زیاد بن علاقہ نے کہا: میں نے اپنے چچا سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں «﴿وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ﴾»[ق: 10] پڑھی، شعبہ نے کہا: میں نے زیاد سے دوبارہ پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے آپ کو سورۂ قاف پڑھتے ہوئے سنا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1332]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1334] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 457] ، [نسائي 949] ، [أبويعلی 6841] ، [ابن حبان 1814]
سیدنا قطبۃ بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نماز فجر کی پہلی رکعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «﴿وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَهَا طَلْعٌ نَضِيدٌ﴾»[ق: 10/50] پڑھتے ہوئے سنا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1333]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1335] » یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 166، 457] ، [ترمذي 306] ، [نسائي 949] ، [ابن ماجه 816]
سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی نماز میں «﴿إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ﴾» پڑھتے ہوئے سنا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت «﴿وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ﴾» پر پہنچے تو میں اپنے دل میں سوچنے لگا «﴿وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ﴾» کا مطلب کیا ہے؟ (رات جب ڈھل جائے)۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1334]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1336] » اس روایت کی سند عبدالرحمٰن المسعودی کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 456] ، [ترمذي 306] ، [نسائي 954] ، [ابن ماجه 816] ، [أبويعلی 1457] ، [ابن حبان 1819] ، [الحميدي 577]
ابونعیم نے خبر دی کہ ہم سے مسعر نے حدیث بیان کی ولید سے اور انہوں نے سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے اسی کی طرح۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1335]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف من أجل عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1337] » تخریج اوپر گذر چکی ہے۔
سیار بن سلامۃ نے کہا: میں اپنے والد کے ساتھ سیدنا ابوبرزۃ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا جو بانس کی ایک جھونپڑی میں تھے، میرے والد نے ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات صلاة کے بارے میں دریافت کیا تو سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم «هجير» جس کو تم ظہر کہتے ہو زوال آفتاب کے وقت پڑھتے تھے، اور عصر کی نماز جب پڑھ لیتے تو ہم میں سے کوئی شخص مدینے کے انتہائی کنارے پر اپنے گھر واپس جاتا تو سورج اب بھی تیز ہوتا تھا، سیار نے کہا: انہوں نے مغرب کے بارے میں جو کہا تھا مجھے یاد نہ رہا، اور عشاء کی نماز جسے تم «عتمة» کہتے ہو اس میں تاخیر پسند فرماتے تھے، اور صبح کی نماز سے اس وقت فارغ ہو جاتے جب آدمی اپنے قریب بیٹھے ہوئے شخص کو پہچان سکتا اور آپ اس (صبح کی نماز) میں ساٹھ سے سو آیات تک قرأت کرتے تھے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1336]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1338] » یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 547] ، [مسلم 647] ، [أبوداؤد 398] ، [نسائي 494] ، [ابن ماجه 674] ، [أبويعلی 7422] ، [ابن حبان 1503]
وضاحت: (تشریح احادیث 1331 سے 1336) مذکورہ بالا تمام احادیث سے نمازِ فجر میں قراءت کی مقدار معلوم ہوئی جو اکثر و بیشتر لمبی ہوتی تھی جیسا کہ اس آخری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم 60 سے 100 آیات تک فجر کی نماز میں پڑھا کرتے تھے، کبھی کبھار قصار مفصل جیسے سورۂ تکویر وغیرہ بھی پڑھ لیتے تھے، اس آخری حدیث میں اوقاتِ نماز بھی مذکور ہیں جن کا ذکر پچھلے ابواب میں گذر چکا ہے۔