سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے کہا یا رسول اللہ کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تم کو سورج اور چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے جب کہ آسمان بھی صاف ہو؟ہم نے کہا کہ نہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے رب کے دیدار میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں پیش آئے گی جس طرح سورج اور چاند کو دیکھنے میں نہیں پیش آتی پھر آپ نے فرمایا کہ ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ہر قوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ پوجا کرتی تھی چنانچہ صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ اور تمام جھوٹے معبودوں کے پجاری اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ چلے جائیں گے (جیسے قبروں کے پجاری ان قبروں کے ساتھ تعزیے جھنڈے اور علم پوجنے والے ان کے ساتھ چلے جائیں گے) اور صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔ان میں نیک و بد دونوں قسم کے مسلمان ہوں گے اور اہل کتاب کے کچھ باقی ماندہ لوگ بھی ہوں گے پھر دوزخ ان کے سامنے پیش کی جائے گی وہ ایسی چمکدار ہو گی جیسے میدان کی ریت ہوتی ہے (جو دور سے پانی معلوم ہوتا ہے) پھر یہود سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کو پوچا کرتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ہم عزیر بن اللہ کی پوجا کرتے تھے انہیں جواب ملے گا کہ تم جھوٹے ہو خدا کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی لڑکا تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم پانی پینا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے سیراب کیا جائے ان سے کہا جائے گا کہ پیو۔ وہ اس چمکتی ریت کی طرف پانی جان کر چلیں گے اور پھر وہ جہنم میں ڈال دئیے جائیں گے پھر نصاری سے کہا جائے گا کہ تم کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم مسیح بن اللہ کی پوجا کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو اللہ کی نہ بیوی تھی اور نہ کوئی بچہ اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پانی سے ہمیں سیراب کیا جائے ان سے کہا جائے گا کہ پیو (ان کو بھی اس چمکتی ریت کی طرف چلایا جائے گا) اور انہیں بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا یہاں تک کہ وہی باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ عبادت کرتے تھے نیک و بد دونوں قسم کے مسلمان ان سے کہا جائے گا کہ تم لوگ کیوں رکے ہوئے ہو جب کہ سب لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم دنیا میں ان سے ایسے وقت جدا ہوئے کہ ہمیں ان کی دنیاوی فائدوں کے لئے بہت زیادہ ضرورت تھی اور ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا ہے کہ ہر قوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ عبادت کرتی تھی اور ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ بیان کیا کہ پھر اللہ جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں لوگ کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور اس دن انبیاء کے سوا اور کوئی بات نہیں کرے گا پھر پوچھے گا کیا تمہیں اس کی کوئی نشانی معلوم ہے؟ وہ کہیں گے کہ ساق (پنڈلی) پھر اللہ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے لئے سجدہ میں گر جائے گا صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھاوے اور شہرت کے لئے اسے سجدہ کرتے تھے وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح ہو کر رہ جائے گی پھر انہیں پل پر لایا جائے گا ہم نے پوچھا یارسول اللہ! پل کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک پھسلوان گرنے کا مقام ہے اس پر سنسنیاں ہیں آنکڑے ہیں چوڑے چوڑے کانٹے ہیں ان کے سر خمدار سعدان کے کانٹوں کی طرح ہیں جو نجد کے ملک میں ہوتے ہیں مومن اس پر پلک مارنے کی طرح بجلی کی طرح ہوا کی طرح تیز رفتار گھوڑے اور سواری کی طرح گذر جائیں گے ان میں بعض تو صحیح سلامت نجات پانے والے ہوں گے اور بعض جہنم کی آگ سے جھلس کر بچ نکلنے والے ہوں گے یہاں تک کہ آخری شخص اس پر سے گھسٹتے ہوئے گذرے گا تم لوگ آج کے دن اپنا حق لینے کے لیے جتنا تقاضا اور مطالبہ مجھ سے کرتے ہو اس سے زیادہ مسلمان لوگ اللہ سے تقاضا اور مطالبہ کریں گے۔ اور جب وہ دیکھیں گے کہ اپنے بھائیوں میں سے انہیں نجات ملی ہے تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دوسرے (نیک) اعمال کرتے تھے (ان کو بھی دوزخ سے نجات فرما) چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ایک اشرفی کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ چنانچہ جن کو وہ پہچانتے ہوں گے ان کو نکالیں گے پھر وہ واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ چنانچہ پہچاننے والوں کو نکال لیں گے۔ سیّدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے (اس پر) کہا کہ اگر تم میری تصدیق نہیں کرتے تو یہ آیت پڑھو اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا اگر نیکی ہے تو اسے بڑھاتا ہے (النساء۴۰) پھر انبیاء اور مومنین اور فرشتے شفاعت کریں گے اور پروردگار کا ارشاد ہو گا کہ اب خاص میری شفاعت باقی رہ گئی ہے چنانچہ اللہ پاک دوزخ سے ایک مٹھی بھر لے گا اور ایسے لوگوں کو نکالے گا جو کوئلہ ہو گئے ہوں گے پھر وہ جنت کے سرے پر ایک نہر میں ڈال دئیے جائیں گے جسے نہر آب حیات کہا جاتا ہے اور یہ لوگ اس کے کنارے سے اس طرح ابھریں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ ابھر آتا ہے تم نے یہ منظر کسی چٹان کے یا کسی درخت کے کنارے دیکھا ہو گا تو جس پر دھوپ پڑتی رہتی ہے وہ سبز ابھرتا ہے اور جس پر سایہ ہوتا ہے وہ سفید ابھرتا ہے پھر وہ اس طرح نکلیں گے جیسے موتی چمکتا ہے اس کے بعد ان کی گردنوں پر مہر کر دی جائیں گی (کہ یہ اللہ کے آزاد کردہ غلام ہیں) اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا اہل جنت انہیں ”عتقاء الرحمن“(رحم کرنے والے اللہ کے آزاد کردہ بندے) کہیں گے انہیں اللہ نے بلا عمل کے جو انہوں نے کیا ہو اور بلا خیر کے جو ان سے صادر ہوئی ہو جنت میں داخل کیا ہے اور ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو تم دیکھتے ہو اور اتنا ہی اور بھی ملے گا (یہ اس امت کے گنہگار بے عمل لوگ ہوں گے)[اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 115]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 97 كتاب التوحيد: 24 باب قول الله تعالى: (وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة»
63. باب إِثبات الشفاعة وإِخراج الموحدين من النار
63. باب: شفاعت کا ثبوت اور موحدوں کا جہنم سے نکالا جانا
سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے اللہ پاک فرمائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو اس کو بھی دوزخ سے نکال لو۔ تب (ایسے لوگ) دوزخ سے نکال لئے جائیں گے۔ اور وہ جل کر کوئلے کی طرح سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر زندگی کی نہر میں یا بارش کے پانی میں ڈالے جائیں گے۔ (یہاں راوی کو شک ہو گیا ہے کہ کون سا لفظ استعمال کیا) اس وقت وہ دانے کی طرح اگ آئیں گے جس طرح ندی کے کنارے دانے اگ آتے ہیں کیا تم نے نہیں دیکھا کہ دانہ زردی مائل پیچ در پیچ نکلتا ہے؟ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 116]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في 2 كتاب الإيمان: 15 باب تفاضل أهل الإيمان في الأعمال»
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ اہل جہنم میں سے کون سب سے آخر میں وہاں سے نکلے گا اور اہل جنت میں کون سب سے آخر میں اس میں داخل ہو گا۔ ایک شخص جہنم سے گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے نکلے گا اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا کہ جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ، وہ جنت کے پاس آئے گا لیکن اسے ایسا معلوم ہو گا کہ جنت بھری ہوئی ہے چنانچہ وہ واپس آئے گا اور عرض کرے گا اے میرے رب میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا، اللہ تعالیٰ پھر اس سے کہے گا کہ جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ وہ پھر آئے گا لیکن اسے ایسا معلوم ہو گا کہ جنت بھری ہوئی ہے وہ واپس لوٹے گا اور عرض کرے گا کہ اے رب میں نے جنت کو بھرا ہوا پایا اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ اور جنت میں داخل ہو جاؤ تمہیں دنیا اور اس سے دس گنا دیا جاتا ہے یا (اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ) تمہیں دنیا کے دس گنا دیا جاتا ہے وہ شخص کہے گا تو میرا مذاق بناتا ہے حالانکہ تو شہنشاہ ہے میں نے دیکھا کہ اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے اور آپ کے آگے کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے اور کہا جاتا ہے کہ وہ جنت کا سب سے کم درجے والا شخص ہو گا۔ٖ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 117]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في 81 كتاب الرقاق: 51 باب صفة الجنة والنار»
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا اس وقت لوگ کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے حضور کسی کی شفاعت لے جائیں تو نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے ممکن ہے، ہم اپنی اس حالت سے نجات پا جائیں۔ چنانچہ لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے آپ ہی وہ بزرگ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ کے اندر اپنی چھپائی ہوئی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ ہمارے رب کے حضور ہماری شفاعت کر دیں وہ کہیں گے کہ میں تو اس لائق نہیں ہوں پھر وہ اپنی لغزش یاد کریں گے اور کہیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں وہ اپنی لغزش کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن یہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں اپنی خطا کا ذکر کریں اور کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ عیسیٰ کے پاس جاؤ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے اس وقت میں اپنے رب سے (شفاعت کی) اجازت چاہوں گا اور سجدہ میں گر جاؤں گا اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا پھر کہا جائے کہ اپنا سر اٹھا لو مانگو دیا جائے گا کہو سنا جائے گا شفاعت کرو شفاعت قبول کی جائے گی میں اپنے رب کی اس وقت ایسی حمد بیان کروں گا کہ جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا پھر شفاعت کروں گااور میرے لئے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کروں گا اور اسی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا تیسری یا چوتھی مرتبہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روکا ہے (یعنی جن کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ ہے)[اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 118]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 51 باب صفة الجنة والنار»
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کا دن جب آئے گا تو لوگ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح ظاہر ہوں گے پھر وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ ہماری اپنے رب کے پاس شفاعت کیجئے وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ کے خلیل ہیں لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں ہاں تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ اللہ سے شرف ہم کلامی پانے والے ہیں لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں البتہ تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کہ وہ اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں چنانچہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں ہاں تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں کہوں گا کہ میں شفاعت کے لئے ہوں اور پھر میں اپنے رب سے اجازت چاہوں گا اور مجھے اجازت دی جائے گی اور اللہ تعالیٰ تعریفوں کے الفاظ مجھے الہام کرے گا جن کے ذریعہ میں اللہ کی حمد بیان کروں گا جو اس وقت مجھے یاد نہیں ہیں چنانچہ جب میں یہ تعریفیں بیان کروں گا اور اللہ کے حضور سجدہ کرنے والا ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا اے محمد اپنا سر اٹھاؤ جو کہو گے وہ سنا جائے گا جو مانگو گے وہ دیا جائے گا جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی (یہ سن کر) میں کہوں گا اے رب میری امت میری امت کہا جائے گا کہ جاؤ اور ان سب کو نکال لاؤ جن کے دل میں جو کے دانے برابر بھی ایمان ہو چنانچہ میں جاؤں گا اور ایسا ہی کروں گا پھر میں واپس آؤں گا اور اللہ رب العزت کی یہی تعریفیں ایک بار پھر کروں گا اور اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو مجھ سے کہا جائے گا اے محمد اپنا سر اٹھاؤ جو کہو وہ سنا جائے گا جو مانگو گے وہ دیا جائے گا جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی پھر میں کہوں گا اے رب میری امت میری امت کہا جائے گا کہ جاؤ اور ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لو جن کے دل میں ذرہ یا رائی برابر بھی ایمان ہو چنانچہ میں جاؤں گا اور ایسا ہی کروں گا پھر میں لوٹوں گا اور یہی تعریفیں پھر کروں گا اور اللہ کے لئے سجدہ میں چلا جاؤں گا مجھ سے کہا جائے گا اپنا سراٹھاؤ جو کہو گے سنا جائے گا جو مانگو گے دیا جائے گا جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گیمیں کہوں گا اے رب میری امت میری امت اللہ تعالیٰ فرمائے گا جاؤ اور جس کے دل میں ایک رائی کے دانہ کے کم سے کم تر حصہ کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی جہنم سے نکال لو میں پھر جاؤں گا اور نکالوں گا پھر میں چوتھی مرتبہ لوٹوں گا اور وہی تعریفیں کروں گا اور اللہ تعالیٰ کے لئے سجدہ میں چلا جاؤں گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے محمد اپنا سر اٹھاؤ جو کہو گے سنا جائے گا جو مانگو گے دیا جائے گا جو شفاعت کرو گے قبول کی جائے گی میں کہوں گا اے رب مجھے ان کے بارے میں بھی اجازت دیجئے جنہوں نے لا الہ الا اللہ کہا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا میری عزت میرے جلال میری کبریائی میری بڑائی کی قسم اس میں سے انہیں بھی نکالوں گا جنہوں نے کلمہ لا الہ الا اللہ کہا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 119]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 97 كتاب التوحيد: 36 باب كلام الرب عز وجل يوم القيامة مع الأنبياء وغيرهم»
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا تو آپ نے اپنے دانتوں سے اسے ایک بار نوچا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دستی کا گوشت بہت پسند تھا پھر آپ نے فرمایا قیامت کے دن میں سب لوگوں کا سردار ہوں گا تمہیں معلوم بھی ہے یہ کونسا دن ہو گا؟ اس دن دنیا کے شروع سے قیامت کے دن تک کی ساری خلقت ایک چٹیل میدان میں جمع ہو گی کہ ایک پکارنے والے کی آواز سب کے کانوں تک پہنچ سکے گی اور ایک نظر سب کو دیکھ سکے گی سورج بالکل قریب ہو جائے گا اور لوگوں کی پریشانی اور بے قراری کی کوئی حد نہ رہے گی جو برداشت سے باہر ہو جائے گی لوگ آپس میں کہیں گے دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے کیا کوئی ایسا مقبول بندہ نہیں ہے جو اللہ پاک کی بارگاہ میں تمہاری شفاعت کرے؟ بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ حضرت آدم کے پاس چلنا چاہیے چنانچہ سب لوگ حضرت آدم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لئے آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت کر دیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں حضرت آدم کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی پس مجھ کو اپنی جان کی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ ہاں حضرت نوح پاس جاؤ چنانچہ سب لوگ حضرت نوح کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے نوح آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے شکر گذار بندہ کا خطاب دیا آپ ہی ہمارے لئے اپنے رب کے نبی حضور شفاعت کر دیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں حضرت نوح بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرا سوا کسی اور کے پاس جاؤ حضرت ابراہیم کے پاس جاؤ سب لوگ حضرت ابراہیم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے ابراہیم آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب آپ ہماری شفاعت کیجئے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں حضرت ابراہیم بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے بس مجھ کو اپنے نفس کی فکر ہے میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ہاں حضرت موسیٰ کے پاس جاؤ سب لوگ حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور کریں آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں حضرت موسیٰ کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے اتنا غضبناک کہ وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا نفسی نفسی نفسی بس مجھ کو آج اپنی فکر ہے میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ہاں عیسیٰ کے پاس جاؤ سب لوگ حضرت عیسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے عیسیٰ آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی ہماری شفاعت کیجئے آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے حضرت عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے (صرف) اتنا کہیں گے نفسی نفسی نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ سب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے لوگ بعض سے کہیں گے کہ حضرت آدم کے پاس چلنا چاہیے چنانچہ سب لوگ حضرت آدم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے آپ انسانوں کے پردادا ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اس لئے آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت کر دیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حال کو پہنچ چکے ہیں حضرت آدم کہیں گے کہ میرا رب آج انتہائی غضبناک ہے اس سے پہلے اتنا غضبناک وہ کبھی نہیں ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور رب العزت نے مجھے بھی درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی پس مجھ کو اپنی جان کی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ ہاں حضرت نوح پاس جاؤ چنانچہ سب لوگ حضرت نوح کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے نوح آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف بھیجے گئے تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے شکر گذار بندہ کا خطاب دیا آپ ہی ہمارے لئے اپنے رب کے نبی حضور شفاعت کر دیں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ گئے ہیں حضرت نوح بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں تھا اور نہ آج کے بعد کبھی اتنا غضبناک ہو گا اور مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا گیا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی آج مجھ کو اپنے ہی نفس کی فکر ہے تم میرا سوا کسی اور کے پاس جاؤ حضرت ابراہیم کے پاس جاؤ سب لوگ حضرت ابراہیم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے ابراہیم آپ اللہ کے نبی اور اللہ کے خلیل ہیں روئے زمین میں منتخب آپ ہماری شفاعت کیجئے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں حضرت ابراہیم بھی کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غضبناک ہے؟ اتنا غضبناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا اور میں نے تین جھوٹ بولے تھے بس مجھ کو اپنے نفس کی فکر ہے میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ہاں حضرت موسیٰ کے پاس جاؤ سب لوگ حضرت موسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے موسیٰ آپ اللہ کے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور اپنے کلام کے ذریعہ فضیلت دی آپ ہماری شفاعت اپنے رب کے حضور کریں آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں حضرت موسیٰ کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ بہت غضبناک ہے اتنا غضبناک کہ وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آج کے بعد کبھی ہو گا اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا حالانکہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی حکم نہیں ملا تھا نفسی نفسی نفسی بس مجھ کو آج اپنی فکر ہے میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ہاں عیسیٰ کے پاس جاؤ سب لوگ حضرت عیسیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے اے عیسیٰ آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ نے مریم پر ڈالا تھا اور اللہ کی طرف سے روح ہیں آپ نے بچپن میں ماں کی گود ہی میں لوگوں سے بات کی تھی ہماری شفاعت کیجئے آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہماری کیا حالت ہو چکی ہے حضرت عیسیٰ بھی کہیں گے کہ میرا رب آج اس درجہ غضبناک ہے کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک ہوا تھا اور نہ کبھی ہو گا اور آپ کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے (صرف) اتنا کہیں گے نفسی نفسی نفسی میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ سب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ اللہ کے رسول اور سب سے آخری پیغمبر ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے ہیں اپنے رب کے دربار میں ہماری شفاعت کیجئے آپ خود ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ہم کس حالت کو پہنچ چکے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخر میں آگے بڑھوں گا اور عرش تلے [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 120]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 17 سورة الإسراء: 5 باب ذرية من حملنا مع نوح»
66. باب اختباء النبي صلی اللہ علیہ وسلم دعوة الشفاعة لأُمته
66. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی شفاعت کی دعا کو اپنی امت کے لیے چھپا رکھنے کا بیان
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کی ایک دعا قبول ہوتی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ اگر اللہ نے چاہا تو اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے محفوظ رکھوں۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 121]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 97 كتاب التوحيد: 31 باب قوله تعالى (قل لو كان البحر مدادًا لكلمات ربي»
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی نے کچھ چیزیں مانگیں یا فرمایا کہ ہر نبی کو ایک دعا دی گئی جس چیز کی اس نے دعا مانگی اور پھر اسے قبول کیا گیا لیکن میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے محفوظ رکھی ہوئی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 122]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 80 كتاب الدعوات: 1 باب لكل نبي دعوة مستجابة»
67. باب في قوله تعالى: (وأنذر عشيرتك الأقربين)
67. باب: اللہ تعالیٰ کے قول (وانذر عشیرتک الاقربین) کے بیان میں
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: ”اور اپنے نزدیک ناطے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرا۔“(الشعراء ۲۱۴) تو آپ نے یہ فرمایا قریش کے لوگو (یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ) تم لوگ اپنی اپنی جانوں کو (نیک اعمال کے بدل) خرید لو (بچا لو) میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا (یعنی اس کی مرضی کے خلاف میں کچھ نہیں کر سکتا) عبد مناف کے بیٹو میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا۔ اے عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آنے کا۔ صفیہ میری پھوپھی اللہ کے سامنے میں تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا اے فاطمہ میری بیٹی تو چاہے میرا مال مانگ لے لیکن اللہ کے سامنے میں تیرے کچھ کام نہیں آ سکوں گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 123]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 55 كتاب الوصايا: 11 باب هل يدخل النساء والولد في الأقارب»
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے اور اپنے گروہ کے ان لوگوں کو ڈراؤ جو مخلصین ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور پکارا یا صبا حاہ قریش نے کہا یہ کون ہے پھر وہاں سے سب آ کر جمع ہو گئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کے پیچھے سے آنے والا ہے تو کیا تم مجھ کو سچا نہیں سمجھو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں جھوٹ کا آپ سے تجربہ کبھی بھی نہیں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر میں تمہیں سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آ رہا ہے یہ سن کر ابولہب بولا تو تباہ ہو کیا تو نے ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا؟ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چلے آئے اور آپ پر سورہ لہب نازل ہوئی دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے ابولہب کے اور وہ برباد ہو گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 124]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 111 سورة تبت يدا أبي لهب وتب: 1 باب حدثنا يوسف»