290/377 (صحيح الإسناد) عن أبي هريرة، قال: أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجلٌ ومعه صبي، فجعل يضمه إليه. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" أترحمه؟" قال: نعم. قال:"فالله أرحم بك، منك به، وهو أرحم الراحمين".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا۔ وہ اپنے بچے کو گلے لگاتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم کو اس پر رحم آتا ہے؟“ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: ”جتنا تم اس پر رحم کرتے ہو اللہ کو اس سے بھی زیادہ تم پر رحم آتا ہے، اور وہ رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کررحم کرنے والا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 290]
158. باب رحمة البهائم
حدیث نمبر: 291
291/378 (صحيح) هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" بينما رجلٌ يمشي بطريق اشتد به العطش، فوجد بئراً فنزل فيها، فشرب ثم خرج، فإذا كلب يلهث؛ يأكل الثرى من العطش، فقال الرجل: لقد بلغ هذا الكلب من العطش مثل الذي كان بلغني، فنزل البئر فملأ خُفّاه، ثم أمسكها بفيه، فسقى الكلب، فشكر الله له، فغفر له". قالوا: يا رسول الله! وإن لنا في البهائم أجراً؟ قال:" في كل ذاتِ كبدٍ رطبة أجر".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص کو راہ چلتے چلتے شدید پیاس لگی۔ اسے ایک کنواں ملا۔ وہ کنویں میں اتر پڑا اس نے پانی پی لیا۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا ہانپ رہا تھا اور زبان باہر نکالے ہوئے تھا، پیاس کے مارے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے کہا کہ اس کتے کو بھی ویسی ہی پیاس لگی ہے جیسی مجھے لگی تھی۔ اس کے بعد وہ پھر کنویں میں اترا۔ اپنے موزوں میں پانی بھرا اور اس کو منہ میں پکڑ کر اوپر لایا اور کتے کو پلا دیا۔ اللہ نے اس کے اس عمل کی قدر فرمائی اور اس کی مغفرت فرما دی۔“ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہمیں جانوروں (کے ساتھ بھلائی) کا بھی اجر ملتا ہے۔ فرمایا: ”ہر زندہ چیز (کے ساتھ بھلائی) کا اجر ملتا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 291]
حدیث نمبر: 292
292/379 (صحيح) عن عبد الله بن عمر؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" عُذبت امرأة في هرة، حسبتها حتى ماتت جوعاً، فدخلت فيها النار، يقال- والله أعلم-: لا أنت أطعمتيها، ولا سقيتيها حين حبستيها، ولا أنت أرسلتيها فأكلت من خشاش الأرض".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عورت کو بلی کے سلسلے میں عذاب کیا گیا جس نے اسے باندھ دیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوکی پیاسی مر گئی۔ وہ اس بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہو گئی اس سے کہا جائے گا: (اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے) کہ جب تو نے اسے باندھ کر رکھا تھا تو نہ اسے کھلایا اور نہ اسے پلایا، اور نہ ہی اسے آزاد چھوڑ دیا کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 292]
حدیث نمبر: 293
293/380 (صحيح) عن عبد الله بن عمرو بن العاص، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"ارحموا تُرحموا، واغفروا يغفر الله لكم، ويلٌ لأقماع القولِ(3) ويل للمصرّين؛ الذين يُصرّون على ما فعلوا وهم يعلمون".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رحم کرو، تم پر رحم کیا جائے گا۔ درگزر کیا کرو، اللہ تم سے درگزر کرے گا۔ ان لوگوں کے لیے بربادی ہے جو بات سن کر نظر انداز کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے بربادی ہے جو گناہوں پر جم جاتے ہیں وہ جو اپنے کیے ہوئے گناہوں پر اڑ جاتے ہیں حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ یہ ناجائز ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 293]
حدیث نمبر: 294
294/381 (حسن) عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من رحم ولو ذبيحة، رحمه الله يوم القيامة".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی پر رحم کیا چاہے ذبح کیے جانے والے جانور ہی پر ہو، اللہ اس پر قیامت کے دن رحم فرمائے گا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 294]
159. باب أخذ البيض من الحمرة
حدیث نمبر: 295
295/382 (صحيح) عن عبد الله [ وهو ابن مسعود]: أن النبي صلى الله عليه وسلم نزل منزلاً فأخذ رجل بيض حمّرة، فجاءت ترف على رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم: فقال:"أيكم فجع هذه ببيضتها؟". فقال رجل: يا رسول الله! أنا أخذت بيضتها. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"اردُد، رحمةً لها".
سیدنا عبداللہ (ابن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مقام پر اترے تو کسی شخص نے جنگلی چڑیا کے انڈے اٹھا لیے۔ وہ چڑیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر آ کر پھڑپھڑانے لگی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کس نے اس کے انڈے اٹھا کر اس کو دکھ پہنچایا ہے؟“ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ”میں نے اس کے انڈے لیے ہیں۔“ فرمایا: ”اس پر رحم کر کے انڈے وہیں رکھ دو۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 295]
160. باب الطير فى القفص
حدیث نمبر: 296
296/1/383 (حسن الإسناد) عن هشام بن عروة، قال:" كان ابنُ الزبير بمكة وأصحاب النبي صلى الله عليه وسلم يحملون الطير في الأقفاص".
ہشام بن عروہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ابن زبیر جب مکہ میں تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پنجروں میں پرندے اٹھا کر لے جاتے تھے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 296]
حدیث نمبر: 296M
296/2/384 (صحيح) عن أنس قال: دخل النبي صلى الله عليه وسلم فرأى ابناً لأبي طلحة- يقال له: أبو عمير-، وكان له نغير يلعب به. فقال:" يا أبا عمير! ما فعل – أو أين النغير؟".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ کا ایک بچہ دیکھا جسے ابوعمیر کہا جاتا تھا۔ اس کے پاس ایک بلبل تھا جس سے وہ کھیلتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوعمیر! بلبل کا کیا ہوا؟“ یا فرمایا: ”بلبل کہاں ہے؟“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 296M]
161. باب ينمي خيرا بين الناس
حدیث نمبر: 297
297/385 (صحيح) عن حميد بن عبد الرحمن، أن أمّه- أم كلثوم ابنة عقبة بن أبي معيط- أخبرته أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ليس الكذاب الذي يصلح بين الناس، فيقول خيراً، أو ينمي خيراً". قالت: ولم أسمعه يرخص في شيء مما يقول الناس من الكذب إلا في ثلاث: الإصلاح بين الناس، وحديث الرجل مع امرأته، وحديث المرأة زوجها.
حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ان کی والدہ ام کلثوم جو عقبہ بن ابی معیط کی بیٹی ہیں بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: وہ شخص کذاب نہیں ہے جو لوگوں میں صلح کرائے، تو (صلح کے لیے) وہ اچھی بات کرے یا اچھی بات پہنچائے، کہتی ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مواقع کے علاوہ لوگوں کو جھوٹ بولنے کی رخصت دیتے ہوئے نہیں سنا: ”لوگوں میں صلح کرانے کے لیے، آدمی کا اپنی بیوی سے بات کرنا، اور عورت کا اپنے خاوند سے بات کرنا۔ (یعنی اگر کوئی غلط فہمی پیدا ہو جائے تو صلح کے لیے کوئی ایسی بات کی جا سکتی ہے جس کا ظاہری معنی اور باطنی معنی فرق ہو، خالص جھوٹ پھر بھی نہیں بولنا چاہیے۔)“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 297]
162. باب لا يصلح الكذب
حدیث نمبر: 298
298/386 (صحيح) عن عبد الله [هو ابن مسعود]، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"عليكم بالصدق؛ فإن الصدق يهدي إلى البر، وإن البر يهدي إلى الجنة، وإن الرجل يصدق حتى يكتب عند الله صديقاً، وإياكم والكذب؛ فإن الكذب يهدي إلى الفجور، والفجور يهدي إلى النار، وإن الرجل ليكذب حتى يُكتب عند الله كذاباً".
سیدنا عبداللہ (ابن مسعود) رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچ پر ہمیشہ قائم رہو، کیونکہ سچ بولنا نیکی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اور بیشک ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ اسے اللہ کے نزدیق صدیق لکھ دیا جاتا ہے، اور جھوٹ سے ہمیشہ بچتے رہنا، کیونکہ جھوٹ فجور (گناہوں) تک پہنچاتا ہے اور فجور جہنم تک، ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے حتیٰ کہ اسے اللہ کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 298]