سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے کہا یا رسول اللہ کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تم کو سورج اور چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے جب کہ آسمان بھی صاف ہو؟ہم نے کہا کہ نہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے رب کے دیدار میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں پیش آئے گی جس طرح سورج اور چاند کو دیکھنے میں نہیں پیش آتی پھر آپ نے فرمایا کہ ایک آواز دینے والا آواز دے گا کہ ہر قوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ پوجا کرتی تھی چنانچہ صلیب کے پجاری اپنی صلیب کے ساتھ بتوں کے پجاری اپنے بتوں کے ساتھ اور تمام جھوٹے معبودوں کے پجاری اپنے جھوٹے معبودوں کے ساتھ چلے جائیں گے (جیسے قبروں کے پجاری ان قبروں کے ساتھ تعزیے جھنڈے اور علم پوجنے والے ان کے ساتھ چلے جائیں گے) اور صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔ان میں نیک و بد دونوں قسم کے مسلمان ہوں گے اور اہل کتاب کے کچھ باقی ماندہ لوگ بھی ہوں گے پھر دوزخ ان کے سامنے پیش کی جائے گی وہ ایسی چمکدار ہو گی جیسے میدان کی ریت ہوتی ہے (جو دور سے پانی معلوم ہوتا ہے) پھر یہود سے پوچھا جائے گا کہ تم کس کو پوچا کرتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ ہم عزیر بن اللہ کی پوجا کرتے تھے انہیں جواب ملے گا کہ تم جھوٹے ہو خدا کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ کوئی لڑکا تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم پانی پینا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس سے سیراب کیا جائے ان سے کہا جائے گا کہ پیو۔ وہ اس چمکتی ریت کی طرف پانی جان کر چلیں گے اور پھر وہ جہنم میں ڈال دئیے جائیں گے پھر نصاری سے کہا جائے گا کہ تم کس کی پوجا کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم مسیح بن اللہ کی پوجا کرتے تھے۔ ان سے کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو اللہ کی نہ بیوی تھی اور نہ کوئی بچہ اب تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہم چاہتے ہیں کہ پانی سے ہمیں سیراب کیا جائے ان سے کہا جائے گا کہ پیو (ان کو بھی اس چمکتی ریت کی طرف چلایا جائے گا) اور انہیں بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا یہاں تک کہ وہی باقی رہ جائیں گے جو خالص اللہ عبادت کرتے تھے نیک و بد دونوں قسم کے مسلمان ان سے کہا جائے گا کہ تم لوگ کیوں رکے ہوئے ہو جب کہ سب لوگ جا چکے ہیں؟ وہ کہیں گے ہم دنیا میں ان سے ایسے وقت جدا ہوئے کہ ہمیں ان کی دنیاوی فائدوں کے لئے بہت زیادہ ضرورت تھی اور ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا ہے کہ ہر قوم اس کے ساتھ جائے جس کی وہ عبادت کرتی تھی اور ہم اپنے رب کے منتظر ہیں۔ بیان کیا کہ پھر اللہ جبار ان کے سامنے اس صورت کے علاوہ دوسری صورت میں آئے گا جس میں انہوں نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا ہو گا اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں لوگ کہیں گے کہ تو ہی ہمارا رب ہے اور اس دن انبیاء کے سوا اور کوئی بات نہیں کرے گا پھر پوچھے گا کیا تمہیں اس کی کوئی نشانی معلوم ہے؟ وہ کہیں گے کہ ساق (پنڈلی) پھر اللہ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے لئے سجدہ میں گر جائے گا صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھاوے اور شہرت کے لئے اسے سجدہ کرتے تھے وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تختہ کی طرح ہو کر رہ جائے گی پھر انہیں پل پر لایا جائے گا ہم نے پوچھا یارسول اللہ! پل کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک پھسلوان گرنے کا مقام ہے اس پر سنسنیاں ہیں آنکڑے ہیں چوڑے چوڑے کانٹے ہیں ان کے سر خمدار سعدان کے کانٹوں کی طرح ہیں جو نجد کے ملک میں ہوتے ہیں مومن اس پر پلک مارنے کی طرح بجلی کی طرح ہوا کی طرح تیز رفتار گھوڑے اور سواری کی طرح گذر جائیں گے ان میں بعض تو صحیح سلامت نجات پانے والے ہوں گے اور بعض جہنم کی آگ سے جھلس کر بچ نکلنے والے ہوں گے یہاں تک کہ آخری شخص اس پر سے گھسٹتے ہوئے گذرے گا تم لوگ آج کے دن اپنا حق لینے کے لیے جتنا تقاضا اور مطالبہ مجھ سے کرتے ہو اس سے زیادہ مسلمان لوگ اللہ سے تقاضا اور مطالبہ کریں گے۔ اور جب وہ دیکھیں گے کہ اپنے بھائیوں میں سے انہیں نجات ملی ہے تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دوسرے (نیک) اعمال کرتے تھے (ان کو بھی دوزخ سے نجات فرما) چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ایک اشرفی کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ چنانچہ جن کو وہ پہچانتے ہوں گے ان کو نکالیں گے پھر وہ واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ چنانچہ پہچاننے والوں کو نکال لیں گے۔ سیّدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ نے (اس پر) کہا کہ اگر تم میری تصدیق نہیں کرتے تو یہ آیت پڑھو اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا اگر نیکی ہے تو اسے بڑھاتا ہے (النساء۴۰) پھر انبیاء اور مومنین اور فرشتے شفاعت کریں گے اور پروردگار کا ارشاد ہو گا کہ اب خاص میری شفاعت باقی رہ گئی ہے چنانچہ اللہ پاک دوزخ سے ایک مٹھی بھر لے گا اور ایسے لوگوں کو نکالے گا جو کوئلہ ہو گئے ہوں گے پھر وہ جنت کے سرے پر ایک نہر میں ڈال دئیے جائیں گے جسے نہر آب حیات کہا جاتا ہے اور یہ لوگ اس کے کنارے سے اس طرح ابھریں گے جس طرح سیلاب کے کوڑے کرکٹ سے سبزہ ابھر آتا ہے تم نے یہ منظر کسی چٹان کے یا کسی درخت کے کنارے دیکھا ہو گا تو جس پر دھوپ پڑتی رہتی ہے وہ سبز ابھرتا ہے اور جس پر سایہ ہوتا ہے وہ سفید ابھرتا ہے پھر وہ اس طرح نکلیں گے جیسے موتی چمکتا ہے اس کے بعد ان کی گردنوں پر مہر کر دی جائیں گی (کہ یہ اللہ کے آزاد کردہ غلام ہیں) اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا اہل جنت انہیں ”عتقاء الرحمن“(رحم کرنے والے اللہ کے آزاد کردہ بندے) کہیں گے انہیں اللہ نے بلا عمل کے جو انہوں نے کیا ہو اور بلا خیر کے جو ان سے صادر ہوئی ہو جنت میں داخل کیا ہے اور ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں وہ سب کچھ ملے گا جو تم دیکھتے ہو اور اتنا ہی اور بھی ملے گا (یہ اس امت کے گنہگار بے عمل لوگ ہوں گے)[اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 115]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 97 كتاب التوحيد: 24 باب قول الله تعالى: (وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة»