388/503 عن أبي هريرة، قال:" ما من مرض يصيبني، أحب إلي من الحمى ؛ لأنها تدخل في كل عضو مني، وإن الله عز وجل يعطي كل عضو قسطه من الأجر".
عطا نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی مرض بخار سے زیادہ پسند نہیں ہے، بخار میرے ہر عضو میں داخل ہو جاتا ہے اور اللہ ہر عضو کو اجر میں سے اس کا حصہ عطا کرتا ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 388]
تخریج الحدیث: (صحيح الإسناد)
حدیث نمبر: 389
389/504 عن أبي نحيلة(2): قيل له: ادع الله. قال:"اللهم أنقص من المرض، ولا تنقص من الأجر". فقيل له:"ادع، ادع. فقال:" اللهم اجعلني من المقربين؛ واجعل أمي من الحور العين".
ابونحیلہ سے مروی ہے کہ ان سے کہا گیا کہ اللہ سے دعا کیجئے تو کہا: اے اللہ! مرض کم کر دے لیکن اجر میں کمی نہ کرنا، پھر ان سے کہا گیا کہ دعا کیجئے، اور دعا کیجیے تو کہا: اے اللہ! مجھے مقربین میں سے بنا دے اور میری والدہ کو حور عین بنا دے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 389]
تخریج الحدیث: (صحيح الإسناد)
حدیث نمبر: 390
390/505 عن عطاء بن أبي رباح قال: قال لي ابن عباس: ألا أريك امرأة من أهل الجنة؟ قلت: بلى. قال: هذه المرأة السوداء أتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: إني أصرع، وإني أتكشف، فادع الله لي. قال:"إن شئت صبرت ولك الجنة، وإن شئت دعوت الله أن يعافيك" فقالت: أصبر. فقالت: إني أتكشف، فادع الله أن لا أتكشف، فدعا لها.
عطاء بن ابی رباح سے مروی ہے کہ مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ کہا: ضرور، کہا: یہ جو سیاہ عورت ہے، یہ (ایک بار) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور اس نے عرض کیا کہ مجھے دورہ پڑتا ہے اور میں برہنہ ہو جاتی ہوں تو اللہ سے میرے لیے دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم چاہو تو صبر کرو تو تمہارے لیے جنت ہے، اگر چاہو تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں صحت دے،“ اس پر اس عورت نے کہا: میں صبر کرتی ہوں، مگر میں برہنہ ہو جاتی ہوں اس کے لیے اللہ سے دعا فرما دیں کہ میں برہنہ نہ ہوا کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 390]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 391
391/506 عن عطاء:"أنه رأى أم زفر – تلك المرأة – طويلة سوداء على سلم الكعبة". وعن القاسم؛ أن عائشة أخبرته؛ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول:"ما أصاب المؤمن فما فوقها، فهو كفارة".
عطا سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک لمبی سی کالی عورت امِ زفر کو کعبہ کی سیڑھیوں پر دیکھا۔ قاسم سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مومن کو ایک کانٹا چبھتا ہے یا کوئی اس سے بڑی (چھوٹی) چیز تو وہ اس کے لیے کفارہ ہوتی ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 391]
تخریج الحدیث: (صحيح الإسناد)
حدیث نمبر: 392
392/507 عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"ما من مسلم يشاك شوكة في الدنيا يحتسبها، إلا قصّ(3) بها من خطاياه يوم القيامة".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دنیا میں کسی مسلمان کو اگر کانٹا بھی چبھتا ہے اور وہ صبر کر لیتا ہے تو قیامت کے دن اس کے بدلے میں بھی اس کی کوئی نہ کوئی خطا معاف کی جائے گی۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 392]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 393
393/508 عن جابر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:"ما من مؤمن ولا مؤمنة، ولا مسلم ولا مسلمة، يمرض مرضاً إلا قصّ(2) الله به عنه من خطاياه".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”کوئی مومن مرد یا مومن عورت اور کوئی مسلمان مرد یا مسلمان عورت جب کسی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں تو اللہ اس کے بدلے ان کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 393]
تخریج الحدیث: (صحيح)
204. باب هل يكون قول المريض "إني وجع " شكاية؟
حدیث نمبر: 394
394/509 عن هشام، عن أبيه قال: دخلت أنا وعبد الله بن الزبيرعلى أسماء- قبل قتل عبد الله بعشر ليال- وأسماء وجعة. فقال لها عبد الله: كيف تجدينك؟ قالت: وجعة. قال: إني في الموت. فقالت: لعلك تشتهي موتي، فلذلك تتمناه؟ فلا تفعل، فوالله ما أشتهي أن أموت حتى يأتي على أحد طرفيك، أو تُقتل فأحتسبك، وإما أن تظفر فتقر عيني، فإياك أن تعرض عليك خطة، فلا توافقك، فتقبلها كراهية الموت.وإنما عنى ابن الزبير ليقتل فيحزنها ذلك.
ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں اور عبداللہ بن زبیر، عبداللہ (بن زبیر) کے قتل سے دس دن پہلے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔ عبداللہ نے ان سے کہا: کیسی طبیعت ہے؟ انہوں نے کہا: مجھے تکلیف ہے، عبداللہ نے کہا: مجھے موت درپیش ہے (میری موت یقینی ہے)، اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: شاید آپ چاہتے ہیں کہ میں مر جاؤں اس لیے آپ اس کی تمنا کرتے ہیں، ایسا نہ کرو، اللہ کی قسم! میں موت نہیں چاہتی، جب تک آپ کا ایک فیصلہ نہ ہو جائے، یا آپ قتل کر دیے جائیں میں اس پر صبر کروں یا آپ فتح مند ہو جائیں اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں، خبردار کسی بھی تجویز پر جس سے آپ کو اتفاق نہ ہو موت کے ڈر سے راضی نہ ہو جانا، عبداللہ کے دل میں یہ تھا کہ وہ قتل ہو جائیں گے تو اسماء رضی اللہ عنہا (ان کی والدہ کو) صدمہ نہ اٹھانا پڑے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 394]
تخریج الحدیث: (صحيح الإسناد)
حدیث نمبر: 395
395/510 عن أبي سعيد الخدري: أنه دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو موعوك، عليه قطيفة، فوضع يده عليه، فوجد حرارتها فوق القطيفة. فقال أبو سعيد: ما أشد حماك يا رسول الله! قال:"إنا كذلك، يشتد علينا البلاء، ويضاعف لنا الأجر". فقال: يا رسول الله! أي الناس أشد بلاء؟. قال:"الأنبياء ثم الصالحون، وقد كان أحدهم يبتلى بالفقر، حتى ما يجد إلا العباءة(1) يجوبُها فيلبسها، ويبتلى بالقمل حتى يقتله، ولأحدهم كان أشد فرحاً بالبلاء، من أحدكم بالعطاء".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس وقت آپ کو شدید بخار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک چادر تھی، انہوں نے چادر کے اوپر اپنا ہاتھ رکھا تو چادر کے اوپر سے بخار کی تپش محسوس کی تو ابوسعید نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا بخار کتنا تیز ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس طرح ہم پر آزمائش بہت سخت ہوتی ہے اسی طرح ہمارے لیے اجر بھی دہرا ہوتا ہے۔“ اس پر (ابوسعید نے) کہا: یا رسول اللہ! کون لوگ سب سے زیادہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء پھر صالحین۔ اور ان میں سے ایک آدمی کو فقر سے آزمایا جاتا یہاں تک کہ اس کے پاس ایک لمبے چوغے کے سوا کچھ نہ ہوتا جس کو وہ گریبان سے کاٹ کر پہن لیتا، اور جوؤں میں مبتلا کر دیا جاتا یہاں تک کہ وہ (جوئیں) اسے مار ڈالتیں اور یہ لوگ آزمائش سے اتنے مسرور ہوتے تھے جتنا کہ تم میں سے کوئی عطیہ سے بھی نہیں ہو تا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 395]
تخریج الحدیث: (صحيح)
205. باب عيادة المغمى عليه
حدیث نمبر: 396
396/511 عن جابر بن عبد الله قال: مرضت مرضاً، فأتاني النبي صلى الله عليه وسلم يعودني، وأبو بكر - وهما ماشيان- فوجداني أغمي علي، فتوضاً النبي صلى الله عليه وسلم ثم صب ماء وضوءه علي، فأفقت فإذا النبي صلى الله عليه وسلم. فقلت: يا رسول الله! كيف أصنع في مالي؟ [كيف] أقضي في مالي؟ فلم يجبني بشيءٍ، حتى نزلت آية الميراث.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں (ایک مرتبہ) بیمار پڑا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے پیدل تشریف لائے۔ انہوں نے مجھے اس حال میں پایا کہ مجھ پر غشی طاری تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا بچا ہوا پانی مجھ پر بہایا تو مجھے ہوش آ گیا، میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں اپنے مال کے بارے میں کیا فیصلہ کروں؟ میں اپنے مال کا کیسے فیصلہ کروں، آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 396]
تخریج الحدیث: (صحيح)
206. باب عيادة الصبيان
حدیث نمبر: 397
397/512 عن أسامة بن زيد: أن صبياً لابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم - ثقل، فبعثت أمه إلى النبي صلى الله عليه وسلم: أن ولدي في الموت. فقال للرسول:"اذهب فقل لها: إن لله ما أخذ، وله ما أعطى، وكل شيء عنده إلى أجل مسمى، فلتصبر ولتحتسب". فرجع الرسول فأخبرها، فبعثت إليه تقسم عليه لما جاء، فقام النبي صلى الله عليه وسلم في نفر من أصحابه منهم: سعد بن عبادة. فأخذ النبي صلى الله عليه وسلم فوضعه بين ثندوتيه(1)، ولصدره قعقعة كقعقعة الشنة(2)، فدمعت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال سعد: أتبكي، وأنت رسول الله! فقال:" إنما أبكي رحمة لها؛ إن الله لا يرحم من عباده إلا الرّحماء".
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کا ایک بچہ بہت سخت بیمار پڑا تو اس کی ماں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا موت کی کشمکش میں ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام لانے والے سے فرمایا: ”جاؤ اور اس سے کہہ دو: «إن لله ما أخذ، وله ما أعطى، وكل شيء عنده إلى أجل مسمى، فلتصبر ولتحتسب .»”اللہ ہی کا تھا جو اس نے لے لیا اور اسی کا تھا جو اس نے عطا کیا اور اس کے ہاں ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اسے چاہیے کہ صبر کرے اور اللہ سے ثواب کی نیت کرے۔“ پیغام لانے والا واپس گیا اور اس کو آپ کا پیغام سنایا۔ اس نے آپ کی طرف دوبارہ پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دلائی کہ آپ ضرور تشریف لائیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ اٹھے جن میں سعد بن عبادہ بھی تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو پکڑ لیا اور اسے اپنی چھاتی کے درمیان رکھ لیا۔ بچے کے سینے سے ایسی آوازیں آ رہی تھیں جیسے پرانی مشک سے پانے گرنے کی آواز آتی ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ تو سعد نے کہا: کیا آپ رو رہے ہیں؟ حالانکہ آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تو صرف اس پر رحم کھا کر رو رہا ہوں، اللہ صرف اپنے رحم دل بندوں پر ہی رحم فرماتا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 397]