مصعب بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کی پیدائش ہر خصلت پر ہو سکتی ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 591]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه شعب الايمان: 4469» اعمش اور ابواسحاق مدلس راویوں کا عنعنہ ہے۔
حکم بن عمیر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ایسی عمارتیں بناتے ہو جن میں رہائش نہیں کرسکتے اور مال جمع کرتے ہو جس کو کھا نہیں سکتے“ اور انہوں نے اس حدیث کو اختصار کے ساتھ بیان کیا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 592]
تخریج الحدیث: إسناده ضعيف جدا، موسیٰ بن ابی حبیب اور عیسیٰ بن ابراہیم ضعیف ہیں۔ اس میں اور بھی علتیں ہیں۔ دیکھئے: «السلسلة الضعيفة: 1179»
384. کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو آج کے دن کا استقبال تو کر رہے ہیں لیکن اسے پورا نہیں گزار سکیں گے اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو کل کے منتظر ہیں لیکن اسے پا نہیں سکیں گے
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وعظ کرتے ہوئے فرمایا: ”اے وہ انسان کہ جس کی انتہا موت ہے، اے وہ انسان کہ جس کی منزل قبر ہے، اے وہ انسان کہ جس کا لباس کفن ہے، اے وہ انسان کہ جس کا تکیہ مٹی ہے، اے وہ انسان کہ جس کے ہمسائے کیڑے مکوڑے ہیں، اے وہ انسان کہ جس کے ملاقاتی منکر ونکیر ہیں، اے وہ انسان کہ جو کل اپنی بیوی کو چھوڑ نے والا ہے، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو آج کے دن کا استقبال تو کر رہے ہیں لیکن اسے پورا نہیں گزار سکیں گے اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو کل کے منتظر ہیں لیکن اسے پا نہیں سکیں گے۔ اگر تم موت اور اس کی رفتار دیکھ لو تو ضرور امیدوں اور ان کے دھوکوں کو نا پسند کرنے لگو۔“[مسند الشهاب/حدیث: 593]
تخریج الحدیث: منکر، نوفل بن سلیمان اور ابوسعید حسن بن أحمد بن مبارک ضعیف ہیں۔
385. مجھے غافل پر تعجب ہے حالانکہ اس سے غفلت نہیں برتی جاری، مجھے دنیا کی آرزو کرنے والے پر تعجب ہے حالانکہ موت اس کی تلاش میں ہے، اور مجھے منہ پھاڑ کر ہنسنے والے پر تعجب ہے حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے اللہ کو راضی کیا ہے یا ناراض
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے غافل پر تعجب ہے حالانکہ اس سے غفلت نہیں برتی جاری، مجھے دنیا کی آرزو کرنے والے پر تعجب ہے حالانکہ موت اس کی تلاش میں ہے، اور مجھے منہ پھاڑ کر ہنسنے والے پر تعجب ہے حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ اس نے اللہ کو راضی کیا ہے یا ناراض۔“[مسند الشهاب/حدیث: 594]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه الكامل لابن عدى: 3/ 76، شعب الايمان: 10103» حمید اعرج سخت ضعیف ہے۔
ابوجعفر عبد الله بن مسور ہاشمی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص پر بہت ہی تعجب ہے جو اللہ کی قدرت میں شک کرتا ہے حالانکہ وہ اپنی تخلیق کو دیکھتا ہے، اس شخص پربہت ہی تعجب ہے جو دوبارہ زندہ ہونے کو جھٹلاتا ہے حالانکہ پہلی مرتبہ (زندہ ہونے) کو دیکھتا ہے، اس شخص پر بہت ہی تعجب ہے جو موت کے بعد زندہ ہونے کو جھٹلاتا ہے حالانکہ ہر دن اور ہر رات وہ مرتا ہے اور زندہ ہوتا ہے، اس شخص پربہت ہی تعجب ہے جو دائمی زندگی کے گھر کی تصدیق کرتا ہے لیکن دھو کے کے گھر کے لیے کوشاں رہتا ہے، اور اس شخص پر بھی بہت ہی تعجب ہے جو تکبر کرنے والا، اترانے والا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک نطفہ سے پیدا کیا گیا پھر گلی سٹری لاش بنے گا اور اس حالت میں وہ نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 595]
تخریج الحدیث: موضوع، ابوجعفر عبداللہ بن مسور کذاب ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مؤمن پر تعجب ہے، اللہ کی قسم! اللہ مومن کے لیے جو بھی فیصلہ فرماتا ہے وہ اس کے حق میں بہتر ہی ہوتا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 596]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 728، والضياء المقدسي فى "الأحاديث المختارة"، 1692، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12343، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4019، 4217، 4218، 4313» ابوخالد الاحمر مدلس کا عنعنہ ہے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قریب آچکی ہے اور لوگ دنیا کی حرص میں بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اور (اللہ سے) ان کی دوری میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 597]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 8012، والطبراني فى «الكبير» برقم: 9787»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن آدم بوڑھا ہو جاتا ہے اور اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں: مال کی حرص اور لمبی عمر کی حرص۔“ اسے امام مسلم نے یحییٰ بن یحییٰ، سعید بن منصور اور قتیبہ بن سعید سے اور ان سب نے ابوعوانہ سے اسی کی مثل روایت کیا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 598]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6421، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1047، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3229، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11765، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2339، 2455، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4234، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6602، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12325»
محمد بن عبد الرحمٰن قریشی کا بیان ہے کہ میں اعمش کے ہاں موجود تھا کہ کسی نے ان سے کہا: حسن بن عمارہ (حاکم) ظلم کرتا ہے تو انہوں نے کہا: حیرت کی بات ہے کہ ایک ظالم شخص ظلم کے کاموں پر مامور ہے، متکبر اور ظالم سے اس کے سوا اور کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ محمد بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں حسن بن عمارہ کے ہاں گیا تو اس بات کا ان سے تذکرہ کر دیا انہوں نے رومال اور کچھ کپڑے منگوا کر ایک آدمی کے ذریعے اعمش کے ہاں (بطور تحفہ) بھیجوا دیئے، اگلے دن میں اعمش کے پاس ذرا جلدی چلا گیا، میں نے سوچا کہ لوگوں کے آنے سے پہلے پہلے میں اپنی بات کرلوں، میں نے دوبارہ حسن بن عمارہ کا ذکر چھیڑ دیا، تو اعمش بولے:، واہ، واہ، حسن بن عمارہ کے توکیا کہنے؟ وہ کیسے اچھے اچھے کام کرتا ہے۔ تو میں نے عرض کیا: یہ وہی تو ہے جس کے متعلق کل آپ نے کیا کہا تھا؟ اور آج آپ اس کی مدح سرائی کر رہے ہیں، یہ کیا؟ تو فرمایا: تم ان باتوں کو چھوڑو، مجھ سے خیثمہ نے بروایت سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ فطری امر ہے کہ جو آدمی اچھا سلوک کرے، دل اس کی طرف میلان رکھتا ہے اور جو آدمی بدسلوکی کرے، دل اس سے نفرت کرتا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 599]
تخریج الحدیث: إسناده ضعيف جدا، محمد بن عبد الرحمٰن سخت ضعیف ہے۔
اسماعیل بن خیاط بیان کرتے ہیں کہ حسن بن عمارہ کو پتا چلاکہ اعمش نے ان کے بارے میں کچھ ناروا تبصرہ کیا ہے توحسن بن عمارہ نے کچھ کپڑے ان کو بھجوا دیئے۔ اس کے بعد اعمش نے حسن بن عمارہ کے بارے میں توصیفی انداز اختیار کر لیا تو ان سے اس تبدیلی کے بارے میں دریافت کیا گیا کہ پہلے تو آپ ان کی مذمت کرتے تھے اور اب ان کی مدح کر رہے ہیں؟ تو فرمایا، مجھ سے خیثمہ نے بروایت سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک یہ فطری امر ہے کہ دل۔۔۔“ ابن عدی فرماتے ہیں: میں نے اس حدیث کو صرف اسی استاذ سے مرفوعاً تحریر کیا ہے ورنہ یہ حدیث اعمش سے موقوفاً معروف ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 600]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه شعب الايمان: 8574، والكامل لابن عدي: 3/ 98» اسماعیل بن خیاط سخت ضعیف ہے، اس میں اور بھی علتیں ہیں۔