بخدا اور اس موقع پر علامہ طیبی رحمه اللہ نے جو کہا ہے اس سے بھی سینے میں تنگی اور بھنچاؤ پیدا ہوتا ہے (جسے شرح صدر کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا)
۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4803   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4803  
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سورج، عرش کے نیچے سجدہ کرنے کےبعد اللہ تعالیٰ سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے، پھر مشرق سے طلوع ہوتا ہے، قریب ہے کہ اسے مشرق سے طلوع ہونے کی اجازت نہ ملے اور اسے کہا جائے کہ تو واپس لوٹ جا، پھر وہ مغرب سے طلوع ہوگا۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3199)

مستقر کے دو معنی ہیں:
مستقر زمانی، یعنی وقت قرار، مستقر مکانی، یعنی جائے قرار۔
بہتر یہ ہے کہ یہاں مستقر زمانی مراد لیا جائے، یعنی وہ وقت جب آفتاب مقررہ مدت پوری کرکے اپنی حرکت ختم کر دے گا۔
اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ آفتاب اپنے مدار میں ایسے محکم اور مضبوط نظام کے ساتھ حرکت کر رہا ہے جس میں کبھی ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا۔
ہزاروں سال اس کی حرکت پر گزر چکے ہیں، پھر یہ حرکت دائمی نہیں بلکہ اس کے لیے ایک خاص مستقر (وقت مقرر)
ہے جہاں پہنچ کر یہ حرکت بند اور ختم ہو جائے گی اور وہ قیامت کا دن ہے۔
اس معنی کی تائید ایک دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے، ارشاد باری تعا لیٰ ہے:
ان میں سے ہر ایک (چاند اور سورج)
مقررہ وقت تک چلتا رہے گا۔
(الرعد 13: 2)
اس مقام پر اجل مسمی کے الفاظ ہیں جس کے معنی میعاد معین کے ہیں، لہذا اس کے معنی یہ ہیں کہ سورج اور چاند دونوں کی حرکت دائمی نہیں، ان کی حرکت کا ایک وقت مقرر ہے، وہاں پہنچ کر یہ حرکت ختم ہوجائے گی۔
اس پر تقریباً اہل علم کا اتفاق ہے کہ زمین کردی (گیند نما)
ہے اور اللہ کا عرش سب طرف سے اس زمین کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے تو اس سے اللہ کے عرش کا کروی ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اس اعتبار سے سورج باعتبار اختلاف آفاق ہر آن کہیں نہ کہیں طلوع اور غروب ہو رہا ہے، گویا وہ ہروقت عرش کے تلے سجدے میں ہے اور پرورد گار سے، آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہا ہے۔
قیامت کے قریب اسے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی جائےگی اور حکم ہوگا تو جدھر سے آیا ہے ادھر لوٹ جا، پھر وہ مغرب سے طلوع ہوگا اور قیامت آجائے گی۔

یاد رہے کہ سورج کی سجدہ کرنے سے مراد اس کا انقیاد وخضوع ہے، اس بنا پر حدیث کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب اپنے پورے دورے میں زیر عرش اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہے، یعنی اس کی اجازت اور اذن سے حرکت کرتاہے، اس سجدے اور اجازت کے لیے اسے کسی وقفے یا سکون کی ضرورت نہیں ہوتی۔
وہ اپنے مدار میں حرکت کے دوران ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ بھی کرتا ہے اور آگے چلنے کی اجازت بھی مانگتا ہے اور یہ سلسلہ قرب قیامت تک یونہی چلتا رہے گا۔

بہرحال آفتاب کے طلوع وغروب کے وقت عالم دنیا میں ایک نیا انقلاب آتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انقلابی وقت کو انسانی تنبیہ کے لیے موزوں سمجھ کر یہ تلقین فرمائی کہ آفتاب کو خود مختار اور اپنی مرضی سے حرکت کرنے والا خیال نہ کرو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اس کی مشیت کے تابع ہے۔
اس کاہر طلوع وغروب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے۔
اس کے تابع فرمان حرکت کرنے ہی کو سجدہ قراردیا گیا ہے کیونکہ ہر چیز کا سجدہ اس کے حال کے مطابق ہوتا ہے جیسا کہ خود قرآن کریم نے اس کی تصریح کی ہے۔
اس لیے آفتاب کے سجدہ کرنے کے یہ معنی سمجھنا کے وہ انسان کے سجدے کی طرح زمین پر پیشانی رکھنے سے ہی ہوگاصحیح نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں غروب آفتاب کے قریب حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک سوال وجواب کےذریعے سے اس حقیقت پر متنبہ ہونے کی ہدایت فرمائی جو ہم نے اوپر بیان کی ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4803   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 402  
حضرت ابو ذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے؟ کہ سورج اپنے مستقرکی طرف چل رہا ہے۔ (یٰس: 38) آپؐ نے جواب دیا: اس کا مستقر عرش کے نیچے ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:402]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مختلف علاقوں اور مختلف ملکوں کے اعتبار سے اس کا طلوع وغروب الگ الگ ہے،
اور اس کو اس کی اجازت لینے کے لیے ٹھہرنے یا توقف کی ضرورت نہیں ہے،
وہ اس کے حکم سے طلوع وغروب ہو رہا ہے،
اور اس کے مالک کی تدبیر ہے،
جس میں کسی منٹ سیکنڈ کے آگے پیچھے ہونے کا امکان نہیں ہے۔
اس کے حکم سے موسموں میں تبدیلی واقع ہو رہی ہے،
اور اس کے حکم کے مطابق طلوع وغروب کا وقفہ کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ ہے،
اور کہیں ہر موسم میں تقریبا یکساں رہتا ہے،
(دن رات تقریبا برابر ہوتے ہیں)
اور عرش کے نیچے گزرتے ہوئے اجازت طلب کرتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 402   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7433  
7433. سیدنا ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے (اللہ تعالیٰ کے) اس فرمان کے متعلق سوال کیا: اور سورج اپنی مقرر گزر گاہ پر چل رہا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی گزر گاہ عرش کے نیچے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7433]
حدیث حاشیہ:
باب کی سب احادیث میں امام بخاری  نےعلو اور فوقیت باری تعالیٰ ثابت کی اور اس کےلیے جہت فوق ثابت کی جیسے اہل حدیث کا مذہب ہےاور ابن عباس ؓ کی روایت میں جو رب العرش ہے اس سے بھی یہی مطلب نکلا کیونکہ عرش تمام اجسام کےاوپر ہے اور رب العرش عرش کے اوپر ہوگا اورتعجب ہے ابن منیر سے کہ انہوں نے امام بخاری کےمشرب کے خلاف یہ کہا کہ اس باب سے ابطال جہت مقصود ہے۔
اگر امام بخاری کی یہ غرض ہوتی تووہ صعود اورعروج کی آیتیں اورعلو کی احادیث اس باب میں کیوں لائے معلوم ہوا کہ فلاسفہ کےچوزوں کا اثر ابن منیر اورابن حجر اور ایسے علماء حدیث پر کیونکر پڑ گیا جو اثبات جہت کی دلیلوں سےالٹا مطلب سمجھتےہیں یعنی ابطال جہت، إن ھذا الشیئ عجاب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7433   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7433  
7433. سیدنا ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے (اللہ تعالیٰ کے) اس فرمان کے متعلق سوال کیا: اور سورج اپنی مقرر گزر گاہ پر چل رہا ہے آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی گزر گاہ عرش کے نیچے ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7433]
حدیث حاشیہ:

یہ زمین جس پر ہم آباد ہیں، سورج اس سے کروڑوں میل کی بلندی پر ہے۔
اس قدر بلند ہونے کے باوجود بھی یہ اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے ہے۔
اور عرش عظیم تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے۔
اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن وحدیث میں اس کی صراحت ہے۔
اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات باری تعالیٰ کے لیے علو ثابت کیا ہے۔
یہ علو کیسا ہے؟ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے مگر اس استواء کی کیفیت کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا:
لفظ استواء سے اللہ تعالیٰ کے عرش پر قرار پکڑنے یا بلند ہونے کے معنی تو واضح ہیں مگر اللہ تعالیٰ کےعرش پر مستوی ہونے کی کیفیت کے متعلق ہمیں شارع علیہ السلام کی طرف سے کچھ نہیں بتایا گیا، اس لیے اللہ تعالیٰ کے مستوی علی العرش ہونے پر ایمان لانا تو واجب ہے جبکہ اس کی کیفیت کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔
(فتح الباري: 500/13)

بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر ہے لیکن شارح صحیح بخاری ابن منیر پر تعجب ہے کہ انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کے خلاف یہ کہا کہ اس عنوان سے ابطال جہت مقصود ہے۔
اگر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہی غرض ہوتی تو عروج ملائکہ اور صَعُود کلمات طیبات پر مشتمل آیات اور ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علوثابت کرنے والی احادیث اس عنوان کے تحت کیوں لائے؟3۔
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کےعلو اور اس کے مستوی علی العرش ہونے کے متعلق لوگوں کی چار قسمیں ہین جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
اللہ تعالیٰ نہ عالم سے خارج ہے اور نہ اس میں داخل ہے، اس کے لیے کوئی جہت اوپر یا نیچے نہیں۔
۔
اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے۔
وحدت الوجود کی بنیاد بھی یہی ہے۔
۔
وہ عرش کے اوپر بھی ہے اورذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود بھی ہے۔
۔
کتاب و سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لیے وہی چیز ثابت کی جائے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ثابت کی ہے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق نشاندہی کی ہے۔
اس میں کوئی تحریف وتاویل نہ کی جائے اور نہ مخلوق کے مماثل ہی قرار دیا جائے۔
اس عقیدے کے مطابق اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے عرش پر بلند ہے، آسمانوں کے اوپر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔
(مجموع الفتاویٰ: 229/5)

برصغیر میں بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ذات کے اعتبار سے ہر جگہ موجود ہے اور وہ وحدت الوجود کو صحیح اور برحق قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ عقیدہ سراسر باطل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔
وہ جانتا ہے جو چیز زمین میں داخل ہوتی ہے اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو چیز آسمان سے اترتی ہے اور جو اس میں اور جو اس میں چڑھتی ہے اور جہاں کہیں بھی تم ہو، وہ تمہارے ساتھ ہے۔
(الحدید 4)
اس آیت کریمہ میں دونوں مسئلے ثابت ہوئے کہ وہ اللہ ذات کے اعتبار سے اپنے عرش پر بلند ہے اور علم کے اعتبار سے ہرجگہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معیت سے مراد اس کی ہمہ گیر نگرانی ہے اوروہ روئے زمین سے متعلق نہیں بلکہ کائنات میں ہرجگہ موجود رہتی ہے۔
انسانوں کے تمام اقوال وافعال اور ان کی تمام حرکات وسکنات اس کے علم میں ہیں۔
نہ کوئی اللہ تعالیٰ سے چھپ سکتاہے اور نہ اپنے افعال واعمال ہی سے اس سے چھپا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی معیت اس کی ذات کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس کی قدرت اور اس کے علم کے لحاظ سے ہوتی ہے، چنانچہ امام ابن جریر طبری مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اے لوگو! وہ اللہ تم پر گواہ ہے، تم جہاں بھی ہو وہ تمھیں جانتا ہے۔
وہ تمہارے اعمال، تمہارا ٹھکانا اور نقل وحرکت جانتا ہے اور وہ ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔
(تفسیر طبری: 125/27)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے اللہ تعالیٰ کی معیت کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے فرمایا:
اس سے اللہ تعالیٰ کا علم مراد ہے۔
وہ عالم الغیب ہے، ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
وہ شاہد ہے، علامہ الغیوب ہے۔
وہ غیب جانتا ہے اور ہمارا رب تکییف کے بغیرعرش پر ہے لیکن ہم اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتے۔
(شرح حدیث النزول:
ص: 74)

بہرحال اس بات پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔
(سیر أعلام النبلاء: 650/17)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7433