سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے شادی کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ کس سے شادی کی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایک بیوہ عورت سے آپ نے فرمایا کنواری سے کیوں نہ کی کہ اس کے ساتھ تم کھیل کود کرتے؟ محارب (سند کے ایک راوی) نے کہا کہ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد عمرو بن دینار سے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے سیّدنا جابر بن عبداللہ سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تم نے کسی کنواری عورت سے شادی کیوں نہ کی کہ تم اس کے ساتھ کھیل کود کرتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الرضاع/حدیث: 929]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 67 كتاب النكاح: 10 باب تزويج الثيبات»
وضاحت: بیوہ سے نکاح جائز ہے گو کنواری سے شادی کرنا بہتر ہے۔ہندوستان میں پہلے مسلمانوں کے یہاں بھی بیوگان کو معیوب سمجھا جاتاتھامگر سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ نے اس رسم بد کے خلاف جہاد کیا اور اسے عملاً ختم کرایا۔(راز) ایک سے زیادہ شادیاں ہمارے ہندوانہ معاشرے میں ناپسندیدہ عمل ہے لیکن اس کے ان گنت فوائد ہیں۔ کتنی ہی باحیا اور عفت مآب خواتین اس طرح کسی مرد کی کفالت میں آ جاتی ہیں اور ایک صاف ستھری پاکیزہ زندگی گزارنے لگتی ہیں۔ ہم صرف نام کے مسلمان ہیں، کام کے نہیں۔ اس لیے ہم اس نیک اور فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق عمل کو بھی ناپسند کرتے ہیں۔ ہاں فی زمانہ علماء امت میں اس کا رواج دیگر طبقات کی نسبت قدرے زیادہ ہے۔