ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی وفات کے وقت) دینار، درہم، بکری اور اونٹ نہیں چھوڑے اور نہ ہی کسی چیز کی وصیت کی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2695]
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی ۱؎۔ مالک کہتے ہیں: طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: بھلا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے تو تابع دار اونٹنی کی طرح اپنی ناک میں (اطاعت کی) نکیل ڈال لیتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2696]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب جب آپ کا سانس اٹک رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام وصیت یہ تھی: ”لوگو! نماز اور غلام و لونڈی کا خیال رکھنا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2697]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 1229، ومصباح الزجاجة: 954)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/117) (صحیح)»
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات یہ تھی: ”نماز کا اور اپنے غلام و لونڈی کا خیال رکھنا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2698]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الأدب 133 (5156)، (تحفة الأ شراف: 10343)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/78) (صحیح)»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو، اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2699]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محروم وہ ہے جو وصیت کرنے سے محروم رہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2700]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص وصیت کر کے مرا، وہ راہ (راہ راست) پر اور سنت کے مطابق مرا، نیز پرہیزگاری اور شہادت پر اس کا خاتمہ ہوا، اس کی مغفرت ہو گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2701]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 3000، ومصباح الزجاجة: 956) (ضعیف)» (بقیہ مدلس ہیں، اور حدیث عنعنہ سے روایت کی ہے)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی اس کے پاس نہ ہو، جب کہ اس کے پاس وصیت کرنے کے لائق کوئی چیز ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2702]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے وارث کو میراث دلانے سے بھاگے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کی میراث نہ دے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2703]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 843، ومصباح الزجاجة: 957) (ضعیف)» (سند میں زید العمی اور ان کے لڑکے عبد الرحیم دونوں ضعیف ہیں، نیزملاحظہ ہو: المشکاة: 3078)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی ستر سال تک نیک عمل کرتا رہتا ہے، پھر وصیت کے وقت اپنی وصیت میں ظلم کرتا ہے، تو اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے اور جہنم میں جاتا ہے، اسی طرح آدمی ستر سال تک برے اعمال کا ارتکاب کرتا رہتا ہے لیکن اپنی وصیت میں انصاف کرتا ہے، اس کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے، اور جنت میں جاتا ہے“۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم چاہو تو اس آیت کریمہ: «تلك حدود الله»(سورۃ النساء: ۱۳- ۱۴) کو پڑھو یعنی ”یہ حدود اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتیوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے، اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2704]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13495، ومصباح الزجاجة: 958)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الوصایا 3 (2867)، سنن الترمذی/الوصایا 2 (2117)، مسند احمد (2/278) (ضعیف)» (ترمذی میں «سبعين سنة» ہے، اور سند میں شہر بن حوشب ضعیف ہیں، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: 495)