1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے مسائل
614. باب في دعاء النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم إلى الله وصبره على أذى المنافقين
614. باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ سے دعا کرنا اور منافقوں کی تکلیف پر صبر کرنا
حدیث نمبر: 1176
1176 صحيح حديث أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ حِمارًا، عَلَيْهِ إِكَافٌ، تَحْتهُ قَطِيفَةٌ فَدَكِيَّةٌ، وَأَرْدَفَ وَرَاءَهُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحارث بْنِ الْخَزْرَجِ، وَذَلِكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ حَتَّى مَرَّ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلاَطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ، عَبَدَةِ الأَوْثَانِ، وَالْيَهُودِ؛ وَفِيهِمْ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَيٍّ بْنُ سَلُولَ وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: لاَ تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللهِ وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَيٍّ بْنُ سَلُولَ: أَيُّهَا الْمَرْءُ لاَ أَحْسَنَ مِنْ هذَا، إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا، فَلاَ تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا، وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ، فَمَنْ جَاءَكَ مِنَّا فَاقْصُص عَلَيْه قَالَ ابْنُ رَوَاحَةَ: اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ فَاسْتَبُّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا؛ فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ: أَيْ سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ يُرِيدُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَيٍّ قَالَ كَذَا وَكَذَا قَالَ اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللهِ وَاصْفَحْ، فَوَاللهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللهُ الَّذِي أَعْطَاكَ، وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هذِهِ الْبَحْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيعَصِّبُونَهُ بِالْعِصَابَةِ فَلَمَّا رَدَّ اللهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ، شَرِقَ بِذلِكَ، فَذلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ فَعفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان بندھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر اپنے پیچھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا۔ آپ بنی حارث بن خزرج میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست مشرک اور یہودی سب ہی شریک تھے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی ان میں تھا۔ مجلس میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد پڑا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک چھپا لی اور کہا کہ ہمارے اوپر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور وہاں رک گئے اور اتر کر انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ان کے لئے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول بولا: میاں میں ان باتوں کے سمجھنے سے قاصر ہوں اگر وہ چیزیں حق ہیں جو تم کہتے ہو تو ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں تکلیف نہ دیا کرو، اپنے گھر جاؤ اور ہم سے جو تمہارے پاس آئے اس سے بیان کرو۔ اس پر ابن رواحہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں، پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر تو تو میں میں ہونے لگی اور قریب تھا کہ وہ کوئی ارادہ کر بیٹھیں اور ایک دوسرے پر حملہ کر دیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں برابر خاموش کراتے رہے اور جب وہ خاموش ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سوار پر بیٹھ کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: سعد تم نے نہیں سنا کہ ابو حباب نے آج کیا بات کہی ہے۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا کہ اس نے یہ یہ باتیں کہی ہیں۔حضرت سعد نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!اسے معاف کر دیجئے اور درگزر فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے وہ حق آپ کو عطا فرمایا ہے جو عطا فرمانا تھا۔ اس بستی (مدینہ منورہ) کے لوگ (آپ کی تشریف آوری سے پہلے) اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور شاہی عمامہ اس کے سر پر باندھ دیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کی وجہ سے ختم کر دیا جو اس نے آپ کو عطا فرمایا ہے تو اسے حق سے حسد ہو گیا اور اسی وجہ سے اس نے یہ معاملہ کیا ہے جو آپ نے دیکھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجهاد/حدیث: 1176]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 79 كتاب الاستئذان: 20 باب التسليم في مجلس فيه أخلاط من المسلمين والمشركين»