سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: حبشہ جانے سے پہلے ہم نماز کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جواب دیا کرتے تھے۔ جب ہم حبشہ سے واپس آئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب نہیں دیا، تو جو میرے قریب یا دور تھا اس نے مجھے پکڑا تو میں نے کہا: کیا میرے متعلق کوئی نیا حکم آ گیا ہے؟ یا میرے اندر کوئی نئی چیز پیدا ہوگئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن مسعود! یہ بات نہیں، الله تعالیٰ اپنے کاموں میں سے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اب نئی بات یہ ہوئی ہے کہ نماز میں کلام نہ کرو۔“[معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 252]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1199، 1216، 3875، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 538، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 855، 858، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2243، 2244، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1219، 1220، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 543، 544، وأبو داود فى «سننه» برقم: 923، 924، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1019، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2944، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1290، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3633، والحميدي فى «مسنده» برقم: 94، والطبراني فى «الكبير» برقم: 9311، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 8049، والطبراني فى «الصغير» برقم: 527»