زہیر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ابوزبیر نے ہمیں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین بٹائی پر دیتے اور (باقی ساری پیداوار میں سے حصے کے علاوہ) گاہے جانے کے بعد خوشوں میں بچ جانے والی گندم اور اس طرح کی چیزیں (پانی کی گزرگاہوں کے ارد گرد ہونے والی پیداوار) وصول کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے پاس زمین ہو وہ اسے خود کاشت کرے یا اپنے کسی بھائی کو کاشت کاری کے لیے (عاریتا) دے دے ورنہ اسے (خالی) پڑا دہنے دے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، نالوں کے کنارے والی زمین کی پیداوار اور تہائی یا چوتھائی حصہ پر زمین لیتے تھے۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہے وہ خود کاشت کرے، اور اگر کاشت نہ کر سکے تو اپنے بھائی کو عارضی طور پر دے دے۔ اور اگر اپنے بھائی کو نہ دے سکے، تو اپنے پاس روکے رکھے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3925
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: زمین کا مالک اپنے لیے زمین کا وہ ٹکڑا رکھ لیتا جو کھال کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے زیادہ زرخیز ہوتا اور زیادہ پیداوار دیتا اور کاشت کار کو زمین کا وہ ٹکڑا دیتا جو پانی سے دور ہوتا اور کم پیداوار دیتا اور اس کے ساتھ بسا اوقات کاشت کار کے حصہ کی زمین کا بھی، تہائی یا چوتھائی لیتا جب کھال پر زمین کم ہوتی، اور ظاہر ہے اس میں غرر بھی ہے کہ کاشت کار کی زمین کا بھی، تہائی یا چوتھائی لیتا جب کھال پر زمین کم ہوتی، اور ظاہر ہے اس میں غرر بھی ہے کہ کاشت کار کی زمین تک پانی پہنچ ہی نہ سکے یا مالک والا حصہ غرقاب ہو جائے، ماذیانات، ماذیان کی جمع ہے۔ کھال کو کہتے ہیں جس میں پانی خوب بہتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3925
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3906
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی کوئی زمین ہو تو وہ خود اس میں کھیتی کرے یا اسے اپنے بھائی کو دیدے اور اسے بٹائی پر نہ دے۔“ عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی نے عبدالملک بن ابی سلیمان کی متابعت کی ہے (یہ متابعت آگے آ رہی ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3906]
اردو حاشہ: ”وقتی عطیہ“ یعنی ایک دو سال کے لیے اسے دے دے تاکہ وہ پیداوار حاصل کرلے۔ زمین اصل مالک ہی کی رہے گی۔ مقررہ مدت گزرنے پر مالک اسے واپس لے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3906
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2451
´تہائی یا چوتھائی پیداوار پر کھیت کو بٹائی پر دینے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کے پاس زائد زمینیں تھیں، جنہیں وہ تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی پر دیا کرتے تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زائد زمینیں ہوں تو ان میں وہ یا تو خود کھیتی کرے یا اپنے بھائی کو کھیتی کے لیے دیدے، اگر یہ دونوں نہ کرے تو اپنی زمین اپنے پاس ہی روکے رہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2451]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: اپنے پاس رکھے اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین خالی پڑی رہنے دے۔ اور ظاہر ہے کہ خالی پڑی رہنے کی صورت میں زمین سےکچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ توکیا یہ بہتر نہیں کہ کسی کوفائدہ اٹھانے دے۔ یہ سخاوت اورافضل عمل کی ترغیب ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2451
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3917
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہے وہ خود کاشت کرے یا (فالتو ہونے کی صورت میں) گر وہ خود کاشت نہ کر سکے (تو اپنے بھائی کو مسخ کے طور پر دے دے) تاکہ اس کا بھائی کاشت کر لے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3917]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے زمین کا بے آباد پڑے رہنا، کہ اس میں کھیتی باڑی نہ کی جائے یا کسی اور مصرف میں اسے نہ لایا جائے درست نہیں ہے، زمین سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایسے ویسے ہی نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس انسان کے پاس فالتو زمین ہے اور وہ اسے کاشت نہیں کر سکتا، تو وہ اسے اپنے کسی بھائی کو منیحۃ دے دے، عربی زبان میں منیحۃ اصل میں اس دودھ دینے والی بکری یا اونٹنی کو کہتے ہیں جو کسی بھائی کو دودھ پینے کے لیے دے دی جائے، اور جب دودھ بند ہو جائے تو وہ مالک کو واپس کر دے۔ (معجم مقاییس اللغة، ج: 5، ص: 278، تاج العروس، ج: 2، ص: 223) اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”المنحة مردودة“ دودھ دینے والا جانور واپس کیا جائے گا۔ ایک جلیل القدر مفسر، محدث، فقیہ اور لغوی امام ابو عبید القاسم بن سلام، اس حدیث کا یہ معنی کرتے ہیں: يدفعها الی اخيه حتی يزرعها فاذا رفع زعرهها ردها الی صاحبها: کہ فالتو زمین اپنے بھائی کو کاشت کے لیے دے دے، جب وہ اس سے پیداوار اٹھا لے، تو زمین مالک کو واپس کر دے۔ (لسان العرب، ج: 3، ص: 446) اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان شخصی طور پر اپنی زمین کا مالک ہے، اس لیے آپﷺ نے فرمایا: ”اگر زمین اس کی ضرورت سے زائد ہے اور وہ خود کاشت بھی نہیں کر سکتا ہے“ اس طرح آپﷺ نے اس کو زمین کا مالک قرار دیا ہے۔ اس کے بعد فرمایا، ”اگر وہ کاشت نہیں کر سکتا تو کسی بھائی کو عارضی طور پر پیداوار حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، تو پھر اپنے پاس ہی رکھے۔ “ تو ہر صورت میں مالک وہی ہے، لیکن تیسری صورت میں جبکہ اس نے زمین کاشت نہیں کرنی ویسے ہی رکھنی ہے تو اس کو کیا فائدہ ہو گا۔ اگر عارضی طور پر مسلمان بھائی کو دے دیتا، تو وہ اس سے فائدہ اٹھاتا، وہ اور اس کے بال بچے اس کو دعائیں دیتے اور آخرت میں بے شمار اجر و ثواب حاصل ہوتا، اس لیے بڑے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں کو چاہیے کہ وہ ضرورت سے زائد فالتو زمینوں سے ضرورت مند اور محتاج کسانوں کو عارضی طور پر فائدہ اٹھانے کا موقع دیں۔ اگرچہ زمین اپنی ہی ملکیت میں رکھیں یا کم از کم ان کو مراعات اور سہولتیں ہی فراہم کریں جس سے وہ بھی آسودہ اور خوشحال ہو سکیں، اور ان کے دلوں میں ان کے خلاف بغض و نفرت کے جذبات پیدا نہ ہوں اور نہ ہی کوئی خود غرض لیڈر انہیں استعمال کر سکے اور زمینیں چھیننے کا خطرہ بھی نہ رہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3917
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3924
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، زمین بٹائی پر دیتے تھے، اور ان سے قصارۃ اور فلاں زمین کا حصہ لیتے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہو وہ خود کاشت کرے یا اس کا بھائی اس کو کاشت کرے، وگرنہ اس کو پڑی رہنے دے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:3924]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قصری سے مراد یہ ہے کہ گندم گاہنے کے بعد، خوشوں، بالیوں میں جو دانے رہ جاتے ہیں۔ جن کو قصارہ کہتے ہیں وہ مالک کے زمین کے ہوں گے اور من کذا سے مراد یہ ہے، جداول یا نالیوں پر جو زمین ہے اس کی پیداوار بھی ہم لیں گے، اور یہ طریقہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں غرر ہے، اور مزارع کا نقصان ہے جس کو اگلی حدیث میں ماذیانات سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3924
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2632
2632. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم میں سے کچھ لوگوں کے پاس فالتو زمینیں تھیں تو وہ آپس میں یوں گفتگو کرتے تھے کہ ہم ان زمینوں کو تہائی، چوتھائی یا نصف پیداوار پر کاشت کے لیے دیں گے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہے وہ خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو بطور عطیہ مستعار دے دے۔ اگر اسے یہ منظور نہیں تو اپنی زمین اپنے ساتھ باندھ رکھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2632]
حدیث حاشیہ: (1) دراصل جب مہاجرین کی مدینہ طیبہ آمد ہوئی تو زمینوں کی قدروقیمت میں اضافہ ہو گیا۔ جو زمینیں آباد تھیں ان کے متعلق بٹائی کا طریقہ اختیار کیا گیا تاکہ مہاجرین دوسروں پر بوجھ نہ بنیں اور محنت کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں، اس کے علاوہ کچھ زمینیں غیر آباد تھیں جنہیں فالتو زمینیں کہا گیا ہے۔ زمیندار پانی کی قلت یا کسی اور وجہ سے انہیں آباد نہیں کر پاتا۔ یہ زمینیں قابل زراعت تو ہوتی ہیں، ایسی زمینوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مشورہ دیا کہ زمینوں کو مالک خود آباد کرے یا آنے والوں کو بطور منیحہ (عطیہ) دے تاکہ وہ انہیں آباد کریں۔ منیحہ میں وہ چیز اصل مالک کو واپس کرنا ہوتی ہے۔ یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسی زمینیں مناسب موقع پر واپس کر دی جائیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے منیحہ کے درخت غزوۂ خیبر کے بعد واپس کر دیے تھے۔ (2) ان احادیث کے پیش نظر اشتراکیت کے حق میں یہ فتویٰ دینا محل نظر ہے کہ زمینداری نظام حرام ہے یا غیر حاضر مالک زمین کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو شوق دلایا کہ وہ اپنی فالتو زمینیں آباد کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کریں ورنہ زمینیں اپنی کمر کے ساتھ باندھ لیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2632