سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے میرے دوست ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت فرمائی: (1) ہر ماہ میں تین دن روزے رکھنے کی۔ (2) جمعہ کے دن غسل کرنے کی۔ (3) سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 245]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1178، 1981، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 721، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1222، 1223، 2123، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2536، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1676، 1677، 2368، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 478، 1390، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1432، والترمذي فى «جامعه» برقم: 455، 760، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1495، 1786، 1787، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2787، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7259، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 1769، 1824، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 498»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی مؤذن کسی بستی میں اذان کہہ دیتا ہے تو الله تعالیٰ اس بستی کو اپنے عذاب سے اس دن بچا لیتے ہیں۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 246]
تخریج الحدیث: « [إسناده ضعيف، أخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 746، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3671، والطبراني فى «الصغير» برقم: 499 قال الدارقطنی: لم يروه عن صفوان إلا عبد الرحمن بن سعد تفرد به بكر، الإعلام بسنته عليه الصلاة والسلام بشرح سنن ابن ماجه الإمام: (4 / 124)»
حكم: [إسناده ضعيف
73. نماز باجماعت میں عورتوں اور مردوں کی صف بندی کا بیان
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی، جبکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے نماز ادا کر رہیں تھیں اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھا۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 247]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1537، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2204، والضياء المقدسي فى "الأحاديث المختارة"، 278، 279، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 804، 841، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 917، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5303، 5304، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2795، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 3875، والطبراني فى «الصغير» برقم: 503 قال الشيخ الألباني: صحيح»
حكم: إسناده صحيح
74. کالا کتا، گدھا اور عورت کے گزرنے سے نماز ٹوٹنے کا بیان
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کو کالا کتا، گدھا اور عورت توڑ دیتے ہیں۔“ میں نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: دوسرے کتوں میں سیاہ کتے کی کیا خصوصیت ہے؟ انہوں نے کہا: بھتیجے! میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی جس طرح تو نے مجھ سے پوچھی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کالا کتا شیطان ہوتا ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 248]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 510، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 806، 830، 831، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2383، 2384، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 750، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 828، وأبو داود فى «سننه» برقم: 702، والترمذي فى «جامعه» برقم: 338، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1454، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 952، 3210، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3537، 3538، وأحمد فى «مسنده» برقم: 21718، والطبراني فى «الكبير» برقم: 1632، 1635، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2685، 3325، 8299، والطبراني فى «الصغير» برقم: 195، 505، 1161»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ”جس نے چاشت کی بارہ رکعتیں نماز ادا کی تو الله تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنا دیتا ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 249]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، أخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 473، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1380، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3955، والطبراني فى «الصغير» برقم: 506 قال الشيخ الألباني: ضعيف»
حكم: إسناده ضعيف
76. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے وسیلہ کا بیان
سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی کسی ضرورت کے لیے آتا جاتا تھا، مگر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف توجہ نہ کرتے اور نہ اس کی ضرورت پوری کرتے، تو وہ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو ملا اور ان سے شکایت کی، تو انہوں نے اس سے کہا کہ وضو کا برتن لاؤ اور وضو کرو، پھر مسجد جاؤ، وہاں دو رکعت نماز پڑھو، پھر یہ دعا کرو: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّيْ أَتَوَجَّهٗ بِكَ إِلَىٰ رَبِّكَ رَبِّيْ جَلَّ وَ عَزَّ فَيَقْضِيْ لِيْ حَاجَتِيْ.» اور تم اپنی ضرورت کا نام لو، اور شام کو میری طرف آنا، میں تمہارے ساتھ جاؤں گا، وہ آدمی چلا گیا اور جو کچھ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا وہ کیا، پھر وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان آیا اور اس کو لے کر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس چلا گیا، اسے چٹائی پر بٹھایا اور کہا: تیری ضرورت کیا ہے؟ اس نے اپنی ضرورت ذکر کی تو انہوں نے اسے پورا کیا، پھر اس نے اسے کہا: تو نے اپنی ضرورت اب تک مجھ سے ذکر نہیں کی، تجھے جو بھی کام ہو میرے پاس آ جایا کرو۔ پھر وہ آدمی وہاں سے نکل کر سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور اسے کہا: جزاک اللہ خیر، وہ میری ضرورت کو نہیں دیکھتے تھے اور نہ اس طرف توجہ کرتے، یہاں تک کہ تم نے ان سے کلام کیا، تو سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے اسے نہیں کہا لیکن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا کہ ایک نابینا آیا اور اس نے اپنی نظر چلی جانے کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”کیا تو صبر کر سکتا ہے؟“ اس نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے چلانے والا کوئی نہیں ہے، اور یہ چیز مجھ پر بہت مشکل ہے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کا برتن لا کر وضو کرو، پھر دو رکعت نماز پڑھ کر یہ دعا کرو۔“ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہم ابھی جدا نہیں ہوئے تھے اور ہماری بات کچھ لمبی ہوگئی تھی، یہاں تک کہ وہ آدمی آیا، اسے کوئی تکلیف بھی نہیں تھی اور جیسے کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 250]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1219، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1184، 1915، 1935، 1936، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10419، 10420، 10421، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3578، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1385، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17513، 17514، 17515، وعبد بن حميد فى "المنتخب من مسنده"، 379، والطبراني فى «الكبير» برقم: 8311،، والطبراني فى «الصغير» برقم: 508»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں قرآن کی سورة کی طرح استخارہ سکھایا کرتے تھے، کہتے: ”جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو یوں کہے: «اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِيْرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيْمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ، اَللّٰهُمَّ إِنْ كَانَ هٰذَا الْأَمْرُ خَيْرَةً لِيْ فِيْ دِيْنِيْ وَ دُنْيَايَ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ فَقَدِّرْهُ لِيْ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ ذٰلِكَ خَيْرٌ فَسَهِّلْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ وَاصْرِفْ عَنِّى الشَّرَّ حَيْثُ كَانَ، وَرَضِّنِىْ بِقَضَائِكَ.»“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 251]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه البزار فى «مسنده» برقم: 1528، 1583، 1834، 1835، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20210، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 30015، والطبراني فى «الكبير» برقم: 10012، 10052، 10421، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3723، 3724، 7332، والطبراني فى «الصغير» برقم: 524
قال الھیثمی: في إسناد الأوسط والصغير رجل ضعف في الحديث، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (2 / 280) برقم: 3673»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حبشہ جانے سے پہلے ہم نماز کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جواب دیا کرتے تھے۔ جب ہم حبشہ سے واپس آئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب نہیں دیا، تو جو میرے قریب یا دور تھا اس نے مجھے پکڑا تو میں نے کہا: کیا میرے متعلق کوئی نیا حکم آ گیا ہے؟ یا میرے اندر کوئی نئی چیز پیدا ہوگئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن مسعود! یہ بات نہیں، الله تعالیٰ اپنے کاموں میں سے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اب نئی بات یہ ہوئی ہے کہ نماز میں کلام نہ کرو۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 252]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1199، 1216، 3875، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 538، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 855، 858، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2243، 2244، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1219، 1220، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 543، 544، وأبو داود فى «سننه» برقم: 923، 924، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1019، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2944، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1290، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3633، والحميدي فى «مسنده» برقم: 94، والطبراني فى «الكبير» برقم: 9311، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 8049، والطبراني فى «الصغير» برقم: 527»
حكم: صحيح
79. فرض نماز قائم ہونے پر دوسری کسی نماز کی ممانعت کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب نماز قائم کی جائے تو سوائے اس فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 253]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 710، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1123، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2190، 2193، 2470، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 864، 865، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 939، 940، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1266، والترمذي فى «جامعه» برقم: 421، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1488، 1489، 1491، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1151، 1151 م، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4618، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8495، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2214، 2285، 6730، 8170، 8654، والطبراني فى «الصغير» برقم: 21، 529»
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرائض کے علاوہ کسی آدمی کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا میری اس مسجد میں نماز پڑھنے سے زیادہ افضل ہے۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 254]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 731، 6113، 7290، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 781، ومالك فى «الموطأ» برقم: 290، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1203، 1204، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2491، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1598، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1293، 1294، 1295، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1044، 1447، والترمذي فى «جامعه» برقم: 450، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1406، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4680، 5318، وأحمد فى «مسنده» برقم: 21983، والطبراني فى «الكبير» برقم: 4892، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 4178، والطبراني فى «الصغير» برقم: 544»