398/513 عن إبراهيم بن أبي عبلة قال: مرضت امرأتي، فكنت أجيء إلى أم الدرداء. فتقول لي: كيف أهلك؟ فأقول لها: مرضى، فتدعو لي بطعام، فآكل. ثم عدت. ففعلت ذلك، فجئتها مرة، فقالت: كيف؟ قلت: قد تماثلوا(1)، فقالت:"إنما كنت أدعو لك بطعام أن كنت تخبرنا عن أهلك أنهم مرضى، فأما أن تماثلوا؛ فلا ندعوا لك بشيء".
ابراہیم بن ابی عبلہ بیان کرتے ہیں کہ میری بیوی بیمار پڑ گئی، میں (اس زمانے میں) امِ درداء کے پاس جایا کرتا تھا (جب میں جاتا) تو وہ مجھ سے کہتیں: آپ کی بیوی کا کیا حال ہے؟ میں ان سے کہتا: بیمار ہے، پھر وہ میرے لیے کھانا منگواتیں اور میں کھانا کھاتا۔ پھر میں دوبارہ گیا انہوں نے دوبارہ ایسا کیا (مجھے کھانا دیا)۔ پھر ایک بار میں ان کے پاس آیا تو وہ بولیں: آپ کی بیوی کا کیا حال ہے؟ میں نے کہا: صحت کی طرف مائل ہو رہی ہے، انہوں نے کہا: جب تم ہمیں کہتے تھے کہ تمہاری بیوی بیمار ہے تو میں تمہارے لیے کھانا منگواتی تھی لیکن جب وہ ٹھیک ہو رہی ہے تو اب ہم آپ کے لیے کچھ نہیں منگوائیں گے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 398]
تخریج الحدیث: (صحيح الإسناد)
208. باب عيادة الأعراب
حدیث نمبر: 399
399/514 عن ابن عباس؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على أعرابي يعوده. [ قال: وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل على مريض يعوده/526] قال:" لا بأس عليك، طَهور إن شاء الله]. قال: قال الأعرابي: [ ذاك طهور؟! كلا]؛ بل هي حمى تفور [ أو تثور]، على شيخ كبير، كيما تزيره القبور!(1). قال [ النبي صلى الله عليه وسلم ]:" فنعم إذاً"(2).
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے (کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ جب کسی بیمار کی بیمار پرسی کے لیے جاتے) تو یہ کہتے: «لا بأس عليك، طهور إن شاء الله»”کوئی حرج کی بات نہیں ہے، ان شاء اللہ یہ گناہوں کو پاک کرنے والی ہے“، (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے) کہا: اس اعرابی نے کہا (کیا یہ پاک کرنے والی ہے؟ ہرگز نہیں!) بلکہ یہ بخار ایک بوڑھے آدمی پر جوش کھاتا ہے تاکہ اسے قبرستان کی زیارت کروا دے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو یونہی سہی۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 399]
تخریج الحدیث: (صحيح)
209. باب عيادة المرضى
حدیث نمبر: 400
400/515 عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من أصبح اليوم منكم صائماً؟". قال أبو بكر: أنا. قال:" من عاد منكم اليوم مريضاً" قال أبو بكر: أنا. قال:"من شهد منكم اليوم جنازة". قال أبو بكر أنا. قال:" من أطعم اليوم مسكيناً؟". قال أبو بكر: أنا. قال مروان(1): بلغني أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ما اجتمع هذه الخصال في رجل في يوم، إلا دخل الجنة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج تم میں سے کس نے روزہ رکھا ہے؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج تم میں سے کس نے مریض کی عیادت کی ہے؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج تم میں سے کس نے جنازے میں شرکت کی ہے؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے، مروان نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ (اس پر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی شخص میں ایک ہی دن میں یہ سب خصلتیں جمع ہو جائیں گی تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 400]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 401
401/516 عن جابر قال: دخل النبي صلى الله عليه وسلم على أم السائب وهي تزفزف(2).فقال:"مالك؟". قالت الحمى أخزاها الله. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:"مه، لا تسبيها؛ فإنها تُذهب خطايا المؤمن، كما يُذهب الكِيرُ خبث الحديد".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سائب کے پاس آئے وہ بخار سے کپکپا رہی تھی، آپ نے پوچھا: ”تمہیں کیا ہوا؟“ اس نے کہا: بخار ہے، اللہ اس کو رسوا کرے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چپ رہو، اس کو برا نہ کہو، یہ مومن کی خطاؤں کو ایسے زائل کر دیتا ہے جیسے بھٹی کی آگ لوہے کے زنگ کو ختم کر دیتی ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 401]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 402
402/517 عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يقول الله: استطعمتك فلم تطعمني. قال: فيقول: يا ربّ! وكيف استطعمتني، ولم أطعمك وأنت رب العالمين؟ قال: أما علمت أن عبدي فلاناً استطعمك فلم تطعمه؟ أما عملت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي؟ ابن آدم! استسقيتك فلم تُسقني. فقال: يا رب! وكيف أسقيك وأنت رب العالمين؟ فيقول: [ إن عبدي فلاناً استسقاك فلم تسقه] أما علمت أنك لو كنت سقيته لوجدت ذلك عندي؟ يا ابن آدم! مرضت فلم تعدني. قال: يا رب! كيف أعودك، وأنت رب العالمين؟ قال: أما علمت أن عبدي فلاناً مرض، فلو كنت عدته لوجدت ذلك عندي؟ أو وجدتني عنده؟".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ فرماتا ہے کہ میں نے تم سے کھانا مانگا اور تم نے مجھے کھانا نہیں دیا، بندہ کہے گا، اے میرے رب! تو نے مجھ سے کیسے کھانا مانگا؟ اور میں نے نہیں دیا اور تُو تو رب العالمین ہے، اللہ فرمائے گا: تجھے خبر نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تم سے کھانا مانگا لیکن تم نے اسے نہیں دیا، کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اگر تم نے اسے کھلایا ہوتا تو اس کا ثواب میرے پاس پا لیتا۔ اے ابن آدم! میں نے تم سے پانی طلب کیا، تم نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا تو تو رب العالمین ہے۔ تو اللہ فرمائے گا: میرے فلاں بندے نے تم سے پانی مانگا اور تم نے اسے نہیں دیا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اگر تم اسے پانی پلاتے تو اس کا اجر میرے پاس پاتے۔ اے ابن آدم! میں بیمار ہوا، تم نے میری بیمار پرسی نہیں کی۔ بندہ کہے گا: اے میرے رب میں تیری بیمار پرسی کیسے کرتا جبکہ توتو رب العالمین ہے، اللہ فرمائے گا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار پڑا اگر تم نے اس کی بیمار پرسی کی ہوتی تو اس کا ثواب میرے پاس پا لیتے یا مجھے اس کے پاس پا لیتے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 402]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 403
403/518 عن أبي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" عُودوا المريض، واتبعوا الجنائز ؛ تُذكّركم الآخرة".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مریضوں کی عیادت کرو، جنازے میں شرکت کرو، یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائے گی۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 403]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 404
404/519 عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ثلاث كلهن حق على كل مسلم: عيادة المريض، وشهود الجنازة، وتشميت العاطس إذا حمد الله عز وجل".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تینوں کام ہر مسلمان پر حق ہیں، بیمار کی عیادت کرنا، جنازے میں شرکت کرنا اور چھینکنے والے کا جواب دینا اگر اس نے الحمد للہ کہا ہو۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 404]
تخریج الحدیث: (صحيح)
210. باب دعاء العائد للمريض بالشفاء
حدیث نمبر: 405
405/520 عن ثلاثة(1) من بني سعد- كلهم يحدث عن أبيه-: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على سعد يعوده بمكة ؛ فبكى. فقال:" ما يبكيك؟". قال: خشيت أن أموت بالأرض التي هاجرت منها، كما مات سعد(2). قال:"اللهم! اشفِ سعداً" (ثلاثاً). فقال: لي مال كثير، يرثني ابنتي، أفأوصي بمالي كله؟ قال:"لا". قال: فبالثلثين؟ قال:"لا". قال: فالنصف. قال:"لا"، قال: فالثلث؟ قال: الثلث، والثلث كثير، إن صدَقَتك من مالك صدقة، ونفقتك على عيالك صدقة، وما تأكل امرأتك من طعامك لك صدقة، وإنك أن تدع أهلك بخير- أو قال: بعيشٍ- خير من أن تدعهم يتكففون الناس"، وقال بيده.
سعد کے تین بیٹوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں سعد کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو سعد رضی اللہ عنہ رونے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم کیوں روتے ہو؟“ کہا: مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میں اس زمین میں نہ مر جاؤں جہاں سے میں نے ہجرت کی ہے جیسا کہ سعد (بن خولہ) انتقال کر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”اے اللہ! سعد کو شفا دے۔“ پھر سعد نے کہا: میرے پاس بہت سا مال ہے، جس کی وارث صرف میری بیٹی ہو گی، کیا میں اپنے پورے مال کی (اللہ کے راستے میں) وصیت کر جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: دو تہائی کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: نصف مال کی؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: اچھا ایک تہائی مال کی؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، ایک تہائی مال کی اور ایک تہائی بھی بہت ہے، تم نے اپنے مال میں جو صدقہ دیا وہ صدقہ ہے اور تمہارا اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔ اور جو تمہارے کھانے سے تمہاری بیوی کھا لے وہ صدقہ ہے، اور یہ کہ تم اپنے اہل و عیال کو مال و دولت یا کہا: گزران کے ساتھ چھوڑو تو وہ اس سے بہتر ہے کہ تم اسے اس حال میں چھوڑو کہ وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلائیں۔“ اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 405]
تخریج الحدیث: (صحيح)
211. باب فضل عيادة المريض
حدیث نمبر: 406
406/521 عن أبي أسماء قال:" من عاد أخاه، كان في خرفة الجنة". قلت لأبي قلابة: ما خرفة الجنة؟ قال: جناها. قلت لأبي قلابة: عن من حدثه أبو أسماء؟. قال: عن ثوبان، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.
ابواسماء سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ جس نے اپنے بھائی کی عیادت کی وہ جنت کے باغ میں ہو گا، میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: جنت کے باغ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: اس کے پھل۔ میں نے ابوقلابہ سے کہا: ابواسماء نے یہ حدیث کس سے روایت کی ہے؟ کہا: ثوبان سے اور ثوبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 406]
تخریج الحدیث: (صحيح)
212. باب الحديث للمريض والعائد
حدیث نمبر: 407
407/522 عن أبي بكر بن حزم ومحمد بن المنكدر في ناس من أهل المسجد عادوا عمر بن الحكم بن رافع الأنصاري. قالوا: يا أبا حفص! حدثنا. قال: سمعت جابر بن عبد الله قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" من عاد مريضاً خاض في الرحمة، حتى إذا قعد استقر فيها".
ابوبکر بن حزم اور محمد بن منکدر سے روایت ہے کہ وہ مسجد والوں میں سے کچھ لوگوں میں تھے انہوں نے عمر بن حکم بن رافع انصاری کی بیمار پرسی کی، انہوں نے کہا: اے ابوحفص! ہمیں کوئی حدیث سناؤ۔ انہوں نے کہا: میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: ”جس شخص نے کسی مریض کی عیادت کی وہ رحمت میں داخل ہو جاتا ہے جب وہ وہاں بیٹھ جاتا ہے وہ رحمت کے سمندر میں جگہ بنا لیتا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 407]