سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی کسی ضرورت کے لیے آتا جاتا تھا، مگر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف توجہ نہ کرتے اور نہ اس کی ضرورت پوری کرتے، تو وہ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو ملا اور ان سے شکایت کی، تو انہوں نے اس سے کہا کہ وضو کا برتن لاؤ اور وضو کرو، پھر مسجد جاؤ، وہاں دو رکعت نماز پڑھو، پھر یہ دعا کرو: «اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّيْ أَتَوَجَّهٗ بِكَ إِلَىٰ رَبِّكَ رَبِّيْ جَلَّ وَ عَزَّ فَيَقْضِيْ لِيْ حَاجَتِيْ.» اور تم اپنی ضرورت کا نام لو، اور شام کو میری طرف آنا، میں تمہارے ساتھ جاؤں گا، وہ آدمی چلا گیا اور جو کچھ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا وہ کیا، پھر وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان آیا اور اس کو لے کر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس چلا گیا، اسے چٹائی پر بٹھایا اور کہا: تیری ضرورت کیا ہے؟ اس نے اپنی ضرورت ذکر کی تو انہوں نے اسے پورا کیا، پھر اس نے اسے کہا: تو نے اپنی ضرورت اب تک مجھ سے ذکر نہیں کی، تجھے جو بھی کام ہو میرے پاس آ جایا کرو۔ پھر وہ آدمی وہاں سے نکل کر سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور اسے کہا: جزاک اللہ خیر، وہ میری ضرورت کو نہیں دیکھتے تھے اور نہ اس طرف توجہ کرتے، یہاں تک کہ تم نے ان سے کلام کیا، تو سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے اسے نہیں کہا لیکن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا کہ ایک نابینا آیا اور اس نے اپنی نظر چلی جانے کی شکایت کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: ”کیا تو صبر کر سکتا ہے؟“ اس نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے چلانے والا کوئی نہیں ہے، اور یہ چیز مجھ پر بہت مشکل ہے، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وضو کا برتن لا کر وضو کرو، پھر دو رکعت نماز پڑھ کر یہ دعا کرو۔“ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہم ابھی جدا نہیں ہوئے تھے اور ہماری بات کچھ لمبی ہوگئی تھی، یہاں تک کہ وہ آدمی آیا، اسے کوئی تکلیف بھی نہیں تھی اور جیسے کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ [معجم صغير للطبراني/كِتَابُ الصَّلوٰةِ/حدیث: 250]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1219، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1184، 1915، 1935، 1936، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10419، 10420، 10421، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3578، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1385، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17513، 17514، 17515، وعبد بن حميد فى "المنتخب من مسنده"، 379، والطبراني فى «الكبير» برقم: 8311،، والطبراني فى «الصغير» برقم: 508»
أن رجلا كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضى الله عنه ، فى حاجة له ، فكان عثمان لا يلتفت إليه ولا ينظر فى حاجته ، فلقي عثمان بن حنيف ، فشكا ذلك إليه ، فقال له عثمان بن حنيف ائت الميضأة فتوضأ ، ثم ائت المسجد فصل فيه ركعتين ، ثم قل : اللهم ، إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى الله عليه وسلم نبي الرحمة ، يا محمد إني أتوجه بك إلى ربك عز وجل فيقضي لي حاجتي ، وتذكر حاجتك ، ورح إلى حتى أروح معك ، فانطلق الرجل ، فصنع ما قال له عثمان ، ثم أتى باب عثمان ، فجاء البواب حتى أخذ بيده ، فأدخله على عثمان بن عفان ، فأجلسه معه على الطنفسة ، وقال : حاجتك ؟ فذكر حاجته فقضاها له ، ثم قال له : ما ذكرت حاجتك حتى كانت هذه الساعة ، وقال : ما كانت لك من حاجة فأتنا ، ثم إن الرجل خرج من عنده ، فلقي عثمان بن حنيف ، فقال له : جزاك الله خيرا ، ما كان ينظر فى حاجتي ، ولا يلتفت إلى حتى كلمته فى ، فقال عثمان بن حنيف : والله ، ما كلمته ولكن شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم وأتاه ضرير ، فشكا عليه ذهاب بصره ، فقال له النبى صلى الله عليه وآله وسلم : أفتصبر ؟ ، فقال : يا رسول الله ، إنه ليس لي قائد ، وقد شق على ، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم : ائت الميضأة ، فتوضأ ، ثم صل ركعتين ، ثم ادع بهذه الدعوات ، قال عثمان : فوالله ما تفرقنا وطال بنا الحديث ، حتى دخل علينا الرجل كأنه لم يكن به ضرر قط