1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


اللؤلؤ والمرجان
كتاب الجنائز
کتاب: جنازے کے مسائل
266. باب في الصبر على المصيبة عند أول الصدمة
266. باب: ابتدائے صدمہ میں مصیبت پر صبر کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 533
533 صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ: اتَّقِي اللهَ وَاصْبِرِي قَالَتْ: إِلَيْكَ عَنِّي، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِيبَتِي وَلَمْ تَعْرِفْهُ فَقِيلَ لَهَا: إِنَّهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَأَتَتْ بَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَهُ بَوَّابِينَ؛ فَقَالَتْ: لَمْ أَعْرِفْكَ فَقَالَ: إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى
مطلب یہ ہے کہ معذرت کی ضرورت نہیں کیونکہ میری عادت یہ ہے کہ صرف اللہ کے لیے غصہ ہوتا ہوں باقی تو اس طرف غور کر کہ تو نے رونے کی وجہ سے بہت بڑا ثواب ضائع کر دیا ہے، اور اچانک مصیبت آنے پر صبر نہیں کیا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت کی حالت میں اس کے سینے سے نکلنے والی آگ اور غلطی کو معاف کر دیا، کیونکہ اسے علم ہی نہ تھا۔ اور اس کے لیے واضح کیا کہ اصل صبر وہ ہے جو مصیبت میں ابتداء ہی میں کیا جائے، جس سے ثواب حاصل ہوتا ہے۔(مرتبؒ) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الجنائز/حدیث: 533]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 32 باب زيارة القبور»