سیّدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو اطلاع کرائی کہ میرا ایک لڑکا مرنے کے قریب ہے اس لئے آپ تشریف لائیں آپ نے انہیں سلام کہلوایا اور کہلوایا کہ اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے جو لے لیا وہ اسی کا تھا اور جو اس نے دیا وہ بھی اسی کا تھا اور ہر چیز اس کی بارگاہ سے وقت مقررہ پر ہی واقع ہوتی ہے اس لئے صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو پھر سیدہ زینب رضی اللہ عنہ نے قسم دے کر اپنے یہاں بلوا بھیجا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانے کے لئے اٹھے آپ کے ساتھ سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا گیا جس کی جانکنی کا عالم تھا جیسے پرانا مشکیزہ ہوتا ہے (اور پانی کے ٹکرانے کی اندر سے آواز آتی ہے اسی طرح جانکنی کے وقت بچہ کے حلق سے آواز آ رہی تھی) یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ سعد رضی اللہ عنہ بول اٹھے کہ یا رسول اللہ یہ رونا کیسا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے (نیک) بندوں کے دلوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے ان رحم دل بندوں پر رحم فرماتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 531]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 32 كتاب الجنائز: 33 باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم يعذب الميت ببعض بُكاء أهله عليه»
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ سیّدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لئے عبدالرحمن بن عوف سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے یہاں تشریف لے گئے جب آپ اندر گئے تو تیمار داروں کے ہجوم میں انہیں پایا آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا وفات ہو گئی؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے مرض کی شدت کو دیکھ کر) رو پڑے لوگوں نے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ سب بھی رونے لگے پھر آپ نے فرمایا کہ سنو اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر بھی عذاب نہیں کرے گا اور نہ دل کے غم پر ہاں اس کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے آپ نے زبان کی طرف اشارہ کیا (اور اگر اس زبان سے اچھی بات نکلے تو) یہ اس کی رحمت کا بھی باعث بنتی ہے اور میت کو اس کے گھر والوں کے نوحہ و ماتم کی وجہ سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 532]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 54 باب البكاء عند المريض»
266. باب في الصبر على المصيبة عند أول الصدمة
266. باب: ابتدائے صدمہ میں مصیبت پر صبر کرنے کا بیان
مطلب یہ ہے کہ معذرت کی ضرورت نہیں کیونکہ میری عادت یہ ہے کہ صرف اللہ کے لیے غصہ ہوتا ہوں باقی تو اس طرف غور کر کہ تو نے رونے کی وجہ سے بہت بڑا ثواب ضائع کر دیا ہے، اور اچانک مصیبت آنے پر صبر نہیں کیا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت کی حالت میں اس کے سینے سے نکلنے والی آگ اور غلطی کو معاف کر دیا، کیونکہ اسے علم ہی نہ تھا۔ اور اس کے لیے واضح کیا کہ اصل صبر وہ ہے جو مصیبت میں ابتداء ہی میں کیا جائے، جس سے ثواب حاصل ہوتا ہے۔(مرتبؒ)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 533]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 32 باب زيارة القبور»
267. باب الميت يعذب ببكاء أهله عليه
267. باب: میت کو گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جانے کا بیان
حدیث نمبر: 534
534 صحيح حديث عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ
سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کو اس پر نوحہ کئے جانے کی وجہ سے بھی قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 534]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 34 باب ما يكره من النياحة على الميت»
سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو سیّدنا صہیب رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے (آئے) ہائے میرے بھائی اس پر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مردے کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے؟ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 535]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 32 باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه»
حضرت عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی (ام ابان) کا مکہ میں انتقال ہو گیا تھا ہم بھی ان کے جنازے میں حاضر ہوئے سیّدنا عبداللہ بن عمر اور سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی تشریف لائے میں ان دونوں حضرات کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا یا یہ کہا کہ میں ایک بزرگ کے قریب بیٹھ گیا اور دوسرے بزرگ بعد میں آئے اور میرے بازو میں بیٹھ گئے سیّدنا عبداللہ بن عمر نے عمرو بن عثمان سے کہا (جو ام ابان کے بھائی تھے) رونے سے کیوں نہیں روکتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ میت پر گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے اس پر سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بھی تائید کی کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی فرمایا تھا پھر آپ بیان کرنے لگے کہ میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے چلا جب ہم بیداء تک پہنچے تو سامنے ایک ببول کے درخت کے نیچے چند سوار نظر پڑے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جا کر دیکھو تو سہی یہ کون لوگ ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا تو سیّدنا صہیب رضی اللہ عنہ تھے پھر جب اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کہ انہیں بلا لاؤ میں سیّدنا صہیب رضی اللہ عنہ کے پاس دوبارہ آیا اور کہا کہ چلئے امیرالمومنین بلاتے ہیں چنانچہ وہ خدمت میں حاضر ہوئے (خیر یہ قصہ تو ہو چکا) پھر جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ زخمی کئے گئے تو صہیب رضی اللہ عنہ روتے ہوئے اندر داخل ہوئے وہ کہہ رہے تھے ہائے میرے بھائی ہائے میرے صاحب اس پر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صہیب تم مجھ پر روتے ہو تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو میں نے اس حدیث کا ذکر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی رحمت عمر پر ہو بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اللہ مومن پر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب کرے گا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کافر کا عذاب اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اور زیادہ کر دیتا ہے اس کے بعد کہنے لگیں کہ قرآن کی یہ آیت تم کو بس کرتی ہے کہ کوئی کسی کے گناہ کا ذمہ دار اور اس کا بوجھ اٹھانے والا نہیں (الانعام ۱۶۴) اس پر سیّدنا ابن عباس نے اس وقت (یعنی ام ابان کے جنازے میں) سورہ نجم کی یہ آیت پڑھی اور اللہ ہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ خدا کی قسم سیّدنا ابن عباس کی یہ تقریر سن کر سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمانے کچھ جواب نہیں دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 536]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 33 باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه»
عروہ رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے سامنے کسی نے اس کا ذکر کیا کہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ میت کو قبر میں اس کے گھر والوں کے اس پر رونے سے بھی عذاب ہوتا ہے اس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ میت پر عذاب اس کی بد عملیوں اور گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کے گھر والے ہیں کہ اب بھی اس کی جدائی میں روتے رہتے ہیں انہوں نے کہا کہ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے اس کنویں پر کھڑے ہو کر جس میں مشرکین کی لاشیں ڈال دی گئی تھیں ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ اسے سن رہے ہیں تو آپ کے فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ اب انہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ ان سے میں جو کچھ کہا کرتا تھا وہ حق تھا پھر انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے (النمل ۸۰) اور جو لوگ قبروں میں دفن ہو چکے ہیں انہیں آپ اپنی بات نہیں سنا سکتے (الفاطر ۲۲) عروہ کہتے ہیں (آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے) جو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا چکے ہیں) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 537]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازى: 8 باب قتل أبي جهل»
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک یہودی عورت پر ہوا جس کے مرنے پر اس کے گھر والے رو رہے تھے اس وقت آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ رو رہے ہیں حالانکہ اس کو قبر میں عذاب کیا جا رہا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 538]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 33 باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه»
حدیث نمبر: 539
539 صحيح حديث الْمُغِيرَةِ رضي الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ نِيحَ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ
سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کسی میت پر اگر نوحہ و ماتم کیا جائے تو اس نوحہ کی وجہ سے بھی اس پر عذاب ہوتا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 539]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 34 باب ما يكره من النياحة على الميت»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیّدنا زید بن حارثہ، سیّدنا جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی شہادت (غزوہ موتہ میں) کی خبر ملی تو آپ اس وقت اس طرح تشریف فرما تھے کہ غم کے آثار آپ کے چہرے پر ظاہر تھے میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی اتنے میں ایک صاحب آئے اور سیّدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر کی عورتوں کے رونے کا ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ انہیں رونے سے منع کر دو وہ گئے لیکن واپس آ کر کہا کہ وہ تو نہیں مانتیں آپ نے پھر فرمایا کہ انہیں منع کر دو اب وہ تیسری مرتبہ واپس ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ قسم اللہ کی وہ تو ہم پر غالب آ گئی ہیں (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکو) یقین ہوا کہ (ان کے اس کہنے پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے اس پر میں نے کہا کہ تیرا برا ہو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب جس کام کا حکم دے رہے ہیں وہ تو کرو گے نہیں لیکن آپ کو تکلیف میں ڈال دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 540]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 41 باب من جلس عند المصيبة يعرف فيه الحزن»