ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم بن بشیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها»”اور آپ نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھئے اور نہ (بالکل) چپکے ہی چپکے“ کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں (کافروں کے ڈر سے) چھپے رہتے تو اس زمانہ میں جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو قرآن مجید کی تلاوت بلند آواز سے کرتے، مشرکین سنتے تو قرآن کو بھی گالی دیتے اور اس کے نازل کرنے والے اور اس کے لانے والے کو بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا کہ آپ نماز نہ تو بہت پکار کر پڑھیں (یعنی قرآت خوب جہر کے ساتھ نہ کریں) کہ مشرکین سن کر گالیاں دیں اور نہ بالکل چپکے ہی چپکے کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں، بلکہ درمیانی آواز میں پڑھا کریں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4722]
إذا صلى بأصحابه رفع صوته بالقرآن فإذا سمعه المشركون سبوا القرآن ومن أنزله ومن جاء به قال الله لنبيه ولا تجهر بصلاتك أي بقراءتك فيسمع المشركون فيسبوا القرآن ولا تخافت بها عن أصحابك فلا تسمعهم وابتغ بين ذلك سبيلا
إذا صلى بأصحابه رفع صوته بالقرآن وكان المشركون إذا سمعوا صوته سبوا القرآن ومن أنزله ومن جاء به فقال الله لنبيه ولا تجهر بصلاتك أي بقراءتك فيسمع المشركون فيسبوا القرآن ولا تخافت بها عن أصحابك فلا يسمعوا وابتغ بين ذلك سبيلا