حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1396]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 5 باب تسليم الراكب على الماشي»
729. باب من حق المسلم للمسلم رد السلام
729. باب: مسلمان کا مسلمان پہ حق یہ بھی ہے کہ سلام کا جواب دے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا‘ مریض کا مزاج معلوم کرنا‘ جنازے کے ساتھ چلنا‘ دعوت قبول کرنا‘ اور چھینک پر (اس کے ”الحمد اللّٰہ“ کے جواب میں) یرحمک اللّٰہ کہنا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1397]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 2 باب الأمر باتباع الجنائز»
730. باب النهي عن ابتداء أهل الكتاب بالسلام وكيف يرد عليهم
730. باب: اہل کتاب کو خود سلام نہ کیا جائے، اگر وہ کریں تو کس طرح جواب دیا جائے
حدیث نمبر: 1398
1398 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمْ أَهْلُ الْكِتَابِ، فَقُولُوا: وَعَلَيْكُمْ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو تم اس کے جواب میں صرف ”وعلیکم“ کہو۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1398]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 22 باب كيف يُرَدّ على أهل الذمة السلام»
حدیث نمبر: 1399
1399 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا سَلَّمَ عَلَيْكُمُ الْيَهُودُ فَإِنَّمَا يَقُولُ أَحَدُهُمُ: السَّامُ عَلَيْكَ فَقُلْ: وَعَلَيْكَ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں یہودی سلام کریں اور اگر ان میں سے کوئی ”السام علیک“ کہے تو تم اس کے جواب میں صرف ”وعلیک“(اور تمہیں بھی) کہہ دیا کرو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1399]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 22 باب كيف يُرَدّ على أهل الذمة السلام»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ کچھ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ”السام علیک“(تمہیں موت آئے) میں ان کی بات سمجھ گئی اور میں نے جواب دیا ”علیکم السام واللعنۃ“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ صبر سے کام لے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا تھا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے ان کا جواب دے دیا تھا کہ ”وعلیکم“(اور تمہیں بھی)۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1400]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 22 باب كيف يُرَدّ على أهل الذمة السلام»
731. باب استحباب السلام على الصبيان
731. باب: بچوں کو سلام کرنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1401
1401 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، أَنَّهُ مَرَّ عَلَى صِبْيَانٍ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ وَقَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَفْعَلُهُ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1401]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 15 باب التسليم على الصبيان»
732. باب إِباحة الخروج للنساء لقضاء حاجة الإنسان
732. باب: عورتوں کو ضروری حاجت کے لیے باہر نکلنا جائز ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ اُمّ المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد قضاء حاجت کے لیے نکلیں وہ بہت بھاری بھرکم تھیں جو انہیں جانتا تھا اس سے وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتی تھیں۔ راستے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ لیا اور کہا کہ اے سودہ! ہاں خدا کی قسم آپ ہم سے اپنے آپ کو نہیں چھپا سکتیں دیکھئے تو آپ کس طرح باہر نکلی ہیں۔ بیان کیا کہ سودہ رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں وہاں سے واپس آ گئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے حجرہ میں تشریف رکھتے تھے اور رات کا کھانا کھا رہے تھے، آنحضرت کے ہاتھ میں اس وقت گوشت کی ایک ہڈی تھی۔ سودہ رضی اللہ عنہ نے داخل ہوتے ہی کہا، یا رسول اللہ! میں قضاء حاجت کے لیے نکلی تھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ باتیں کیں، بیان کیا کہ آپ پر وحی کانزول شروع ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد یہ کیفیت ختم ہوئی، ہڈی اب بھی آپ کے ہاتھ میں تھی۔ آپ نے اسے رکھا نہیں تھا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں (اللہ کی طرف سے) قضاء حاجت کے لیے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1402]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في 65 كتاب التفسير: 13 سورة الأحزاب: 8 باب قوله (لا تدخلوا بيوت النبي»
733. باب تحريم الخلوة بالأجنبية والدخول عليها
733. باب: اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں ملنا اور اس کے پاس جانا حرام ہے
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عورتوں میں جانے سے بچتے رہو، اس پر قبیلہ انصار کے ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ!دیور کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ (وہ اپنی بھاوج کے ساتھ جا سکتا ہے یا نہیں؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیور یا (جیٹھ) کا جانا ہی تو ہلاکت ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1403]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 111 باب لا يخلون رجل بامرأة إلا ذو محرم والدخول على المغيبة»
734. باب بيان أنه يستحب لمن رُؤيَ خاليًا بامرأة وكانت زوجة أو محرمًا له أن يقول هذه فلانة ليدفع ظن السوء به
734. باب: جو کسی عورت کے ساتھ خلوت میں ہو اور دوسرے شخص کو دیکھے تو اس سے کہہ دے کہ میری بیوی یا محرم ہے تاکہ اس کو بد گمانی نہ ہو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ رمضان کے آخری عشرہ میں، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مسجد میں آئیں، تھوڑی دیر تک باتیں کیں پھر واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی انھیں پہنچانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ جب وہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاکے دروازے سے قریب والے مسجد کے دروازے پر پہنچیں تو دو انصاری آدمی ادھر سے گزرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی سوچ کی ضرورت نہیں، یہ تو (میری بیوی) صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان دونوں صحابیوں نے عرض کی: سبحان اللہ! یا رسول اللہ! ان پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جملہ بڑا شاق گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان خون کی طرح انسان کے بدن میں دوڑتا رہتا ہے۔ مجھے خطرہ ہوا کہ کہیں تمھارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1404]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 33 كتاب الاعتكاف: 8 باب هل يخرج المعتكف لحوائجه إلى باب المسجد»
735. باب من أتى مجلسًا فوجد فرجة فجلس فيها، وإلا وراءهم
735. باب: جو کوئی مجلس میں آئے اور صف میں جگہ پائے تو بیٹھ جائے ورنہ پیچھے بیٹھ جائے
حضرت ابو واقد اللیثی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ تین آدمی وہاں آئے (ان میں سے) دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پہنچ گئے اور ایک واپس چلا گیا۔ (راوی کہتے ہیں کہ) پھر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے (جب) مجلس میں (ایک جگہ کچھ) گنجائش دیکھی، تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا اہل مجلس کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا جو تھا وہ لوٹ گیا۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی گفتگو سے) فارغ ہوئے (تو صحابہ رضی اللہ عنہ م سے) فرمایا کہ کیا میں تمھیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ تو (سنو) ان میں سے ایک نے اللہ سے پناہ چاہی اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے کو شرم آئی تو اللہ بھی اس سے شرمایا (کہ اسے بھی بخش دیا) اور تیسرے شخص نے منہ موڑا، تو اللہ نے (بھی) اس سے منہ موڑ لیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب السلام/حدیث: 1405]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 8 باب من قعد حيث ينتهي به المجلس»