حدیث حاشیہ: 1۔
ظاہری طور پر ان دو احادیث میں تعارض ہے کیونکہ پہلی حدیث میں ہے کہ یہ آیت نماز میں قراءت کے متعلق نازل ہوئی جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ یہ آیت دعاکے متعلق اتری۔
ان میں تطبیق حسب ذیل انداز سے دی گئی ہے۔
۔
ہر راوی نے اپنے علم کے مطابق اس کی شان نزول بیان کی ہے، لہذا ان میں کوئی تعارض نہیں۔
۔
ممکن ہے کہ اس آیت کا نزول دومرتبہ ہوا ہو:
ایک دفعہ نماز کے متعلق اور دوسری مرتبہ دعا کے بارے میں۔
۔
یہ آیت بنیادی طور پر نماز کے متعلق ہے اور جس روایت میں اس کی شان نزول دعا بیان ہوئی ہے اس میں جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے کیونکہ دعاء نماز کا جز ہے۔
ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے ہوا تو دیکھا کہ وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھرحضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ بآواز بلند قرآن پڑھ رہے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:
جس سے میں مصروف مناجات تھا وہ میری آواز سن رہا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:
میرامقصد سوئے ہوؤں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
”اپنی آواز قدرے بلند کرو۔
“ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا:
”اپنی آواز کچھ پست کرو۔
“ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1329) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس دعا کے متعلق نازل ہوئی جو دوران نماز میں کی جاتی ہے تاکہ دونوں احادیث میں تطبیق ہوجائے۔
(فتح الباري: 515/8)