اللؤلؤ والمرجان
كتاب المساجد ومواضع الصلاة
کتاب: مسجدوں اور نمازوں کی جگہوں کا بیان
189. باب وقت العشاء وتأخيرها
189. باب: عشاء کا وقت اور اس میں تاخیر کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 372
372 صحيح حديث عَائِشَةَ قَالَتْ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بِالْعِشَاءِ، وَذلِكَ قَبْلَ أَنْ يَفْشُوَ الإِسْلاَمُ، فَلَمْ يَخْرُجْ حَتَّى قَالَ عُمَرُ: نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ؛ فَخَرَجَ، فَقَالَ لأَهْلِ الْمَسْجِدِ: مَا يَنْتَظِرُهَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ غَيْرَكُمْ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز دیر سے پڑھی یہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کا واقعہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک باہر تشریف نہیں لائے جب تک سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہ فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے پس آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے علاوہ دنیا میں کوئی بھی انسان اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 372]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب المواقيت 22 فضل العشاء»

حدیث نمبر: 373
373 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بن عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شُغِلَ عَنْهَا لَيْلَةً، فَأَخَّرَهَا حَتَّى رَقَدْنَا فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ رَقَدْنَا ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ غَيْرُكُمْ
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات کسی کام میں مشغول ہو گئے اور بہت دیر کی ہم (نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے) مسجد ہی میں سو گئے پھر ہم بیدار ہوئے پھر ہم سو گئے پھر ہم بیدار ہوئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ دنیا کا کوئی شخص بھی تمہارے سوا اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 373]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 24 باب النوم قبل العِشاء لمن غُلِب»

حدیث نمبر: 374
374 صحيح حديث أَنَسٍ قَالَ حُمَيْدٌ: سُئِلَ أَنَسٌ، هَلِ اتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا قَالَ: أَخَّرَ لَيْلَةً صَلاَةَ الْعِشَاءِ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْههِ فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ قَالَ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَنَامُوا وَإِنَّكُمْ لَمْ تَزَالُوا فِي صَلاَةٍ مَا انْتَظَرْتُمُوهَا
حمید کہتے ہیں کہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی بنوائی تھی؟ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز آدھی رات میں پڑھائی پھر چہرہ مبارک ہماری طرف کیا جیسے اب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں فرمایا کہ بہت سے لوگ نماز پڑھ کر سو چکے ہوں گے لیکن تم اس وقت بھی نماز میں ہو جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہے ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 374]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 77 كتاب اللباس: 48 باب فص الخاتم»

حدیث نمبر: 375
375 صحيح حديث أَبِي مَوسى قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَأَصْحَابِي الَّذِينَ قَدِمُوا مَعِي فيِ السَّفِينَةِ نُزُولاً فِي بَقِيعِ بُطْحَانَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، فَكَانَ يَتَنَاوَبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ صَلاَةِ الْعِشَاءِ كُلَّ لَيْلَةٍ نَفَرٌ مِنْهُمْ، فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ أَنَا وَأَصْحَابِي، وَلَهُ بَعْضُ الشُّغْلِ فيِ بَعْضِ أَمْرِهِ فَأَعْتَمَ بِالصَّلاَةِ حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ، ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهِمْ، فَلَمَّا قَضَى صَلاَتَهُ، قَالَ لِمَنْ حَضَرهُ: عَلَى رِسْلِكُمْ، أَبْشِرُوا، إِنَّ مِنْ نِعْمَةِ اللهِ عَلَيْكُمْ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ يُصَلِّي هذِهِ السَّاعَةَ غَيْرُكُمْ، أَوْ قَالَ: مَا صَلَّى هذِهِ السَّاعَةَ أَحَدٌ غَيْرُكُمْ قَالَ أَبُو مُوسى، فَفَرِحْنَا بِمَا سَمِعْنَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ جو کشتی میں میرے ساتھ (حبشہ) آئے تھے بقیع بطحان میں قیام کیا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف رکھتے تھے ہم میں سے کوئی نہ کوئی عشاء کی نماز میں روزانہ باری مقرر کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا اتفاق سے میں اور میرے ایک ساتھی ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام میں مشغول تھے (کسی ملی معاملہ میں آپ اور سیّدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ گفتگو کر رہے تھے) جس کی وجہ سے نماز میں دیر ہو گئی اور تقریبا آدھی رات گذر گئی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھائی نماز پوری کر چکے تو حاضرین سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر وقار کے ساتھ بیٹھے رہو اور ایک خوشخبری سنو تمہارے سوا دنیا میں کوئی بھی آدمی ایسا نہیں جو اس وقت نماز پڑھتا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تمہارے سوا اس وقت کسی (امت) نے بھی نماز نہیں پڑھی تھی سیّدنا ابو موسیٰ نے کہا پس ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر بہت ہی خوش ہو کر لوٹے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 375]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 22 باب فضل العِشاء»

حدیث نمبر: 376
376 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بِالْعِشَاءِ حَتَّى رَقَدَ النَّاسُ وَاسْتَيْقَظُوا، وَرَقَدُوا وَاسْتَيْقَظُوا؛ فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: الصَّلاَةَ فَخَرَجَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ الآنَ، يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً، وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ فَقَالَ: لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوهَا هكَذَا (قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ الرَّاوِي عَنْ عَطَاءٍ، الرَّاوِي عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ) فَاسْتَثْبَتُّ عَطَاءً كَيْفَ وَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِهِ يَدَهُ كَمَا أَنْبَأَهُ ابْنُ عبَّاسٍ، فَبَدَّدَ لِي عَطَاءٌ بَيْنَ أَصَابِعِهِ شَيْئًا مِنْ تَبْدِيدٍ، ثُمَّ وَضَعَ أَطْرَافَ أَصَابِعِهِ عَلَى قَرْنِ الرَّأْسِ ثُمَّ ضَمَّهَا، يُمِرُّهَا كَذلِكَ عَلَى الرَّأْسِ حَتَّى مَسَّتْ إِبْهَامُهُ طَرَفَ الأُذُنِ مِمَّا يَلِي الْوَجْهَ عَلَى الصُّدْغِ وَنَاحِيَةِ اللِّحْيَةِ، لاَ يُقَصِّرُ وَلاَ يَبْطشُ إِلاَّ كَذلِكَ، وَقَالَ: لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوهَا هكَذَا
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز میں دیر کی جس کے نتیجہ میں لوگ (مسجد ہی میں) سو گئے پھر بیدار ہوئے پھر سو گئے پھر بیدار ہوئے آخر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ٹھے اور پکارا نماز اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے تشریف لائے وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور آپ ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری امت کے لئے مشکل نہ ہو جاتی تو میں انہیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو اسی وقت پڑھیں (ابن جریج یہ حدیث سیّدنا ابن عباس سے عطاء کے واسطے سے بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ)میں نے عطاء سے مزید تحقیق چاہی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت کیا تھی ابن عباس نے انہیں اس سلسلے میں کس طرح خبر دی تھی اس پر حضرت عطاء نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں تھوڑی سی کھول دیں اور انہیں سر کے ایک کنارے پر رکھا پھر انہیں ملا کر یوں سر پر پھیرنے لگے کہ ان کا انگوٹھا کان کے اس کنارے سے جو چہرے سے قریب ہے اور ڈاڑھی سے جا لگا نہ سستی کی اور نہ جلدی بلکہ اسی طرح کیا اور کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری امت پر مشکل نہ گذرتی تو میں حکم دیتا کہ اس نماز کو اسی وقت پڑھا کریں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 376]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة 24 باب النوم قبل العِشاء لمن غُلِب»