1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الرضاع
کتاب: دودھ پلانے کے مسائل
468. باب القسم بين الزوجات وبيان أن السنة أن تكون لكل واحدة ليلة مع يومها
468. باب: بیویوں کی باری کا بیان اور سنت ہر بیوی کے لیے ایک دن اور ایک رات ہے
حدیث نمبر: 926
926 صحيح حديث عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ أَغَارُ عَلى اللاَّتِي وَهَبْنَ أَنْفُسَهُنَّ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقُولُ: أَتَهَبُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا فَلَمَّا أَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى (تُرْجِى مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوى إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكَ) قُلْتُ: مَا أُرَى رَبَّكَ إِلاَّ يُسَارِعُ فِي هَوَاكَ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ جو عورتیں اپنے نفس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہبہ کرنے آتی تھیں مجھے ان پر بڑی غیرت آتی تھی میں کہتی کہ کیا عورت خود ہی اپنے آپ کو کسی کے لئے پیش کر سکتی ہے؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ ان میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور جن کو آپ نے الگ کر رکھا تھا ان میں سے کسی کو پھر طلب کر لیں تب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے (الاحزاب ۵۱) تو میں نے کہا کہ میں تو سمجھتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی مراد بلاتا خیر پوری کر دینا چاہتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الرضاع/حدیث: 926]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 33 سورة الأحزاب: 7 باب قوله (ترجى من تشاء منهن»

469. باب جواز هبتها نوبتها لضرتها
469. باب: اپنی باری سوکن کو ہبہ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 927
927 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: حَضَرْنَا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ جَنَازَةَ مَيْمُونَةَ بِسَرِفَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هذِهِ زَوْجَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا رَفَعْتُمْ نَعْشَهَا فَلاَ تُزَعْزِعُوهَا وَلاَ تُزَلْزِلُوهَا، وَارْفُقُوا، فَإِنَّهُ كَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعٌ، كَانَ يَقْسِمُ لِثَمَانٍ، وَلاَ يَقْسِمُ لِوَاحِدَةٍ
عطاء رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہماکے ساتھ ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہاکے جنازہ میں شریک تھا سیّدنا ابن عباس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں جب تم ان کا جنازہ اٹھاؤ تو زور زور سے حرکت نہ دینا بلکہ آہستہ آہستہ نرمی کے ساتھ جنازہ کو لے کر چلنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی وفات کے وقت آپ کے نکاح میں نو بیویاں تھیں آٹھ کے لئے تو آپ نے باری مقرر کر رکھی تھی لیکن ایک کی باری نہیں تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الرضاع/حدیث: 927]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 4 باب كثرة النساء»

470. باب استحباب نكاح ذات الدين
470. باب: دین دار عورت سے نکاح کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 928
928 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ َلأرْبَعٍ: لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ، تَرِبَتْ يَدَاكَ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی آخیر میں تجھ کو ندامت ملے گی)۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الرضاع/حدیث: 928]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 15 باب الأكفاء في الدين»

471. باب استحباب نكاح البكر
471. باب: کنواری سے نکاح مستحب ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 929
929 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: تَزَوَّجْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَزَوَّجْتَ فَقُلْتُ: تَزَوَّجْتُ ثَيبًا فَقَالَ: مَا لَكَ وَلِلْعَذَارَى وَلِعَابِهَا قَالَ مُحَارِبٌ (أَحَدُ رِجَالِ السَّنَدِ): فَذَكَرْتُ ذلِكَ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، فَقَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلاَّ جَارِيَةً تُلاَعِبُهَا وَتُلاَعِبُكَ
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے شادی کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کس سے شادی کی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک بیوہ عورت سے آپ نے فرمایا کنواری سے کیوں نہ کی کہ اس کے ساتھ تم کھیل کود کرتے؟ محارب (سند کے ایک راوی) نے کہا کہ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد عمرو بن دینار سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے سیّدنا جابر بن عبداللہ سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تم نے کسی کنواری عورت سے شادی کیوں نہ کی کہ تم اس کے ساتھ کھیل کود کرتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الرضاع/حدیث: 929]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 10 باب تزويج الثيبات»

حدیث نمبر: 930
930 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: هَلَكَ أَبِي وَتَرَكَ سَبْعَ بَنَاتٍ أَوْ تِسْعَ بَنَاتٍ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً ثَيِّبًا، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ فَقُلْتُ: نَعَمْ فَقَالَ: بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا قَالَ: فَهَلاَّ جَارِيَةً تُلاَعِبُهَا وَتُلاَعِبُكَ وَتُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ قَالَ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ عَبْدَ اللهِ هَلَكَ وَتَرَكَ بَنَاتٍ، وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أَجِيئَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً تَقُومُ عَلَيْهِنَّ وَتُصْلِحُهُنَّ، فَقَالَ: بَارَكَ اللهُ أَوْ خَيْرًا
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے والد شہید ہو گئے اور انہوں نے سات لڑکیاں چھوڑیں یا (راوی نے کہا کہ) نو لڑکیاں چنانچہ میں نے ایک پہلے کی شادی شدہ عورت سے نکاح کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا جابر تم نے شادی کی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں فرمایا کنواری سے کی ہے یا بیاہی سے؟ میں نے عرض کیا کہ بیاہی سے فرمایا تم نے کسی کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی؟ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی تم اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے اور وہ تمہارے ساتھ ہنسی کرتی حضرت جابر نے بیان کیا کہ اس پر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے اور انہوں نے کئی لڑکیاں چھوڑی ہیں اس لیے میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان کے پاس ان ہی جیسی لڑکی بیاہ لاؤں اس لئے میں نے ایک ایسی عورت سے شادی کی ہے جو ان کی دیکھ بھال کر سکے اور ان کی اصلاح کا خیال رکھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا اللہ تعالی تمہیں برکت دے یا (راوی کو شک تھا) اللہ تم کو خیر عطا کرے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الرضاع/حدیث: 930]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 69 كتاب النفقات: 12 باب عون المرأة زوجها في ولده»

حدیث نمبر: 931
931 صحيح حديث جَابِرٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَلَمَّا قَفَلْنَا تَعَجَّلْتُ عَلَى بَعِيرٍ قَطُوفٍ، فَلَحِقَنِي رَاكِبٌ مِنْ خَلْفِي، فَالْتَفَتُّ فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ قَالَ: مَا يُعْجِلُكَ قُلْتُ: إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ قَالَ: فَبِكْرًا تَزَوَّجْتَ أَمْ ثَيِّبًا قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا قَالَ: فَهَلاَّ جَارِيَةً تُلاَعِبُهَا وَتُلاَعِبُكَ قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَهَبْنَا لِنَدْخُلَ، فَقَالَ: أَمْهِلُوا حَتَّى تَدْخُلُوا لَيْلاً أَيْ عِشَاءً لِكَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ وَفِي هذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ قَالَ: الْكَيْسَ الْكَيْسَ يَا جَابِرُ يَعْنِي الْوَلَدَ
سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہاد (تبوک) میں تھا جب ہم واپس ہو رہے تھے تو میں اپنے سست رفتار اونٹ کو تیز چلانے کی کوشش کر رہا تھا اتنے میں میرے پیچھے سے ایک سوار میرے قریب آئے میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے آپ نے فرمایا جلدی کیوں کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میری شادی ابھی نئی ہوئی ہے آپ نے دریافت فرمایا کنواری عورت سے تم نے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ سے۔ آپ نے اس پر فرمایا کنواری سے کیوں نہ کی تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔ سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر جب ہم (مدینہ) پہنچے تو ہم نے چاہا کہ شہر میں داخل ہو جائیں لیکن آپ نے فرمایا ٹھہر جاؤ رات ہو جائے پھر داخل ہونا تا کہ تمہاری بیویاں جو پراگندہ بال ہیں وہ کنگھی چوٹی کر لیں اور جن کے خاوند غائب تھے وہ زیر ناف بال صاف کر لیں اور اسی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ الکیس الکیس یعنی اے جابر جب تو گھر پہنے تو خوب کیس کرنا (امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کیس کا یہی مطلب ہے کہ اولاد ہونے کی خواہش کرنا)۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الرضاع/حدیث: 931]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 121 باب طلب الولد»

حدیث نمبر: 932
932 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ فَأَبْطَأَ بِي جَمَلِي وَأَعْيَا، فَأَتَى علَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: جَابِرٌ فَقُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: مَا شَأْنُكَ قُلْتُ: أَبْطَأَ عَلَيَّ جَمَلِي وَأَعْيَا فَتَخَلَّفْتُ؛ فَنَزَلَ يَحْجُنُهُ بِمِحْجَنِهِ ثُمَّ قَالَ: ارْكَبْ فَرَكِبْتُ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ أَكُفُّهُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تَزَوَّجْتَ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا قَالَ: أَفَلاَ جَارِيَةً تُلاَعِبُهَا وَتُلاَعِبُكَ قُلْتُ: إِنَّ لِي أَخَوَاتٍ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ امْرَأَةً تَجْمَعُهُنَّ وَتَمْشُطُهُنَّ وَتَقُومُ عَلَيْهِنَّ؛ قَالَ: أَمَّا إِنَّكَ قَادِمٌ، فَإِذَا قَدِمْتَ فَالْكَيْسَ الْكَيْسَ ثُمَّ قَالَ: أَتَبِيعُ جَمَلَكَ قُلْتُ: نَعَمْ فَاشْتَرَاهُ مِنِّي بِأُوقِيَّةٍ، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلِي، وَقَدِمْتُ بِالْغَدَاةِ، فَجِئْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ فَوَجَدْتُهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ قَالَ: آلانَ قَدِمْتَ قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: فَدَعْ جَمَلَكَ فَادْخُلْ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ فَدَخَلْتُ فَصَلَّيْتُ؛ فَأَمَرَ بِلاَلاً أَنْ يَزِنَ لَهُ أُوقِيَّةً، فَوَزَنَ لِي بِلاَلٌ فَأَرْجَحَ فِي الْمِيزَانِ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى وَلَّيْتُ، فَقَالَ: ادْعُ لِي جَابِرًا قُلْتُ الآنَ يَرُدُّ عَلَيَّ الْجَمَلَ، وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْهُ قَالَ: خُذْ جَمَلَكَ، وَلَكَ ثَمَنُهُ
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ (ذات الرقاع یا تبوک) میں تھا میرا اونٹ تھک کر سست ہو گیا اتنے میں میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا جابر میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! حاضر ہوں۔ فرمایا کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا کہ میرا اونٹ تھک کر سست ہو گیا ہے چلتا ہی نہیں اس لئے میں پیچھے رہ گیا ہوں پھر آپ اپنی سواری سے اترے اور میرے اسی اونٹ کو ایک ٹیڑھے منہ کی لکڑی سے کھینچنے لگے (یعنی ہانکنے لگے) اور فرمایا کہ اب سوار ہو جا چنانچہ میں سوار ہو گیا اب تو یہ حال ہوا کہ مجھے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پہنچنے سے روکنا پڑ جاتا تھا آپ نے دریافت فرمایا جابر تو نے شادی بھی کر لی ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں دریافت فرمایا کسی کنواری لڑکی سے کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو ایک بیوہ سے کر لی ہے فرمایا کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی؟ (سیّدنا جابر بھی کنوارے تھے) میں نے عرض کیا کہ میری کئی بہنیں ہیں (اور میری ماں کا انتقال ہو چکا ہے) اس لئے میں نے پسند کیا کہ ایسی عورت سے شادی کروں جو انہیں جمع رکھے ان کے کنگھا کرے اور ان کی نگرانی کرے پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا اب تم گھر پہنچ کر خیرو عافیت کے ساتھ خوب مزے اڑانا اس کے بعد فرمایا کہ کیا تم اپنا اونٹ بیچو گے؟ میں نے کہا جی ہاں چنانچہ آپ نے ایک اوقیہ چاندی میں خرید لیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پہلے ہی (مدینہ) پہنچ گئے تھے اور میں دوسرے دن صبح کو پہنچا پھر ہم مسجد آئے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے دروازے پر ملے آپ نے دریافت فرمایا کیا ابھی آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں فرمایا پھر اپنا اونٹ چھوڑ دو اور مسجد میں جا کے دو رکعت نماز پڑھو میں اندر گیا اور نماز پڑھی اس کے بعد آپ نے سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اوقیہ چاندی تول دے انہوں نے ایک اوقیہ چاندی جھکتی ہوئی (یعنی تھوڑی سی زیادہ) تول دی میں پیٹھ موڑ کے چلا تو آپ نے فرمایا کہ جابر کو ذرا بلاؤ میں نے سوچا کہ شاید اب میرا اونٹ پھر مجھے آپ واپس کریں گے حالانکہ اس سے زیادہ ناگوار میرے لیے اور کوئی چیز نہیں تھی چنانچہ آپ نے یہی فرمایا کہ یہ اپنا اونٹ لے جاؤ اور اس کی قیمت بھی تمہاری ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الرضاع/حدیث: 932]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 34 باب شراء الدواب والحمير»

472. باب الوصية بالنساء
472. باب: عورتوں کے ساتھ خوش خلقی کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 933
933 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الْمَرْأَةُ كَالضِّلَعِ، إِنْ أَقَمْتَهَا كَسَرْتَهَا، وَإِنِ اسْتَمْتَعْتَ بِهَا اسْتَمْتَعْتَ بِهَا وَفِيها عِوَجٌ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت مثل پسلی کے ہے اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ لو گے اور اگر اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہو گے تو اس کی ٹیڑھ کے ساتھ ہی فائدہ حاصل کرو گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الرضاع/حدیث: 933]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 79 باب المداراة مع النساء»

حدیث نمبر: 934
934 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِي جَارَهُ، وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلاَهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اس کے اوپر کا حصہ ہے اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ ڈالو گے اور اگر اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی باقی رہ جائے گی اس لئے میں تمہیں عورتوں کے بارے میں اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الرضاع/حدیث: 934]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 80 باب الوصاة بالنساء»

حدیث نمبر: 935
935 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَوْلاَ بَنُو إِسْرَائِيلَ لَمْ يَخْنَزِ اللَّحْمُ، وَلَوْلاَ حَوَّاءُ لَمْ تَخُنْ أُنْثَى زَوْجَهَا
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ اگر قوم بنی اسرائیل نہ ہوتی تو گوشت نہ سڑا کرتا اور اگر حوا نہ ہوتیں تو عورت اپنے شوہر سے دغا نہ کرتی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الرضاع/حدیث: 935]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 1 باب خلق آدم صلوات الله عليه وذريته»


Previous    1    2