حدیث حاشیہ: 1۔
کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال قریش مکہ نے یہود مدینہ کے کہنے پر کیا تھا۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3140) مگر صحیح بخاری کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال یہود مدینہ ہی نے کیا تھا جیساکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں
(خَرِبِ المَدينَةِ) ”مدینہ کے کھنڈرات
“ کی تصریح ہے۔
(صحیح البخاری، العلم، حدیث: 125) ممكن ہے کہ ان آیات کا نزول مکرر ہو۔
ایک روایت میں صراحت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہودی کہنے لگے:
ہمیں بہت علم دیا گیا ہے۔
ہمیں تورات دی گئی ہے اور جسے تورات مل گئی تو اسے بہت بھلائی مل گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
”آپ ان سے کہہ دیں:
اگرمیرے پروردگار کی باتیں لکھنے کےلیے سمندر سیاہ بن جائے تو سمندر ختم ہوجائے گا مگرمیرے پروردگار کی باتیں ختم نہیں ہوں گی، خواہ اتنی ہی اور بھی سیاہی لائی جائے۔
“ (الکھف: 109/18 و جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3140) 2۔
جس روح کے متعلق یہود نے سوال کیا تھا اس سے کون سی روح مراد ہے۔
اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں:
۔
روح انسان۔
۔
روح حیوان
۔
جبریل علیہ السلام۔
۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
۔
قرآن۔
۔
فرشتہ۔
۔
وحی الٰہی۔
۔
خاص مخلوق، پھر انھوں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد روح انسان ہے۔
(فتح الباري: 511/8) 3۔
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
روح انسانی ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق سب جانتے اور اسے تسلیم کرتے ہیں۔
اس کا تذکرہ قرآن نے جہاں بھی کیا ہے وہاں اس کے لیے لفظ "نفس" استعمال کیاہے، لفظ "روح" استعمال نہیں کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس روح کے متعلق یہود مدینہ نے سوال کیا تھا اس سے مراد وہ روح ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے:
﴿يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَـئِكَةُ صَفَّاً﴾ ”یعنی حضرت جبریل علیہ السلام روح انسانی مراد نہیں۔
“ (النباء: 38، وکتاب الروح، ص: 243) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تحقیق کومرجوح قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہود کا سوال روح انسانی کے متعلق تھا۔
(فتح الباري: 513/8)