علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری ایک کلائی ٹوٹ گئی، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا؟، تو آپ نے مجھے پٹیوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 657]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10077، ومصباح الزجاجة: 247) (ضعیف جدا)» (سند میں عمرو بن خالد کذاب ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده موضوع عمرو بن خالد الواسطي: متروك،رماه وكيع بالكذب انوار الصحيفه، صفحه نمبر 402
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 115
´زخمی کا تیمم کرنا` «. . . وعن علي رضي الله عنه قال: انكسرت إحدى زندي، فسالت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فامرني ان امسح على الجبائر . . .» ”. . . سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا گٹ ٹوٹ گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے بارے میں پوچھا (کہ اب میں کیا کروں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”پٹیوں پر مسح کر لیا کرو . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 115]
� لغوی تشریح: «زَنْدَيَّ»”زا“ پر فتحہ، ”نون“ ساکن اور ”یا“ پر تشدید ہے۔ ”زند“ کا تثنیہ ہے اور یائے متکلم کی طرف مضاف ہے۔ اور ”زند“ سے مراد ہتھیلی کی جانب بازو کا جوڑ ہے جسے «رُسْغٌ»، یعنی گٹا (کلائی) کہتے ہیں۔ «اَلْجَبَائِر» «جَبِيرَة» کی جمع ہے۔ کپڑے یا لکڑی کا ٹکڑا جسے ٹوٹی ہوئی ہڈی پر مضبوطی سے لپیٹ کر باندھا جاتا ہے۔ «وَاهٍ» «وَهٰي يَهِي وَهِيًا» اور «وُهِيًّا» سے ماخوذ ہے۔
فوائد و مسائل:
نہایت کمزور اور ضعیف۔ اس حدیث کے ضعیف ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی عمرو بن خالد واسطی ہے۔ وہ نہایت جھوٹا اور دروغ گو آدمی تھا۔ امام نووی رحمہ اللہ کے بقول اس حدیث کے ضعیف ہونے پر حفاظ حدیث کا اتفاق ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 115