عروہ رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے سامنے کسی نے اس کا ذکر کیا کہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ میت کو قبر میں اس کے گھر والوں کے اس پر رونے سے بھی عذاب ہوتا ہے اس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ میت پر عذاب اس کی بد عملیوں اور گناہوں کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس کے گھر والے ہیں کہ اب بھی اس کی جدائی میں روتے رہتے ہیں انہوں نے کہا کہ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے اس کنویں پر کھڑے ہو کر جس میں مشرکین کی لاشیں ڈال دی گئی تھیں ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ اسے سن رہے ہیں تو آپ کے فرمانے کا مقصد یہ تھا کہ اب انہیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ ان سے میں جو کچھ کہا کرتا تھا وہ حق تھا پھر انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے (النمل ۸۰) اور جو لوگ قبروں میں دفن ہو چکے ہیں انہیں آپ اپنی بات نہیں سنا سکتے (الفاطر ۲۲) عروہ کہتے ہیں (آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے) جو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا چکے ہیں) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 537]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازى: 8 باب قتل أبي جهل»
وضاحت: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے اس حقیقت پر محمول کیا ہے اسی وجہ سے انہیںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (ما امنتم باسمع لما اقول منہم) کی تاویل کی ضرورت پڑی۔ مفسرین کی ایک جماعت وغیرہ کا خیال یہ ہے کہ یہ مجاز ہے اور مردوں اور قبر والوں سے مراد کافر ہیں۔ انہیں مُرودں سے تشبیہ دی ہے حالانکہ وہ زندہ ہیں کیونکہ وہ اپنے کانوں اور قوت سمع سے فائدہ حاصل نہیں کرتے۔جس طرح کہ مردے قبروں میں چلے جانے اور مرنے کے بعد فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔یہ کافر ہدایت اور دعوت اسلام سے مستفید نہیں ہوتے۔ اس طرح ان آیات میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی نفی کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔(مرتب)