محمد بن بکر نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا) ہمیں ابن جریج نے خبر دی انھوں نے کہا: میں نے عبد اللہ بن عبید بن عمیر اور ولید بن عطاء سے سنا وہ دونوں حارث بن عبداللہ بن ابی عبد اللہ بن ابی ربیعہ سے حدیث بیان کر رہے تھے عبد اللہ بن عبید نے کہا حارث بن عبد اللہ۔عبد الملک بن مروان کی خلا فت کے دوران میں اس کے پاس آئے عبد الملک نے کہا: میرا خیال نہیں کہ ابو خبیب یعنی ابن زبیر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو سننے کا دعویٰ کرتے تھے وہ ان سے سنا ہو۔ حارث نے کہا: کیوں نہیں! میں نے خود ان ((حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) سے سنا ہے اس نے کہا: تم نے اس سے سنا وہ کیا کہتی تھیں؟ کہا: انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما ا: "بلا شبہ تمھاریقوم نے (اللہ کے گھر کی عمارت میں کمی کر دی اور اگر ان کا زمانہ شر ک قریب کا نہ ہو تا تو جو انھوں نے چھوڑ اتھا میں اسے دوبارہ بنا تا اور تمھا ری قوم کا اگر میرے بعد اسے دوبارہ بنا نے کا خیال ہو تو آؤ میں تمھیں دکھا ؤں انھوں نے اس میں سے کیا چھوڑ اتھا پھر آپ نے انھیں ساتھ ہاتھ کے قریب جگہ دکھا ئی۔یہ عبد اللہ بن عبید کی حدیث ہے ولید بن عطا ء نے اس میں یہ اضافہ کیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اور میں زمین سے لگے ہو ئے اس کے مشرقی اور مغربی دو دروازے بنا تا۔اور کیا تو جا نتی ہو تمھا ری قوم نے اس کے دروازے کو اونچا کیوں کیا؟" (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا میں نے عرض کی نہیں آپ نے فرمایا: "خود کو اونچا دکھا نے کے لیے تا کہ اس (گھر) میں صرف وہی داخل ہو جسے وہ چا ہیں جب کوئی آدمی خود اس میں دا خل ہو نا چا ہتا تو وہ اسے (سیڑھیاں) چڑھنے دیتے حتیٰ کہ جب وہ داخل ہو نے لگتا تو وہ اسے دھکا دے دیتے اور وہ گر جا تا۔ عبد الملک نے حارث سے کہا: تم نے خود انھیں یہ کہتے ہو ئے سنا؟انھوں نے کہا: ہاں!کہا: تو اس نے گھڑی بھر اپنی چھڑی سے زمین کو کریدا، پھر کہا: کا ش!میں انھیں (ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو) اور جس کا م کی ذمہ داری انھوں نے اٹھا ئی اسے چھوڑ دیتا۔
عبداللہ بن عبید بیان کرتے ہیں، حارث بن عبداللہ، عبدالملک بن مروان کے پاس اس کی خلافت کے زمانہ میں قاصد بن کر آیا، تو عبدالملک نے کہا، میں نہیں سمجھتا کہ ابو خبیب یعنی ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے وہ بات سنی ہے جس کے سننے کا وہ دعویٰ کرتا ہے، حارث کہنے لگا، کیوں نہیں! میں نے ان (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) سے یہ روایت سنی ہے، عبدالملک نے کہا، تو نے انہیں کیا فرماتے سنا ہے؟ اس نے کہا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری قوم نے بیت اللہ کی تعمیر میں کمی کر دی اور اگر اس نے شرک کو نیا نیا نہ چھوڑا ہوتا، تو انہوں نے جتنا حصہ اس میں سے چھوڑ دیا ہے، اس کو دوبارہ بنا دیتا، اگر تیری قوم کا میرے بعد اس کو دوبارہ بنانے کا ارادہ بن جائے تو آؤ میں تمہیں وہ حصہ دکھا دوں، جو اس میں سے انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو) تقریبا سات ہاتھ جگہ دکھائی، یہ عبداللہ بن عبید کی روایت ہے اور اس میں ولید بن عطاء نے یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس کے زمین پر رکھے ہوئے دو دروازے ایک مشرق کی جانب اور ایک مغرب کی جانب بنا دیتا، اور تم جانتی ہو تیری قوم نے بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں رکھا تھا؟“ انہوں نے عرض کیا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فخر و تکبر کے لیے کہ اس میں صرف وہی شخص داخل ہو سکے جسے وہ چاہیں، جب کوئی آدمی اس میں داخل ہونے کا ارادہ کرتا تو وہ اسے چڑھتے رہنے دیتے، حتی کہ جب وہ داخل ہوا چاہتا، اس کو دھکا دے دیتے، تو وہ گر جاتا۔“ عبدالملک نے حارث سے پوچھا، کیا تو نے خود انہیں (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو) یہ کہتے سنا ہے؟ اس نے کہا، ہاں، تو عبدالملک کچھ وقت اپنی چھڑی سے زمین کریدتا رہا (سوچ و بچار کرتا رہا) پھر کہنے لگا، کاش میں، اس نے جو بوجھ اٹھایا تھا، اس کے لیے چھوڑ دیتا (صحیح یا غلط کام کرنے کا ذمہ دار وہی ٹھہرتے)۔