ابو معاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی انھوں نے اپنے والد (عروہ) سے انھوں نے حجرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: " اگر تمھا ری قوم کا زمانہ کفر قریب کا نہ ہو تا تو میں ضرور کعبہ کو گرا تا اور اسے حضرت ابراہیم ؑکی اساس پر استوار کرتا قریش نے جب بیت اللہ کو تعمیر کیا تھا تو اسے چھوٹا کر دیا تھا میں (اصل تعمیر کے مطا بق) اس کا پچھلا دروازہ بھی بناتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”اگر تیری قوم، کفر سے نئی نئی نہ نکلی ہوتی، تو میں کعبہ کو توڑ کر اس کو ابراہیمی بنیادوں پر استوار کرتا، کیونکہ قریش نے جب اسے (نئے سرے) سے تعمیر کیا، تو اسے کم کر دیا، اور میں اس کے پچھواڑے میں ایک دروازہ بناتا۔“
سالم بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہو ئے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیا تم نے نہیں دیکھا تمھاری قوم نے جب کعبہ تعمیر کیا تو اسے حضرت ابرا ہیم ؑ کی بنیا دوں سے کم کر دیا۔کہا میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!!کیا آپ اسے دوبارہ ابرا ہیمؑ کی بنیا دوں پر نہیں لو ٹا ئیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اگر تمھا ری قوم کا زمانہ کفر قریب کا نہ ہو تا تو میں (ضرورایسا) کرتا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اگر یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی تو میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے قریبی دونوں ارکان کا استلام اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے ترک کیا (ہو، اصل وجہ یہ تھی) کہ بیت اللہ ابرا ہیم ؑ کی بنیادوں پر پورا (تعمیر) نہیں کیا گیا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم نہیں ہے، تیری قوم نے جب کعبہ تعمیر کیا، اسے ابراہیمی بنیادوں سے کم کر دیا؟“ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ سلم! کیا آپ صلی اللہ علیہ سلم اسے ابراہیمی بنیادوں پر نہیں لوٹائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیری قوم کفر سے نئی نئی نہ نکلی ہوتی تو میں یہ کام کر دیتا۔“ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، اگر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے واقعی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، (یعنی یقینا سنی ہے) تو میرے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر (حطیم) کے قریبی رکنوں کو استلام کرنا اس لیے چھوڑا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر مکمل طور پر ابراہیمی بنیادوں پر نہیں ہوئی تھی۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام نافع کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن ابی بکر ابی قحانہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث سنارہے تھے انھوں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا: " اگر تمھا ری قوم جاہلیت۔۔۔یا فرمایا زمانہ کفر۔۔۔سے ابھی ابھی نہ نکلی ہو تی تو میں ضرورکعبہ کے خزانے اللہ کی را ہ میں خرچ کر دیتا اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دیتا اور حجر (حطیم) کو کعبہ میں شامل کر دیتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اگر تیری قوم نئی نئی دور جاہلیت یا دور کفر سے نہ نکلی ہوتی تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتا، اور میں اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دیتا، اور میں حجر کو اس میں داخل کر دیتا۔“
سعید یعنی ابن بیناء سے روایت ہے کہا میں نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے۔مجھ سے میری خالہ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " عائشہ! رضی اللہ عنہا اگر تمھاری قوم کا شرک کا زمانہ قریب کا نہ ہو تا تو میں ضرور کعبہ کو گرا تا اس (کے دروازے) کو زمین کے ساتھ لگا دیتا اور میں اس کے دو دروازے شرقی دروازہ اور دوسرا غربی دروازہ بنا تا اور حجر (حطیم) اسے چھ ہاتھ (کا حصہ) اس میں شامل کر دیتا۔بلا شبہ قریش نے جب کعبہ تعمیر کیا تھا تو اسے چھوٹا کر دیا
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میری خالہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اگر تیری قوم شرک سے نئی نئی نہ نکلی ہوتی تو میں کعبہ کو گرا کر اس کو زمین کے ساتھ ملا دیتا اور اس کے دو دروازے بناتا، ایک دروازہ مشرق کی جانب اور دوسرا دروازہ مغربی جانب اور حجر میں سے چھ ہاتھ کی جگہ کعبہ میں شامل کر دیتا، کیونکہ قریش نے جب کعبہ بنایا تھا، اتنا اس کو کم کر دیا تھا۔“
عطاء سے روایت ہے انھوں نے کہا یزید بن معاویہ کے دور میں جب اہل شام نے (مکہ پر) حملہ کیا اور کعبہ جل گیا تو اس کی جو حالت تھی سو تھی ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے (اسی حالت پر) رہنے دیا حتیٰ کہ حج کے موسم میں لوگ (مکہ) آنے لگے وہ چاہتے تھے کہ انھیں ہمت دلائیں۔۔یا اہل شام کے خلاف جنگ پر ابھاریں۔۔۔جب لوگ آئے تو انھوں نے کہا:اے لوگو! مجھے کعبہ کے بارے میں مشورہ دو میں اسے گرا کر (از سر نو) اس کی عمارت بنا دوں یا اس کا جو حصہ بوسیدہ ہو چکا ہے صرف اس کی مرمت کرا دوں؟ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میرے سامنے ایک رائے واضح ہوئی ہے میری رائے یہ ہے کہ اس کا بڑا حصہ کمزور ہو گیا ہے آپ اس کی مرمت کرا دیں اور بیت اللہ کو (اسی طرح باقی) رہنے دیں جس پر لوگ اسلا م لائے اور ان پتھروں کو (باقی چھوڑ دیں) جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو ئی، اس پر ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر تم میں سے کسی کا اپنا گھر جل جائے تو وہ اس وقت تک راضی نہیں ہو تا جب تک کہ اسے نیا (نہ) بنا لے تو تمھارے رب کے گھر کا کیا ہو؟ میں تین دن اپنے رب سے استخارہ کروں گا پھر اپنے کام کا پختہ عزم کروں گا۔ جب تین دن گزر گئے تو انھوں نے اپنی رائے پختہ کر لی کہ اسے گرا دیں تو لوگ (اس ڈرسے) اس سے بچنے لگے کہ جو شخص اس (عمارت) پر سب سے پہلے چڑھے گا اس پر آسمان سے کوئی آفت نازل ہو جا ئے گی یہاں تک کہ ایک آدمی اس پر چڑھا اور اس سے ایک پتھر گرا دیا جب لوگوں نے دیکھا کہ اسے کچھ نہیں ہوا تو لوگ ایک دوسرے کے پیچھے (گرانے لگے) حتیٰ کہ اسے زمین تک پہنچا دیا۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے چند (عارضی) ستون بنائے اور پردے ان پر لٹکا دیے یہاں تک کہ اس کی عمارت بلند ہو گئی۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے سنا بلاشبہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اگر لوگوں کے کفر کا زمانہ قریب کا نہ ہوتا اور میرے پاس اتنا مال بھی نہیں جو اس کی تعمیر (مکمل کرنے) میں میرا معاون ہو تو میں حطیم سے پانچ ہاتھ (زمین) اس میں ضرور شامل کرتا اور اس کا ایک (ایسا) دروازہ بناتا جس سے لوگ اندر داخل ہو تے اور ایک دروازہ (ایسا بناتا) جس سے باہر نکلتے۔ (ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے) کہا آج میرے پاس اتنا مال ہے جو خرچ کر سکتا ہوں اور مجھے لوگوں کا خوف بھی نہیں (عطاء نے) کہا تو انھوں نے حطیم سے پانچ ہاتھ اس میں شامل کیے (کھدائی کی) حتیٰ کہ انھوں نے ابراہیمی) بنیاد کو ظاہر کر دیا لوگوں نے بھی اسے دیکھا اس کے بعد انھوں نے اس پر عمارت بنائی کعبہ کا طول (اونچائی) اٹھارہ ہاتھ تھی (یہ اس طرح ہوئی کہ) جب انھوں نے (حطیم کی طرف سے) اس میں اضافہ کر دیا تو (پھر) انھیں (پہلی اونچائی) کم محسوس ہوئی چنانچہ انھوں نے اس کی اونچائی میں دس ہاتھ کا اضافہ کر دیا اور اس کے دروازے بنائے ایک میں سے اندر داخلہ ہو تا تھا اور دوسرے سے باہر نکلا جا تا تھا جب ابن زبیر رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے تو حجاج نے عبد الملک بن مروان کو اطلاع دیتے ہوئے خط لکھا اور اسے خبر دی کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کی تعمیر اس (ابراہیمی) بنیادوں پر استور کی جسے اہل مکہ کے معتبر (عدول) لوگوں نے (خود) دیکھا عبد الملک نے اسے لکھا۔ہمارا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے رد و بدل سے کوئی تعلق نہیں البتہ انھوں نے اس کی اونچائی میں جو اضافہ کیا ہے اسے برقرار رہنے دو اور جو انھوں نے حطیم کی طرف سے اس میں اضافہ کیا ہے اسے (ختم کر کے) اس کی سابقہ بنیاد پر لوٹا دو اور اس دروازے کو بند کر دو جو انھوں نے کھولا ہے چنانچہ اس نے اسے گرا دیا اس کی (پچھلی) بنیاد پر لوٹا دیا۔
عطاء بیان کرتے ہیں کہ جب یزید بن معاویہ کے دور میں، اہل شام نے بیت اللہ پر حملہ کیا اور بیت اللہ جل گیا، اور اس کا جو حال ہو گیا تھا، تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کے حج کے لیے آنے تک اسے اسی طرح چھوڑ دیا، وہ چاہتے تھے لوگوں کو ان کے خلاف جراءت دلائیں یا ان کے خلاف اشتعال دلائیں اور بھڑکائیں، تو جب لوگ واپس جانے لگے، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا، اے لوگو! کعبہ کے بارے میں مشورہ دو، میں اسے توڑ کر نئے سرے سے بناؤں یا اس کا جو حصہ کمزور ہو گیا ہے، اس کو درست کر دوں؟ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، مجھ پر ایک رائے کھلی ہے، میں سمجھتا ہوں، آپ اس کے کمزور شدہ حصہ کو درست کر دیں، اس گھر کو رہنے دیں، جس پر لوگ مسلمان ہوئے، ان پتھروں کو چھوڑ دیں، جن پر لوگ اسلام لائے اور جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو وہ اسے نئے سرے سے تعمیر کیے بغیر نہیں رہے گا، (یعنی نئی تعمیر کے بغیر مطمئن نہیں ہو گا۔) تو تمہارے رب کے گھر کو ایسے کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ میں تین بار استخارہ کروں گا، پھر اپنے کام کا عزم کروں گا، پھر جب تین دن گزر گئے، (تین بار استخارہ کر لیا) تو انہوں نے اس کے توڑنے کا پختہ ارادہ کر لیا، لوگوں کو ڈر محسوس ہوا، کہ سب سے پہلے جو آدمی (کعبہ گرانے کے لیے) چڑھے گا، اس پر آسمانی آفت نازل ہو گی، حتی کہ ایک آدمی چڑھ کر اس کے پتھر گرانے لگا، تو جب لوگوں نے اس کو کسی آفت میں گرفتار ہوتے نہ دیکھا، تو وہ مسلسل گرانے لگے، اور انہوں نے اسے توڑ کر زمین تک پہنچا دیا، حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چند ستون کھڑے کر کے ان پر پردے ڈال دئیے، (تاکہ لوگ ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ سکیں اور ان کے گرد طواف ہو سکے) حتی کہ اس کی عمارت بلند ہو گئی، اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر لوگ کفر سے نئے نئے نہ نکلے ہوتے، اور میرے پاس اتنا خرچہ بھی نہیں، کہ میں اس کو نئے سرے سے بنا سکوں، تو میں اس میں حجر سے پانچ ہاتھ داخل کر دیتا اور میں اس کا ایک دروازہ ایسا بناتا جس سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرا دروازہ ایسا بناتا جس سے لوگ باہر نکلتے۔“ حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، اس وقت میرے پاس خرچہ موجود ہے، اور مجھے لوگوں سے خطرہ بھی نہیں ہے، تو انہوں نے (کعبہ میں) حجر سے پانچ ہاتھ زمین شامل کر دی، حتی کہ انہوں نے (ابراہیمی) بنیاد کو ظاہر کیا اور اسے لوگوں نے دیکھا، اس پر عمارت تعمیر کی گئی، کعبہ کی لمبائی (اوپر کو) اٹھارہ ہاتھ تھی، جب انہوں نے اس میں (حجر کے حصہ کا) اضافہ کیا، تو اسے کم سمجھا اور اس کی لمبائی (اونچائی) میں دس ہاتھ کا اضافہ کر دیا، اور اس کے دو دروازے بنائے، ایک جس سے اس میں داخل ہوا جائے اور دوسرا جس سے باہر نکلا جائے، جب حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کر دئیے گئے، حجاج نے عبدالملک بن مروان کو اس کی اطلاع دی، اور اسے بتایا کہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت اللہ کی عمارت کی تعمیر ایسی بنیادوں پر کی ہے، جنہیں اہل مکہ کے عادل (معتبر) لوگوں نے دیکھا ہے، تو عبدالملک نے لکھا، ہمیں ابن زبیر کی لت پت سے کوئی سروکار نہیں ہے، اس لیے اس نے جو لمبائی میں اضافہ کیا، اس کو رہنے دو اور حطیم سے اس میں بڑھایا ہے، اس کو اصل کی طرف لوٹا دو اور جو دروازہ کھولا ہے، اسے بھی بند کر دو، تو حجاج نے اسے توڑ کر پہلی تعمیر کی طرف لوٹا دیا۔
محمد بن بکر نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا) ہمیں ابن جریج نے خبر دی انھوں نے کہا: میں نے عبد اللہ بن عبید بن عمیر اور ولید بن عطاء سے سنا وہ دونوں حارث بن عبداللہ بن ابی عبد اللہ بن ابی ربیعہ سے حدیث بیان کر رہے تھے عبد اللہ بن عبید نے کہا حارث بن عبد اللہ۔عبد الملک بن مروان کی خلا فت کے دوران میں اس کے پاس آئے عبد الملک نے کہا: میرا خیال نہیں کہ ابو خبیب یعنی ابن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو سننے کا دعویٰ کرتے تھے وہ ان سے سنا ہو۔ حارث نے کہا: کیوں نہیں! میں نے خود ان ((حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) سے سنا ہے اس نے کہا: تم نے اس سے سنا وہ کیا کہتی تھیں؟ کہا: انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما ا: "بلا شبہ تمھاریقوم نے (اللہ کے گھر کی عمارت میں کمی کر دی اور اگر ان کا زمانہ شر ک قریب کا نہ ہو تا تو جو انھوں نے چھوڑ اتھا میں اسے دوبارہ بنا تا اور تمھا ری قوم کا اگر میرے بعد اسے دوبارہ بنا نے کا خیال ہو تو آؤ میں تمھیں دکھا ؤں انھوں نے اس میں سے کیا چھوڑ اتھا پھر آپ نے انھیں ساتھ ہاتھ کے قریب جگہ دکھا ئی۔یہ عبد اللہ بن عبید کی حدیث ہے ولید بن عطا ء نے اس میں یہ اضافہ کیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اور میں زمین سے لگے ہو ئے اس کے مشرقی اور مغربی دو دروازے بنا تا۔اور کیا تو جا نتی ہو تمھا ری قوم نے اس کے دروازے کو اونچا کیوں کیا؟" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا میں نے عرض کی نہیں آپ نے فرمایا: "خود کو اونچا دکھا نے کے لیے تا کہ اس (گھر) میں صرف وہی داخل ہو جسے وہ چا ہیں جب کوئی آدمی خود اس میں دا خل ہو نا چا ہتا تو وہ اسے (سیڑھیاں) چڑھنے دیتے حتیٰ کہ جب وہ داخل ہو نے لگتا تو وہ اسے دھکا دے دیتے اور وہ گر جا تا۔ عبد الملک نے حارث سے کہا: تم نے خود انھیں یہ کہتے ہو ئے سنا؟انھوں نے کہا: ہاں!کہا: تو اس نے گھڑی بھر اپنی چھڑی سے زمین کو کریدا، پھر کہا: کا ش!میں انھیں (ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو) اور جس کا م کی ذمہ داری انھوں نے اٹھا ئی اسے چھوڑ دیتا۔
عبداللہ بن عبید بیان کرتے ہیں، حارث بن عبداللہ، عبدالملک بن مروان کے پاس اس کی خلافت کے زمانہ میں قاصد بن کر آیا، تو عبدالملک نے کہا، میں نہیں سمجھتا کہ ابو خبیب یعنی ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے وہ بات سنی ہے جس کے سننے کا وہ دعویٰ کرتا ہے، حارث کہنے لگا، کیوں نہیں! میں نے ان (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے یہ روایت سنی ہے، عبدالملک نے کہا، تو نے انہیں کیا فرماتے سنا ہے؟ اس نے کہا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری قوم نے بیت اللہ کی تعمیر میں کمی کر دی اور اگر اس نے شرک کو نیا نیا نہ چھوڑا ہوتا، تو انہوں نے جتنا حصہ اس میں سے چھوڑ دیا ہے، اس کو دوبارہ بنا دیتا، اگر تیری قوم کا میرے بعد اس کو دوبارہ بنانے کا ارادہ بن جائے تو آؤ میں تمہیں وہ حصہ دکھا دوں، جو اس میں سے انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو) تقریبا سات ہاتھ جگہ دکھائی، یہ عبداللہ بن عبید کی روایت ہے اور اس میں ولید بن عطاء نے یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس کے زمین پر رکھے ہوئے دو دروازے ایک مشرق کی جانب اور ایک مغرب کی جانب بنا دیتا، اور تم جانتی ہو تیری قوم نے بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں رکھا تھا؟“ انہوں نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فخر و تکبر کے لیے کہ اس میں صرف وہی شخص داخل ہو سکے جسے وہ چاہیں، جب کوئی آدمی اس میں داخل ہونے کا ارادہ کرتا تو وہ اسے چڑھتے رہنے دیتے، حتی کہ جب وہ داخل ہوا چاہتا، اس کو دھکا دے دیتے، تو وہ گر جاتا۔“ عبدالملک نے حارث سے پوچھا، کیا تو نے خود انہیں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو) یہ کہتے سنا ہے؟ اس نے کہا، ہاں، تو عبدالملک کچھ وقت اپنی چھڑی سے زمین کریدتا رہا (سوچ و بچار کرتا رہا) پھر کہنے لگا، کاش میں، اس نے جو بوجھ اٹھایا تھا، اس کے لیے چھوڑ دیتا (صحیح یا غلط کام کرنے کا ذمہ دار وہی ٹھہرتے)۔
ابو قزعہ سے روایت ہے کہ عبد الملک بن مروان جب بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا تو اس نے کہا: اللہ ابن زبیر کو ہلا ک کرے کہ وہ ام المومنین پر جھوٹ بو لتا ہے وہ کہتا ہے میں نے انھیں یہ کہتے ہو ئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اے عائشہ رضی اللہ عنہا!تمھا ری قوم کے کفر کا زمانہ قریب کا نہ ہو تا تو میں بیت اللہ کو گرا تا حتیٰ کہ اس میں حطیم میں سے (کچھ حصہ) بڑھا دیتا بلا شبہ تمھا ری قوم نے اس کی عمارت کو کم کر دیا ہے۔ اس پر حارث بن عبد اللہ بن ابی ربیعہ نے کہا: امیر المومنین ایسا نہ کہیے۔میں نے خود امیر المو منین سے سنا ہے وہ یہ حدیث بیا ن کر رہی تھیں۔ (عبد الملک نے) کہا اگر میں نے یہ بات اسے گرا نے سے پہلے سن لی ہو تی تو میں اسے اسی طرح چھوڑ دیتا جس طرح ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے بنا یا تھا۔
ابو قزعہ بیان کرتے ہیں، عبدالملک بن مروان بیت اللہ کے طواف کے دوران کہنے لگا، اللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تباہ کرے، کیونکہ وہ ام المؤمنین (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی طرف جھوٹی بات منسوب کرتا ہے، یا ان کے بارے میں جھوٹ کہتا ہے کہ وہ کہتی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اگر تیری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا، تو میں بیت اللہ کو توڑ کر اس میں حجر کا حصہ داخل کر دیتا، کیونکہ تیری قوم نے اس کی تعمیر (عمارت) میں کمی کر دی تھی۔“ تو حارث بن عبداللہ بن ابی ربیعہ نے کہا، اے امیر المؤمنین! یہ بات نہ کہیے، میں نے خود ام المؤمنین کو یہ فرماتے سنا ہے، عبدالملک نے کہا، اگر میں یہ بات اس کے گرانے سے پہلے سن لیتا تو میں اسے ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعمیر پر رہنے دیتا۔