مطلب یہ ہے کہ معذرت کی ضرورت نہیں کیونکہ میری عادت یہ ہے کہ صرف اللہ کے لیے غصہ ہوتا ہوں باقی تو اس طرف غور کر کہ تو نے رونے کی وجہ سے بہت بڑا ثواب ضائع کر دیا ہے، اور اچانک مصیبت آنے پر صبر نہیں کیا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت کی حالت میں اس کے سینے سے نکلنے والی آگ اور غلطی کو معاف کر دیا، کیونکہ اسے علم ہی نہ تھا۔ اور اس کے لیے واضح کیا کہ اصل صبر وہ ہے جو مصیبت میں ابتداء ہی میں کیا جائے، جس سے ثواب حاصل ہوتا ہے۔(مرتبؒ)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 533]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 32 باب زيارة القبور»