حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے احد کی لڑائی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے بتلایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر زخم آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کے دانت ٹوٹ گئے تھے اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پرٹوٹ گئی تھی۔ (جس سے سر پر زخم آئے تھے) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ خون دھو رہی تھیں اور علی رضی اللہ عنہ پانی ڈال رہے تھے۔ جب فاطمہ نے دیکھا کہ خون برابر بڑھتا ہی جا رہا ہے تو انہوں نے ایک چٹائی جلائی اور اس کی راکھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں پر لگا دیا جس سے خون بہنا بند ہو گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1169]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 85 باب لُبس البيضة»
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھ رہا ہوں۔ آپ بنی اسرائیل کے ایک نبی کا واقعہ بیان کر رہے تھے کہ ان کی قوم نے انہیں مارا اور خون آلود کر دیالیکن وہ نبی خون صاف کرتے جاتے اور یہ دعا کرتے کہ ”اے اللہ! میری قوم کی مغفرت فرما، یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1170]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 54 باب حدثنا أبو اليمان»
612. باب اشتداد غضب الله على من قتله رسول الله ﷺ
612. باب: جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قتل کریں اس پر اللہ تعالیٰ کا غصہ بہت سخت ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ اللہ تعالیٰ کا غضب اس قوم پر انتہائی سخت ہوا جس نے اس کے نبی کے ساتھ یہ کیا۔ آپ کا اشارہ آگے کے دندان مبارک (کے ٹوٹ جانے) کی طرف تھا۔ اللہ تعالیٰ کا غضب اس شخص (ابی بن خلف) پر انتہائی سخت ہوا جسے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے راستے میں قتل کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1171]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 24 باب ما أصاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الجراح يوم أحد»
613. باب ما لقي النبي صلی اللہ علیہ وسلم من أذى المشركين والمنافقين
613. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں اور منافقوں کے ہاتھوں جو تکلیف پائی اس کا ذکر
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی (بھی وہیں) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو فلاں قبیلے کی (جو) اونٹنی ذبح ہوئی ہے (اس کی) اوجھڑی اٹھا کر لائے اور (لاکر) جب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت (آدمی) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا (عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں) میں یہ (سب کچھ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! (اس وقت) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے۔ اور (ہنسی کے مارے) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں تھے (بوجھ کی وجہ سے) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ آئیں اور وہ بوجھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ (بات) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بددعا دی سے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر (مکہ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان میں سے) ہر ایک کا (جدا جدا) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں (آدمی) کا نام (بھی) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! جن لوگوں کے (بدعا کرتے وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیے تھے، میں نے ان کی (لاشوں) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1172]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 4 كتاب الوضوء: 69 باب إذا أُلقي على ظهر المصلى قذر أو جيفة لم تفسد عليه صلاته»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا،کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار) کنانہ ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ لیکن اس نے (اسلام قبول نہیں کیا اور) میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا ٗ تب مجھ کو کچھ ہوش آیا ٗ میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت جبریلؑ اس میں موجود ہیں ٗ انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا ہے اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکاہے۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے ٗ آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی ٗ انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی ٗ آپ جو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں (جن سے وہ چکنا چور ہو جائیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٗ مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی ٗ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1173]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 7 باب إذا قال أحدكم آمين والملائكة في السماء»
حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی لڑائی کے موقع پر موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی زخمی ہو گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی سے مخاطب ہو کر فرمایا تیری حقیقت ایک زخمی انگلی کے سوا کیا ہے اور جو کچھ ملا ہے اللہ کے راستے میں ملا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1174]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد والسير: 9 باب من ينكب في سبيل الله»
حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑ گئے اور دو یا تین راتوں کو (تہجد کے لیے) نہیں اٹھ سکے۔ پھر ایک عورت (ابو لہب کی بیوی عوراء) آئی اور کہنے لگی اے محمد! میرا خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ دو یا تین راتوں سے دیکھ رہی ہوں کہ تمہارے پاس وہ نہیں آیا اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ والضحیٰ نازل فرمائی… یعنی ”قسم ہے دن کی روشنی کی اور رات کی جب وہ قرار پکڑے کہ آپ کے پروردگار نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ آپ سے بیزار ہوا ہے۔“…آخر تک۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1175]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 93 سورة والضحى: 1 باب حدثنا أحمد بن يونس»
614. باب في دعاء النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم إلى الله وصبره على أذى المنافقين
614. باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ سے دعا کرنا اور منافقوں کی تکلیف پر صبر کرنا
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بندھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر اپنے پیچھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا۔ آپ بنی حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی ان میں تھا۔ مجلس میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپا لی اور کہا کہ ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور وہاں رک گئے اور اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ان کے لئے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بولا: میاں میں ان باتوں کے سمجھنے سے قاصر ہوں اگر وہ چیزیں حق ہیں جو تم کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں تکلیف نہ دیا کرو، اپنے گھر جاؤ اور ہم سے جو تمہارے پاس آئے اس سے بیان کرو۔ اس پر ابن رواحہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں، پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو میں میں ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ کوئی ارادہ کر بیٹھیں اور ایک دوسرے پر حملہ کر دیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں برابر خاموش کراتے رہے اور جب وہ خاموش ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سوار پر بیٹھ کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: سعد تم نے نہیں سنا کہ ابو حباب نے آج کیا بات کہی ہے۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ یہ باتیں کہی ہیں۔حضرت سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!اسے معاف کر دیجئے اور درگزر فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ حق آپ کو عطا فرمایا ہے جو عطا فرمانا تھا۔ اس بستی (مدینہ منورہ) کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حق سے حسد ہو گیا اور اسی وجہ سے اس نے یہ معاملہ کیا ہے جو آپ نے دیکھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1176]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 20 باب التسليم في مجلس فيه أخلاط من المسلمين والمشركين»
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، اگر آپ عبداللہ بن ابی منافق کے یہاں تشریف لے چلتے تو بہتر تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے یہاں ایک گدھے پر سوار ہو کر تشریف لے گئے۔ صحابہ پیدل آپ کے ہمراہ تھے۔ جدھر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گزر رہے تھے وہ شور زمین تھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے یہاں پہنچے تو کہنے لگا ذرا آپ دور ہی رہئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گدھے کی بونے میرا دماغ پریشان کر دیا ہے۔ اس پر ایک انصاری صحابی بولے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گدھا تجھ سے زیادہ خوشبو دار ہے۔ عبداللہ منافق کی طرف سے اس کی قوم کا ایک شخص اس صحابی کی اس بات پر غصہ ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا، پھر دونوں طرف سے دونوں کے حمایتی مشتعل ہو گئے اور ہاتھا پائی، چھڑی اور جوتے تک نوبت پہنچ گئی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ ”اگر مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1177]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 53 كتاب الصلح: 1 باب ما جاء في الإصلاح بين الناس»
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی کے دن فرمایا، کون دیکھ کر آئے گا کہ ابو جہل کا کیا ہوا؟ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ معلوم کرنے گئے تو دیکھا کہ عفرا ء کے دونوں لڑکوں نے اسے قتل کر دیا تھا اور اس کا جسم ٹھنڈا پڑا ہے انہوں نے اس کی داڑھی پکڑ کر کہا، تو ہی ابوجہل ہے؟ اس نے کہا، کیا اس سے بھی بڑا کوئی آدمی ہے جسے آج اس کی قوم نے قتل کر ڈالا ہے، یا(اس نے یوں نے کہا کہ) تم لوگوں نے اسے قتل کرڈالا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1178]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 8 باب قتل أبي جهل»