1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے مسائل
616. باب قتل كعب بن الأشرف طاغوت اليهود
616. باب: یہود کے طاغوت کعب بن اشرف کا قتل
حدیث نمبر: 1179
1179 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَامَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَأْذَنْ لِي أَنْ أَقُولَ شَيْئًا قَالَ: قُلْ فَأَتَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَقَالَ: إِنَّ هذَا الرَّجُلَ قَد سَأَلَنَا صَدَقَةً، وَإِنَّهُ قَدْ عَنَّانَا، وَإِنِّي قَدْ أَتَيْتُكَ أَسْتَسْلِفُكَ قَالَ: وَأَيْضًا، وَاللهِ لَتَمَلُّنَّهُ قَالَ إِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ فَلاَ نُحِبُّ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظرَ إِلَى أَيِّ شَيْءٍ يَصِيرُ شَأْنُهُ وَقَدَ أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ فَقَالَ: نَعَمْ، ارْهَنُونِي قَالُوا: أيَّ شَيْءٍ تُرِيدُ قَالَ: ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا، وَأَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ قَالَ: فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكمْ قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُكَ أَبْنَاءَنَا، فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ فَيُقَالُ رُهِنَ بِوَسْقٍ أَوْ وَسْقَيْنِ، هذَا عَارٌ عَلَيْنَا، وَلكِنَّا نَرْهَنُكَ الَّلأْمَةَ (يَعْنِي السِّلاَحَ) فَوَاعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ، فَجَاءَهُ لَيْلاً وَمَعَهُ أَبُو نَائِلَةَ، وَهُوَ أَخو كَعْبٍ مِنَ الرَّضَاعَةِ فَدَعَاهُمْ إِلَى الْحِصْنِ، فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ؛ فَقَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ: أَيْنَ تَخْرُجُ هذِهِ السَّاعَةَ فَقَالَ: إِنَّمَا هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَأَخِي أَبُو نَائِلَةَ قَالَتْ: أَسْمَعُ صَوْتًا كَأَنَّهُ يَقْطُرُ مِنْهُ الدَّمُ قَالَ: إِنَّمَا هُوَ أَخِي مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ وَرَضِيعِي أَبُو نَائِلَةَ، إِنَّ الْكَرِيمَ لَوْ دُعِيَ إِلَى طَعْنَةٍ بِلَيْلٍ لأَجَابَ قَالَ: وَيُدْخِلُ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ مَعَهُ رَجُلَيْنِ فَقَالَ: إِذَا مَا جَاءَ فَإِنِّي قَائِلٌ بَشَعَرِهِ فَأَشَمُّهُ، فَإِذَا رَأَيْتُمُونِي اسْتَمْكَنْتُ مِنْ رَأْسِهِ فَدُونَكُمْ فَاضْرِبُوهُ وَقَالَ مَرَّةً: ثُمَّ أُشِمُّكُمْ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ مَتَوَشِّحًا، وَهُوَ يَنْفَحُ مِنْهُ رِيحُ الطِّيبِ فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ رِيحًا، أَيْ أَطْيَبَ قَالَ: عِنْدِي أَعْطَرُ نِسَاءِ الْعَرَبِ وَأَكْمَلُ الْعَرَبِ؛ فَقَالَ: أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَشَمَّ رَأْسَكَ قَالَ: نَعَمْ فَشَمَّهُ ثُمَّ أَشَمَّ أَصْحَابَهُ ثُمَّ قَالَ: أَتأْذَنُ لِي قَالَ: نَعَمْ فَلَمَّا اسْتَمْكَنَ مِنْهُ، قَالَ: دُونَكُمْ فَقَتَلُوهُ، ثُمَّ أَتَوُا النَبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ کعب بن اشرف کا کام کون تمام کرے گا؟ وہ اللہ اور اس کے رسول کو بہت ستا رہا ہے، اس پر محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ اجازت دیں گے کہ میں اسے قتل کر آؤں؟ آپ نے فرمایا‘ ہاں مجھ کو یہ پسند ہے۔ انہوں نے عرض کیا‘ پھر اپ مجھے اجازت عنایت فرمائیں کہ میں اس سے کچھ باتیں کہوں۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ اب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کعب بن اشرف کے پاس آئے اور اس سے کہا: یہ شخص (ارادہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا) ہم سے صدقہ مانگتا رہتا ہے اور اس نے ہمیں تھکا مارا ہے، اس لئے میں تم سے قرض لینے آیا ہوں اس پر کعب نے کہا‘ ابھی آگے دیکھنا‘ خدا کی قسم! بالکل اکتا جاؤ گے۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا‘ چونکہ ہم نے بھی اب ان کی اتباع کر لی ہے اس لئے جب تک یہ نہ کھل جائے کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے‘ انہیں چھوڑنا بھی مناسب نہیں۔ میں تم سے ایک وسق یا (راوی نے بیان کیا کہ) دو وسق غلہ قرض لینے آیا ہوں اور ہم سے عمرو بن دینار نے یہ حدیث کی ایک دفعہ بیان کی لیکن ایک وسق یا دو وسق غلے کا کوئی ذکر نہیں کیا میں نے ان سے کہا کہ حدیث میں ایک وسق یا دو وسق کا بھی ذکر ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا بھی خیال ہے کہ حدیث میں ایک یا دو وسق کا ذکر آیا ہے) کعب بن اشرف نے کہا‘ ہاں‘ میرے پاس کچھ گروی رکھ دو‘ انہوں نے پوچھا‘ گروی میں تم کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا‘ اپنی عورتوں کو رکھ دو۔ انہوں نے کہا کہ تم عرب کے بہت خوبصورت مرد ہو۔ ہم تمہارے پاس اپنی عورتیں کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں؟ اس نے کہا‘ پھر اپنے بچوں کو گروی رکھ دو۔ انہوں نے کہا‘ ہم بچوں کو کس طرح گروی رکھ سکتے ہیں کل انہیں اسی پر گالیاں دی جائیں گی کہ ایک یا دو وسق غلے پر انہیں رہن رکھ دیا گیا تھا‘ یہ تو بڑی بے غیرتی ہوگی البتہ ہم تمہارے پاس اپنے لامہ گروی رکھ سکتے ہیں(یعنی ہتھیار)۔ سفیان نے کہا کہ مراد اس سے ہتھیار تھے۔محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور رات کے وقت اس کے یہاں آئے ان کے ساتھ ابو نائلہ بھی موجود تھے وہ کعب بن اشرف کے رضاعی بھائی تھے۔ پھر اس کے قلعہ کے پاس جا کر انہوں نے آواز دی۔ وہ باہر انے لگا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اس وقت (اتنی رات گئے) کہاں باہر جا رہے ہو؟ اس نے کہا ‘ وہ تو محمد بن مسلمہ اور میرا بھائی ابونائلہ ہے (عمرو کے سوا (دوسرے راوی) نے بیان کیا کہ)اس کی بیوی نے اس سے کہا کہ مجھے تو یہ آواز ایسی لگتی ہے جیسے اس سے خون ٹپک رہا ہو۔ کعب نے جواب دیا کہ میرے بھائی محمد بن مسلمہ اور میرے رضاعی بھائی ابو نائلہ ہیں۔ شریف کو اگر رات میں بھی نیزہ بازی کے لئے بلایا جائے تو وہ نکل پڑتا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ جب محمد بن مسلمہ اندر گئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے، سفیان سے پوچھا گیا کہ کیا عمرو بن دینار نے ان کے نام بھی لئے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ بعض کا نام لیا تھا۔ عمرونے بیان کیا کہ وہ آئے تو ان کے ساتھ دو آدمی اور تھے اور عمرو بن دینار کے سوا انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ جب کعب آئے تو میں اس کے (سر کے) بال ہاتھ میں لے لوں گا اور اسے سونگھنے لگوں گا جب تمہیں اندازہ ہو جائے کہ میں نے اس کا سر پوری طرح اپنے قبضہ میں لے لیا ہے تو پھر تم تیار ہو جانا اور اسے قتل کر ڈالنا عمرو نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ پھر میں اس کا سر سونگھوں گا آخر کعب چادر لپیٹے ہوئے باہر آیا۔ اس کے جسم سے خوشبو پھوٹی پڑتی تھی۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا‘ آج سے زیادہ عمدہ خوشبو میں نے کبھی نہیں سونگھی کہ کعب اس پر بولا‘ میرے پاس عرب کی وہ عورت ہے جو ہر وقت عطر میں بسی رہتی ہے اور حسن و جمال میں بھی اس کی کوئی نظیر نہیں۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا‘ کیا تمہارے سر کو سونگھنے کی مجھے اجازت ہے؟ اس نے کہا‘ سونگھ سکتے ہو۔ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس کا سر سونگھا اور ان کے بعد ان کے ساتھیوں نے بھی سونگھا۔ پھر انہوں نے کہا‘ کیا دوبارہ سونگھنے کی اجازت ہے؟ اس نے اس مرتبہ بھی اجازت دے دی پھر جب محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اسے پوری طرح اپنے قابو میں کر لیا تو اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ تیار ہو جاؤ‘ چنانچہ انہوں نے اسے قتل کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی اطلاع دی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1179]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 15 باب قتل كعب بن الأشرف»

617. باب غزوة خيبر
617. باب: غزوۂ خیبر کا بیان
حدیث نمبر: 1180
1180 صحيح حديث أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا صَلاَةَ الْغَدَاةِ بِغَلَسٍ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ فَأَجْرَى نَبِيُّ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ حَسَرَ الإِزَارَ عَنْ فَخْذِهِ حَتَّى إِنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ فَخِذَ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ، قَالَ: اللهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ قَالَهَا ثَلاَثًا قَالَ: وَخَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ (يَعْنِي الْجَيْشَ) قَالَ: فَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خیبر میں تشریف لے گئے۔ ہم نے وہاں فجر کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابو طلحہ بھی سوار ہوئے، میں ابو طلحہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کا رخ خیبر کی گلیوں کی طرف کر دیا۔ میرا گھٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھو جاتا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ران سے تہبند کو ہٹایا۔ یہاں تک کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاف اور سفید رانوں کی سفیدی اور چمک دیکھنے لگا۔ جب آپ خیبر کی بستی میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے، خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو جاتی ہے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خیبر کے یہودی لوگ اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آن پہنچے۔ پس ہم نے خیبر لڑ کر فتح کر لیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1180]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 8 كتاب الصلاة: 12 باب ما يذكر في الفخذ»

حدیث نمبر: 1181
1181 صحيح حديث سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ رضي الله عنه، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَسِرْنَا لَيْلاً، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، لِعَامِرٍ: يَا عَامِرُ أَلاَ تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلاً شَاعِرًا، فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ، يَقُولُ: اَللَّهُمَ لَوْلاَ أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَاوَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَافَاغْفِرْ، فِدَاءً لَكَ، مَا أَبْقَيْنَاوَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَيْنَاوَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَاإِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَبَيْنَاوَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَافَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ هذَا السَّائِقُ قَالُوا: عَامِرُ بْنُ الأَكْوعِ قَالَ: يَرْحَمُهُ الله قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللهِ لَوْلاَ أَمْتَعْتَنَا بِهِ فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ ثُمَّ إِنَّ اللهَ تَعَالَى فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ فَلَمَّا أَمْسى النَّاسُ مَسَاءَ الْيَوْم الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا هذِهِ النِّيرَانُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ توقِدُونَ قَالُوا: عَلَى لَحْمٍ قَالَ: عَلَى أَيِّ لَحْمٍ قَالُوا: لَحْمُ حُمُرِ الإِنْسِيَّةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أهْرِيقُوهَا وَاكْسِرُوهَا فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا؛ قَالَ: أَوْ ذَاكَ فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ قَصِيرًا، فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ، فَأَصَابَ عَيْنَ رُكْبَةِ عَامِرٍ، فَمَاتَ مِنْهُ قَالَ: فَلَمَّا قَفَلُوا، قَالَ سَلَمَةُ: رَآنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: مَا لَكَ قلْتُ لَهُ: فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَذَبَ مَنْ قَالَهُ إِنَّ لَهُ لأَجْرَيْنِ وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ: إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ، قَلَّ عَرَبِيٌّ مَشى بِهَا مِثْلَهُ
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ رات کے وقت ہمارا سفرجاری تھا کہ ایک صاحب (اسید بن حضیر) نے عامر سے کہا‘ عامر! اپنے کچھ شعر سناؤ‘ عامر شاعر تھا۔ اس فرمائش پر وہ سواری سے اتر کر حدی خوانی کرنے لگے۔ کہا اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا‘ نہ ہم صدقہ کر سکتے اور نہ ہم نماز پڑھ سکتے۔ پس ہماری جلدی مغفرت کر‘ جب تک ہم زندہ ہیں ہماری جانیں تیرے راستے میں فدا ہیں اور اگر ہماری مڈبھیڑ ہو جائے تو ہمیں ثابت رکھ ہم پر سکینت نازل فرما‘ ہمیں جب (باطل کی طرف) بلایا جاتا ہے تو ہم انکار کر دیتے ہیں‘ آج چلا چلا کر وہ ہمارے خلاف میدان میں آئے ہیںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون شعر کہہ رہا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ عامر بن اکوع‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے تو انہیں شہادت کا مستحق قرار دے دیا‘ کاش! ابھی اور ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر ہم خیبر آئے اور قلعہ کا محاصرہ کیا اس کے دوران ہمیں سخت تکالیف اور فاقوں سے گزرنا پڑا آخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی۔ جس دن قلعہ فتح ہونا تھا، اس رات لشکر میں جگہ جگہ آگ جل رہی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ آگ کیسی ہے‘ کس چیز کے لئے اسے جگہ جگہ جلا رکھا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہ بولے کہ گوشت پکانے کے لئے۔ یہ آپ نے دریافت فرمایا کہ کس جانور کا گوشت ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ پالتو گدھوں کا‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام گوشت پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ دو‘ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ!ایسا کیوں نہ کر لیں کہ گوشت تو پھینک دیں اور ہانڈیوں کو دھولیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی کر لو پھر دن میں جب صحابہ رضی اللہ عنہ نے جنگ کے لئے صف بندی کی تو چونکہ حضرت عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی‘ اس لئے انہوں نے جب ایک یہودی کی پنڈلی پر (جھک کر) وار کرنا چاہا تو خود انہیں کی تلوار کی دھار سے ان کے گھٹنے کا اوپر کا حصہ زخمی ہوگیا اور ان کی شہادت اسی میں ہوگئی، سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پھر جب لشکر واپس ہو رہا تھا تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا‘ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا‘ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عامر رضی اللہ عنہ کا سارا عمل اکارت ہوگیا (کیونکہ خود اپنی ہی تلوار سے ان کی وفات ہوئی) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جھوٹا ہے وہ شخص جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے‘ انہیں تو دوہرا اجر ملے گا، پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا‘ انہوں نے تکلیف اور مشقت بھی اٹھائی اور اللہ کے راستے میں جہاد بھی کیا‘ شاید ہی کوئی عربی ہو‘ جس نے ان جیسی مثال قائم کی ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1181]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 38 باب غزوة خيبر»

618. باب غزوة الأحزاب وهي الخندق
618. باب: غزوۂ احزاب یعنی جنگ خندق کا بیان
حدیث نمبر: 1182
1182 صحيح حديث الْبَرَاءِ رضي الله عنه، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الأَحْزَابِ يَنْقُلُ التُّرابَ، وَقَد وَارَى التُّرَابُ بَيَاضَ بَطْنِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: لَوْلاَ أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَاوَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَافَأَنْزِلِ السَّكِينَةَ عَلَيْنَاوَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَيْنَاإِنَّ الأُلَى قَد بَغَوْا عَلَيْنَاإِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوۂ احزاب (خندق) کے موقع پر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی (خندق کھودنے کی وجہ سے جو نکلتی تھی) خود ڈھو رہے تھے، مٹی سے آپ کے پیٹ کی سفیدی چھپ گئی تھی اور آپ یہ شعر کہہ رہے تھے۔ تو ہدایت گر نہ ہوتا تو کہاں ملتی نجات ... کیسے پڑھتے ہم نمازیں ...کیسے دیتے ہم زکوٰۃ ... اب اتار ہم پر تسلی اے شہ عالیٰ... صفا تپاؤں جموا دے ہمارے، دے لڑائی میں ثبات ... بے سبب ہم پر یہ کافر ظلم سے چڑھ آتے ہیں... جب وہ بہکائیں ہمیں سنتے نہیں ہم ان کی بات. [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1182]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 34 باب حفر الخندق»

حدیث نمبر: 1183
1183 صحيح حديث سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: جَاءَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحنُ نَحْفِرُ الْخَنْدَقَ وَنَنْقُلُ التُّرَابَ عَلَى أَكْتَادِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشُ الآخِرَهْفَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم خندق کھود رہے تھے اور اپنے کندھوں پر مٹی اٹھا رہے تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی اے اللہ! آخرت کی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی حقیقی زندگی نہیں، پس انصار اور مہاجرین کی تو مغفرت فرما۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1183]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 9 باب دعاء النبي صلی اللہ علیہ وسلم أصلح الأنصار والمهاجرة»

حدیث نمبر: 1184
1184 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشُ الآخِرَةِفَأَصْلِحِ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (خندق کھودتے وقت) فرمایا: حقیقی زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے، پس اے اللہ! انصار اور مہاجرین پر اپنا کرم فرما۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1184]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 9 باب دعاء النبي صلی اللہ علیہ وسلم أصلح الأنصار والمهاجرة»

حدیث نمبر: 1185
1185 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: كَانَتِ الأَنْصَارُ، يَوْمَ الْخَنْدَقِ، تَقُولُ: نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدًاعَلَى الْجِهَادِ مَا حَيينَا أَبَدًافَأَجَابَهُمُ النَبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اللهُمَّ لاَ عَيْشَ إِلاَّ عَيْشُ الآخِرَهْفَأَكْرِمِ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انصار خندق کھودتے ہوئے (غزوہ خندق کے موقع پر) کہتے تھے۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جہاد پر بیعت کی ہے ہمیشہ کے لئے، جب تک ہمارے جسم میں جان ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جواب میں یوں فرمایا: اے اللہ! زندگی تو بس آخرت ہی کی زندگی ہے، پس تو(آخرت میں) انصار اور مہاجرین کا اکرام فرمانا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1185]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 110 باب البيعة في الحرب أن لا يفروا»

619. باب غزوة ذي قرد وغيرها
619. باب: غزوۂ ذی قرد وغیرہ کا بیان
حدیث نمبر: 1186
1186 صحيح حديث سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ، قَالَ: خَرَجْتُ قَبْلَ أَنْ يُؤَذَّنَ بِالأُولَى، وَكَانَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْعَى بِذِي قَرَدٍ، قَالَ: فَلَقِيَنِي غُلاَمٌ لِعَبْدِ الرَّحْمنِ بْنِ عَوْفٍ فَقَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: مَنْ أَخَذَهَا قَالَ: غَطَفَانُ قَالَ: فَصَرَخْتُ ثَلاَثَ صَرَخَاتٍ، يَا صَبَاحَاهُ قَالَ: فَأَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لاَبَتَي الْمَدِينَةِ، ثُمَّ انْدَفَعْتُ عَلَى وَجْهِي حَتَّى أَدْرَكْتُهُمْ وَقَدْ أَخَذُوا يَسْتَقُونَ مِنَ الْمَاءِ، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ بِنَبْلِي وَكُنْتُ رَامِيًا، وَأَقُولُ: أَنَا ابْنُ الأَكْوَعْ الْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ وَأَرْتَجِزُ حَتَّى اسْتَنْقَذْتُ اللِّقَاحَ مِنْهُمْ، وَاسْتَلَبْتُ مِنْهُمْ ثَلاَثِينَ بُرْدَةً قَالَ: وَجَاءَ النَبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ قَدْ حَمَيْتُ الْقَوْمَ الْمَاءَ وَهُمْ عِطَاشٌ، فَابْعَثْ إِلَيْهِمِ السَّاعَةَ فَقَالَ: يَا ابْنَ الأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ قَالَ: ثُمَّ رَجَعْنَا، وَيُرْدِفُنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَتِهِ، حَتَّى دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ
حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ فجر کی اذان سے پہلے میں (مدینہ سے باہر غابہ کی طرف نکلا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودھ دینے والی اونٹنیاں ذات القرد میں چرا کرتی تھیں، انھوں نے بیان کیا کہ راستے میں مجھے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام ملے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں پکڑ لی گئیں ہیں میں نے پوچھاکہ کس نے پکڑا انہیں؟ انہوں نے بتایا کہ قبیلہ غطفان والوں نے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے تین مرتبہ بڑی زور زور سے پکارا‘ یاصباحاہ! انہوں نے بیان کیا کہ اپنی آواز میں نے مدینہ کے دونوں کناروں تک پہنچا دی اور اس کے بعد میں سیدھا تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا آگے بڑھا اور آخر انہیں جالیا۔ اس وقت وہ جانوروں کو پانی پلانے کے لئے اترے تھے۔ میں نے ان پر تیر برسانے شروع کر دیئے میں تیر اندازی میں ماہر تھا اور یہ شعر کہتا جاتا تھا میں ابن الاکوع ہوں‘ آج ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے میں یہی رجز پڑھتا رہا اور آخر اونٹنیاں ان سے چھڑالیں بلکہ تیس چادریں ان کی میرے قبضے میں آ گئیں۔حضرت سلمہ نے بیان کیا کہ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر آگئے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے تیر مار مار کر ان کو پانی نہیں پینے دیا اور وہ ابھی پیاسے ہیں۔ آپ فوراً ان کے تعاقب کے لئے فوج بھیج دیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن الاکوع! جب تو نے کسی پر قابو پالیا تو پھر نرمی اختیار کیا کر۔ سیّدہ سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا‘ پھر ہم واپس آگئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی اونٹنی پر پیچھے بٹھا کر لائے یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آگئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1186]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 37 باب غزوة ذات القرد»

620. باب غزوة النساء مع الرجال
620. باب: مردوں کے ساتھ مل کر عورتوں کا جنگ کرنا
حدیث نمبر: 1187
1187 صحيح حديث أَنَسٍ رضي الله عنه، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، انْهَزَمَ النَّاسُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُجَوِّبٌ بِهِ عَلَيْهِ بِحَجَفَةٍ لَهُ وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ رَجُلاً رَامِيًا شَدِيدَ الْقِدِّ يَكْسِرُ يَوْمَئِذٍ قَوْسَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا وَكَانَ الرُّجُلُ يَمُرُّ مَعَهُ الْجَعْبَةُ مِنَ النَّبْلِ، فَيَقُولُ: انْشُرْهَا، لأَبِي طَلْحَةَ فَأَشْرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظرُ إِلَى الْقَوْمِ، فَيَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ: يَا نَبِيَّ اللهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي لاَ تُشْرِفْ، يُصِيبُكَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ الْقَوْمِ، نَحْرِي دُونَ نَحْرِك وَلَقَدْ رَأَيْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، وَأُمَّ سُلَيْمٍ، وَإِنَّهُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ، أَرَى خَدَمَ سُوقِهِمَا، تُنْقِزَانِ الْقِرَبَ عَلَى مُتُونِهِمَا، تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ الْقَوْمِ، ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلآنِهَا، ثُمَّ تَجِيئَانِ فَتُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ الْقَوْمِ وَلَقَدْ وَقَعَ السَّيْفُ مِنْ يَدَيْ أَبِي طَلْحَةَ، إِمَّا مَرَّتَيْنِ وَإِمَّا ثَلاَثًا
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی کے موقع پر جب صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے ادھر ادھر ہونے لگے تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ س وقت اپنی ایک ڈھال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کر رہے تھے۔ حضرت ابو طلحہ بڑے تیر انداز تھے اور خوب کھینچ کر تیر چلایا کرتے تھے۔ چنانچہ اس دن دو یا تین کمانیں انہوں نے توڑ دی تھیں اس وقت اگر کوئی مسلمان ترکش لئے ہوئے گزرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اس کے تیر ابو طلحہ کو دے دو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حالات معلوم کرنے کے لیے اچک کر دیکھنے لگتے تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے یا نبی اللہ! آپ پر میرے ماں اور باپ قربان ہوں۔ رُک کرملاحظہ نہ فرمائیں، کہیں کوئی تیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ لگ جائے۔ میرا سینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کی ڈھال بنا رہا۔ میں نے عائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما ور ام سلیم (ابو طلحہ کی بیوی) کو دیکھا کہ اپنا ازار اٹھائے ہوئے تھیں۔(غازیوں کی مدد میں) بڑی تیزی کے ساتھ مشغول تھیں۔ (اس خدمت میں ان کو انہماک و استغراق کی وجہ سے کپڑوں تک کا ہوش نہ تھا یہاں تک کہ) میں ان کی پنڈلیوں کے زیور دیکھ سکتا تھا۔ انتہائی جلدی کے ساتھ مشکیزے اپنی پیٹھوں پر لئے جاتی تھیں اور مسلمانوں کو پلا کر واپس آتی تھیں اور پھر انہیں بھر کر لے جاتیں اور ان کا پانی مسلمانوں کو پلاتیں اور ابو طلحہ کے ہاتھ سے اس دن دو یا تین مرتبہ تلوار چھوٹ کر گر پڑی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1187]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 18 باب مناقب أَبِي طلحة رضي الله عنه»

621. باب عدد غزوات النبيّ ﷺ
621. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کی تعداد
حدیث نمبر: 1188
1188 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ خَرَجَ، وَخَرَجَ مَعَهُ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ وَزَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، فَاسْتَسْقَى، فَقَامَ بِهِمْ عَلَى رِجْلَيْهِ، عَلَى غَيْرِ مِنْبَرٍ، فَاسْتَغْفَرَ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، يَجْهَرُ بِالْقِرَاءَةِ، وَلَمْ يُؤَذِّنْ وَلَمْ يُقِمْ
حضرت عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ استسقاء کے لیے باہر نکلے۔ ان کے ساتھ براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ انھوں نے پانی کے لیے دعا کی تو پاؤں پر کھڑے رہے۔ منبر نہ تھا، اسی طرح آپ نے دعا کی پھر دو رکعت نماز پڑھی جس میں قراءت بلند آواز سے کی، نہ اذان کہی اور نہ اقامت۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1188]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 15 كتاب الاستسقاء: 15 باب الدعاء في الاستسقاء قائمًا»


Previous    2    3    4    5    6    7    Next