سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب لوگوں کے پاس افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے تھے «أَفْطَرَ عِنْدَكُمْ ...... عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ» یعنی تمہارے پاس روزے دار افطار کریں، نیک لوگ تمہارا کھانا کھائیں، اور (رحمت کے) فرشتے تمہارے پاس آئیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1810]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1813] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3854] ، [أبويعلی 4319، 4320] ، [أحمد 118/3، 138]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذوالحجہ کے دس دن کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں اتنی فضیلت نہیں“، پوچھا گیا: کیا جہاد کی بھی اتنی فضیلت نہیں؟ فرمایا: ”ہاں، جہاد بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنی جان و مال خطرے میں ڈال کر نکلا، اور کچھ بھی لے کر واپس نہ آیا۔“(یعنی جان و مال سب قربان کر دیا)۔ [سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1811]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1814] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 969] ، [أبوداؤد 2438] ، [ترمذي 757] ، [ابن ماجه 1727] ، [طيالسي 2631] ، [أحمد 224/6] ، [طبراني فى الكبير 12278] ، [أبويعلی 7248] ، [ابن حبان 5623] ، [مجمع الزوائد 6007]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله عزوجل کے نزدیک کوئی نیک عمل اتنا عظیم تر نہیں جتنا عمل بندہ عشرہ اضحیٰ میں کرتا ہے“، عرض کیا گیا: الله عزوجل کے راستے میں جہاد بھی نہیں؟ فرمایا: ”ہاں، اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنا نفس اور مال لے کر (جہاد کے لئے) نکلا اور ان میں سے کچھ بھی ساتھ لے کر واپس نہ آیا۔“ راوی نے کہا: اس لئے سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ ذوالحجہ کے شروع عشرے میں عبادت میں اپنی طاقت سے زیادہ محنت کرتے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1812]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1815] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الطحاوي فى مشكل الآثار 113/4] و [البيهقي فى شعب الايمان 3752] ، نیز سابقہ تخریج۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1813]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1816] » یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1899] ، [مسلم 1079] ، [ابن حبان 3434] ، [ترمذي 682] ، [نسائي 2101، 2102] ، [ابن ماجه 1644]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھی ایمان اور ثواب کی نیت سے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے، اور جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان اور نیت اجر و ثواب کے ساتھ نماز کے لئے کھڑا ہو اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔“[سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1814]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1817] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1901] ، [مسلم 759] ، [ترمذي 683] ، [نسائي 2204] ، [ابن ماجه 1641] ، [أبويعلی 960، 5920، 5997] ، [ابن حبان 3432، 3632] ، [الحميدي 980، 1037] ، بخاری میں «من صام» اور مسلم میں «من قام رمضان» ہے۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے مہینے کے روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے مہینے کسی رات میں تراویح نہیں پڑھی یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں (یعنی تئیسویں رات کو) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا یعنی تراویح پڑھی یہاں تک کہ رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا، پھر جب چھ راتیں باقی تھیں (یعنی چوبیسویں رات کو) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں کیا، جب پانچویں رات باقی تھی (یعنی پچیسویں شب) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام کیا (تراویح پڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم رات کے بقیہ حصہ میں بھی نماز پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی امام کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے یہاں تک کہ وہ اپنی نماز سے فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے“، پھر جب چار راتیں باقی رہ گئیں (چھبیسویں رات) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں فرمایا، اس کے بعد جب تین راتیں باقی رہ گئیں، یعنی ستائیسویں شب، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال (گھر والوں) کو جمع کیا اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا یہاں تک ہم کو ڈر ہوا کہ فلاح فوت ہو جائے گی، ہم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: فلاح سے کیا مراد ہے؟ جواب دیا: سحری کا کھانا، پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیہ دنوں میں قیام نہیں کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1815]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1818] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1375] ، [ترمذي 806] ، [ نسائي 1364] ، [ابن ماجه 1327] ، [عبدالرزاق 7706] ، [ابن ابي شيبه 394/2] ، [أحمد 159/5] ، [طحاوي فى شرح معاني الآثار 349/1] ، [ابن خزيمه 2206] ، [بغوي فى شرح السنة 991، وغيرهم]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1817]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش وأبو حصين هو: أبو عثمان بن عاصم، [مكتبه الشامله نمبر: 1820] » اس روایت کی سند حسن ہے لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2044] ، [أبوداؤد 2466] ، [ابن ماجه 1769] ، [أحمد 336/2، وغيرهم]
ام المومنین سیدہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مسجد میں آئیں جب کہ آپ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے، تھوڑی دیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کیں اور کھڑی ہو گئیں۔ (یعنی واپسی کے لئے)۔ [سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1818]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1821] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے، اور تفصیل سے صحیحین میں مذکور ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2035] ، [مسلم 2175] ، [أبوداؤد 2470] ، [ابن ماجه 1779] ، [أبويعلی 1721] ، [ابن حبان 3671]
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لئے باہر تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے پاس آ رہا تھا شب قدر کی تم کو خبر دینا چاہتا تھا کہ فلاں اور فلاں کے درمیان جھگڑا ہو گیا (سو میں بھول گیا وہ کونسی رات ہے) پس وہ بات اٹھا لی گئی اور شاید اس میں بہتری ہی ہے، پس اب تم اس کی تلاش آخری عشرے کی پانچویں ساتویں یا نویں رات کو کرو۔“[سنن دارمي/من كتاب الصوم/حدیث: 1819]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1822] » اس روایت کی سند صحیح اور حدیث بھی صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2023] ، [ابن حبان 3679] ، [ابن ابي شيبه 514/2] ، [التمهيد 200/2]