سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کھانا تناول فرمایا: اور بعد میں انگلیاں چاٹ لیں۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15764]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک باندی تھی جو مقام سلع میں ان کی بکریاں چرایا کر تی تھی ایک مرتبہ ایک بھیڑیا ایک بکری کو لے کر بھاگ گیا اس باندی نے اس کا پیچھا کر کے اس کو جالیا اور اسے ایک دھاری دار پتھر سے ذبح کر لیا سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بکری کا حکم پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کے کھانے کی اجازت دیدی۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15765]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2304 وهذا إسناد ظاهر الانقطاع بين ابن كعب وأبيه ، لكن صرح بسماعه منه عند البخاري، فاتصل الإسناد
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ کسی شخص سے اپنی دو اوقیہ چاندی کا مطالبہ کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کر کے مجھ سے فرمایا کہ اس کا نصف قرض معاف کر دو میں نے عرض کیا: بہت بہتر یا رسول اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سے فرمایا کہ اب جو حق باقی بچا ہے اسے ادا کر و۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15766]
حكم دارالسلام: حديث صحيح بغير هذه السياقة، وهذا إسناد ضعيف لضعف زمعة
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کھانا کھایا اور بعد میں اپنی انگلیاں چاٹ لیں۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15767]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی ایک سیاہ فام باندی تھی جس نے ایک بکری کو دھاری دار پتھر سے ذبح کر لیا سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بکری کا حکم پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کے کھانے کی اجازت دیدی۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15768]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2308. حجاج ضعيف لكنه توبع
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مومن کی مثال کھیتی کے ان دانوں کی سی ہے جنہیں ہوا اڑاتی ہے کبھی برابر کر تی ہے اور کبھی دوسری جگہ لے جا کر پٹخ دیتی ہے یہاں تک کہ اس کا وقت مقررہ آ جائے اور کافر کی مثال ان چاولوں کی سی ہے جو اپنی جڑ پر کھڑے رہتے ہیں انہیں کوئی چیز نہیں ہلا سکتی یہاں تک کہ ایک ہی مرتبہ انہیں اتار لیا جاتا ہے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15769]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: اللہ نے مجھے سچ کے علاوہ کسی اور چیز کی برکت سے نجات نہیں دی اب میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ آئندہ میں کبھی جھوٹ نہ بولوں اور میں اپنا سارامال اللہ اور اس کے رسول کے لئے وقف کرتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھوڑا بہت اپنے پاس بھی رکھ لو تو بہتر ہے عرض کیا: کہ پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لیتاہوں۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15770]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں سواری اور خرچ کے اعتبار سے اس غزوے کے علاوہ کسی دوسرے غزوے میں اتنا مالدار نہیں تھا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تو میں نے سوچا کہ کل سامان سفر درست کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں گا چنانچہ میں نے تیاری شرع کر دی توشام ہو گئی لیکن میں فارغ نہیں ہو سکا حتی کہ تیسرے دن بھی اسی طرح ہوا میں کہنے لگا کہ ہائے افسوس لوگ تین دن کا سفر طے کر چکے ہیں یہ سوچ کر میں رک گیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے تو لوگ مختلف عذر بیان کرنے لگے کہ میں بھی بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اور عرض کیا: کہ مجھ اس غزوے سے زیادہ کسی غزوے میں سواری اور خرچ کے اعتبار سے آسانی حاصل نہ تھی اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اعرض فرمالیا اور لوگوں کو ہم سے بات چیت کرنے سے بھی منع فرما دیا بیویوں کے متعلق حکم دیا گیا کہ وہ ہم سے دور رہیں ایک دن میں گھر کی دیوار پر چڑھا تو مجھے جابر رضی اللہ عنہ نظر آئے میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا اے جابر رضی اللہ عنہ میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں علم ہے کہ میں نے کسی دن اللہ اور اس کے رسول کو دھوکہ دیاہو لیکن وہ خاموش رہے اور مجھ سے کوئی بات نہیں کی ایک دن میں اسی حال میں تھا کہ میں نے ایک پہاڑی کی چوٹی سے کسی کو اپنانام لیتے ہوئے سنا یہاں تک کہ وہ میرے قریب آگیا اور کہنے لگا کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے لئے خوش خبری ہے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15771]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2775، م: 2769 ، دون قوله: "فإذا أنا بجابر بن عبدالله......"، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عمر بن كثير لم يدرك كعب بن مالك
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے وہاں دو رکعتیں پڑھتے اور سلام پھیر کر اپنی جائے نماز پر ہی بیٹھ جاتے اور لوگ آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15772]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے چاشت کے وقت واپس آئے تھے واپسی پر آپ نے مسجد میں دو رکعتیں پڑھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سفر سے واپس آتے تو ایسا ہی کرتے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15773]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے چاشت کے وقت واپس آئے تھے واپسی پر آپ نے مسجد میں دو رکعتیں پڑھیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سفر سے واپس آتے تو ایسا ہی کرتے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15774]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے وہاں دو رکعتیں پڑھتے اور سلام پھیر کر اپنی جائے نماز پر ہی بیٹھ جاتے اور لوگ آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تھے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15775]
عبدالرحمن بن کعب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو ام مبشر ان سے کہنے لگے کہ میرے بیٹے مبشر کو میرا سلام کہنا جب موت کے بعد اس سے ملاقات ہوانہوں نے فرمایا کہ ام مبشر اللہ تمہاری مغفرت فرمائے کیا تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا کہ مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہے تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں واپس لوٹا دیں گے ام مبشر نے اس پر کہا کہ آپ سچ کہہ رہے ہیں میں اللہ سے معافی مانگتی ہوں۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15776]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں لوٹا دیں گے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15777]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف الانقطاعه، عبدالرحمن بن عبدالله بن كعب لم يسمع هذا الحديث من جده كعب بن مالك ، لكنه توبع
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں لوٹادیں گے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15778]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں لوٹادیں گے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15779]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں لوٹا دیں گے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15780]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایسابہت کم ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کا ارادہ فرمایا: ہو وہ جمعرات کا دن نہ ہو۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15781]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم ایسا کرتے تھے کہ کسی غزوے کا ارادہ ہوا اور اس میں کسی دوسری جگہ کے ارادے سے اسے مخفی نہ فرماتے ہوں سوائے غزوہ تبوک کے کہ شدید گرمی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبے سفر اور صحراؤں کا ارادہ کیا تھا اور دشمن کی ایک کثیر تعداد کا سامنا کرنا تھا اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس کی وضاحت فرمادی تھی کہ تاکہ وہ دشمن سے مقابلے کے لئے خوب اچھی طرح تیاری کر لیں اور انہیں اسی جہت کا پتہ بتادیا جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرما رکھا تھا۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15782]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کو زندہ کیا جائے گا اور میں اور میری امتی ایک ٹیلے پر ہوں گے میرا رب مجھے سبز رنگ کا ایک قیمتی جوڑا پہنائے گا پھر مجھے اجازت ملے گی اور میں اللہ کی مرضی کے مطابق اس کی تعریف کر وں گا یہی مقام محمود ہے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15783]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنافساد نہیں مچائیں گے جتنا انسان کے دل میں مال اور منصب کی حرص فساد برپا کر تی ہے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15784]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ نے شعروشاعری کے متعلق اپنا حکم نازل کیا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اللہ نے اشعار کے متعلق وہ باتیں نازل فرمائیں ہیں جو میں کر چکا ہوں اب اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان اپنی تلوار اور زبان دونوں سے جہاد کرتا ہے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15785]
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بعض اشعار حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم جو اشعار مشرکین کے متعلق کہتے ہوایسالگتا ہے کہ تم ان پر تیروں کی بوچھاڑ برسا رہے ہو۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15786]
حكم دارالسلام: إسناد الحديث الأول: "من الشعر حكمة" صحيح، خ: 6145، والحديث الثاني صحيح لغيره، وإسناده ضعيف، بشير ابن عبدالرحمن، لم يذكر البخاري وابن أبى حاتم الرواة عنه سوى اثنين ، ولم يؤثر توثيقه غير ابن حبان
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں واپس لوٹادیں۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15787]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2757، م: 2769، وهذا إسناد ضعيف، عامر بن صالح ضعيف
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: اللہ نے مجھے سچ کے علاوہ کسی اور چیز کی برکت سے نجات نہیں دی اب میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ آئندہ میں کبھی جھوٹ نہ بولوں اور میں اپنا سارامال اللہ اور اس کے رسول کے لئے وقف کرتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھوڑا بہت اپنے پاس بھی رکھ لو تو بہتر ہے عرض کیا: کہ پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لیتاہوں۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15788]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سوائے غزوہ تبوک کے اور کسی جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے نہیں رہا ہاں غزوہ بدر میں سے رہ گیا تھا۔ اور بدر میں شریک نہ ہو نے والوں پر کوئی عتاب بھی نہیں کیا گیا تھا کیونکہ رسول اللہ صرف قریش کے قافلہ کو روکنے کے ارادے سے تشریف لے گئے تھے بغیر لڑائی کے ارادہ کے اللہ نے مسلمانوں کی دشمنوں سے مڈ بھیڑ کرادی تھی میں بیعت عقبہ کی رات کو بھی حضور کے ساتھ موجود تھا جہاں ہم سب نے مل کر اسلام کے عہد کو مضبوط کیا تھا اور میں یہ چاہتا بھی نہیں ہوں کہ اس بیعت کے عوض میں جنگ بدر میں حاضر ہوتا اگرچہ بدر کی جنگ لوگوں میں اس سے زیادہ مشہو ر ہے۔
میرا قصہ یہ ہے کہ جس قدر میں اس جہاد کے وقت مالدار اور فراخ دست تھا اتنا کبھی نہیں ہوا اللہ کی قسم اس جنگ کے لئے میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں اس سے پہلے کسی جنگ میں میرے پاس دو سواریاں نہ تھیں رسول اللہ کا دستور تھا کہ اگر کسی جنگ کا ارادہ فرماتے تو دوسرائی لڑائی کہہ کر اصل لڑائی کو چھپاتے تھے لیکن جب جنگ تبوک کا زمانہ آیا تو چونکہ سخت گرمی تھی ایک لمبا بےآب وگیاہ بیابان طے کرنا تھا اور کثیر دشمنوں کا مقابلہ کرنا تھا اس لئے آپ نے مسلمانوں کے سامنے کھول کر بیان کیا کہ جنگ کے لے تیاری کر لیں اور حضور کا جو ارادہ تھا لوگوں سے کہہ دیا مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور کوئی رجسٹرار بھی نہیں تھا جس میں ناموں کا اندارج کیا جاتا جو شخص جنگ میں شریک نہ ہو نا چاہتا وہ سمجھ لیتا تھا کہ جب تک میرے متعلق وحی نازل نہ کی گئی میری حالت چھپی رہے گی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جہاد کا ارادہ اس وقت کیا تھا جب میوہ جات پختہ ہو گئے تھے اور درختوں کے سائے کافی ہو گئے تھے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سب مسلمانوں نے جنگ کی تیاری کی میں بھی روزانہ صبح کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تیاری کرنے کے ارادہ سے جاتا لیکن شام کو بغیر کچھ کام سرانجام دیئے واپس آجاتا میں اپنے دل میں خیال کرتا کہ وقت کافی ہے میں یہ کام پھر کر سکتا ہوں اسی لیت ولعل میں مدت گزر گئی اور مسلمانوں نے سخت کوشش کر کے سامان درست کر لیا اور ایک روز صبح رسول اللہ مسلمانوں کے ہمراہ چل دیئے اور میں اس وقت تک کچھ تیاری نہ کر سکا لیکن دل میں خیال کر لیا کہ ایک دوروز میں سامان درست کر کے مسلمانوں سے جاملوں گا۔
جب دوسرے روز مسلمان میدینہ سے دور نکل گئے تو سامان درست کرنے کے ارادہ سے چلا لیکن بغیر کچھ کام کئے واپس آگیا میری برابر یہی سستی رہی اور مسلمان جلدی جلدی بہت آگے بڑھ گئے میں نے جاپہنچے کا ارادہ کیا لیکن اللہ کا حکم نہ تھا کاش میں مسلمانوں سے جا کر مل گیا ہوتا رسول اللہ کے تشریف لے جانے کے بعد اب جو میں کہیں باہر نکل کر لوگوں سے ملتا تھا اور ادھرادھر گھومتا تھا تو یہ دیکھ کر مجھے غم ہوتا تھا کہ سوائے منافقوں کے اور ان کمزور لوگوں کے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معذور سمجھ کر چھوڑ دیا تھا اور کوئی نظر نہ آتا تھا۔ راستہ میں رسول اللہ کو میری کہیں یاد نہ آئی جب تبوک میں حضور پہنچ گئے تو لوگوں کے سامنے بیٹھ کر فرمایا: یہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کیا حرکت کی ہے ایک شخص نے جواب دیا رسول اللہ! وپنی دونوں چادروں کو دیکھتا رہا اور اسی وجہ سے نہ آیا معاذ بن جبل بولے اللہ کی قسم تو نے بری بات کہی ہے یا رسول اللہ! ہم کو اس کی نیکی کا احتمال ہے حضور خاموش ہو گئے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب مجھے اطلاع ملی کہ حضور واپس آرہے ہیں تو مجھے فکر پیداہوئی کہ اور جھوٹ بولنے کا ارادہ کیا اور دل میں سوچا کہ کس ترکیب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچا جائے گھر میں تمام اہل رائے سے مشورہ کیا اتنے میں معلوم ہوا کہ رسول اللہ قریب ہی تشریف لاچکے ہیں میں نے تمام جھوٹ بولنے کے خیال دل سے نکال دیا میں سمجھ گیا کہ جھوٹ کی آمیزش سے حضور کی ناراضگی سے نہیں بچ سکتا لہذا سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا صبح کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ کا دستور تھا کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو شروع میں مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ لیتے تھے اور پھر وہیں لوگوں سے گفتگو کرنے بیٹھ جاتے تھے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساہی کیا اور جنگ سے رہ جانے والے لوگ قسمیں کھا کھا کر عذر بیان کر ن لگے ان سب کی تعداد کچھ اوپر اسی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے ظاہر عذ رکوقبول کر لیا اور بیعت کر لی ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی اور ان کی اندرونی حالت کو اللہ کے سپرد کر دیا۔
سب کے بعد میں حاضر ہوا سلام کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت والاتبسم کیا اور ارشاد فرمایا: قریب آجاؤ میں قریب ہو گیا یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جا کر بیٹھ گیا پھر فرمایا: تم کیوں رہ گ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15789]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن ابی حدود پر ان کا کچھ قرض تھا ایک مرتبہ راستے میں ملاقات ہو گئی سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے انہیں پکڑ لیا باہمی تکرار کی وجہ سے آوازیں بلند ہو گئیں اسی اثناء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کر کے مجھ سے فرمایا کہ اس کا نصف قرض معاف کر دو چنانچہ انہوں نے نصف چھوڑ کر نصف مال لے لیا۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15791]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں واپس لوٹادیں۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15792]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عبدالرحمن ابن عبدالله لم يسمع هذا الحديث من جده
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اوس بن حدثان کو ایام تشریق میں یہ منادی کرنے کے لئے بھیجا کہ جنت میں سوائے مومن کے اور کوئی داخل نہیں ہو سکے گا اور ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15793]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1142. محمد بن سابق مختلف فيه ، وقد توبع
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنافساد نہیں مچائیں گے جتنا انسان کے دن میں مال اور منصب کی حرص فساد برپا کر تی ہے۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15794]
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابتداء رمضان میں جب کوئی روزہ دار رات کو سوجاتا اس پر کھانا پینا اور بیوی کے قریب جانا اگلے دن افطار کرنے تک حرام ہو جاتا تھا ایک مرتبہ سیدنا عمر رات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ دیر گزارنے کے بعد گھر واپس آئے تو دیکھا کہ ان کی اہلیہ سو رہی ہیں انہوں نے ان سے اپنی خواہش پوری کرنے کا ارادہ کیا تو وہ کہنے لگیں کہ میں تو سو گئی تھی سیدنا عمر نے کہا کہاں سوئی تھی پھر ان سے اپنی خواہش پوری کی ادھر سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ایساہی پیش آیا اگلے دن جب سیدنا عمر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی خبردی اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اللہ جانتا ہے کہ تم اپنی جانوں سے خیانت کر چکے ہو سو اللہ تم پر متوجہ ہوا اور اس نے تمہیں معاف کر دیا۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15795]
حكم دارالسلام: إسناده حسن، ابن لهيعة سيئ الحفظ لكن رواية ابن المبارك عنه قبل احتراق كتبه
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اشعار سے مشرکین کی مذمت بیان کیا کر و مسلمان اپنی جان اور مال دونوں سے جہاد کرتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم جو اشعار مشرکین کے متعلق کہتے ہوایسا لگتا ہے کہ تم ان پر تیروں کی بوچھاڑ کر رہے ہو۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15796]
ایک مرتبہ ابوبکر بن محمد عمر بن حکم کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ اے ابوحفص ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی حدیث سناؤ جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہ ہواور وہ کہنے لگے کہ مجھ سے سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ ھدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی ریض کی عیادت کرتا ہے وہ رحمت کے سمندر میں غوطہ لگاتا ہے اور جب مریض کے پاس جا کر بیٹھ جاتا ہے تو اس میں ڈوب جاتا ہے اور امید ہے کہ ان شاء اللہ تم بھی رحمت میں ڈوب گئے ہو۔ [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15797]
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى معشر، وقد وهم فيه فجعله من حديث كعب بن مالك ، والصواب: أنه من حديث جابر
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جو بیعت عقبہ کے شرکاء اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والوں میں سے تھے کہتے ہیں کہ ہم اپنی قوم کے کچھ مشرک حاجیوں کے ساتھ نکلے ہم اس وقت نماز پڑھتے اور دین سمجھتے تھے ہمارے ساتھ سیدنا براء بن معرور بھی تھے جو ہم میں سب سے بڑے اور ہمارے سردار تھے جب ہم سفر کے لئے تیار ہوئے اور مدینہ منورہ سے نکلے تو تو حضڑت براء کہنے لگے کہ لوگو واللہ مجھے ایک رائے سمجھائی گئی ہے مجھے نہیں معلوم کہ تم لوگ میری موافقت کر و گے یا نہیں ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا رائے ہے وہ کہنے لگے کہ میری رائے یہ ہے کہ میں خانہ کعبہ کی طرف اپنی پشت کر کے نماز نہ پڑھا کر وں ہم نے ان سے کہا ہمیں تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ وہ شام کی طرف ہی رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں ہم ان کی مخالفت نہ کر یں گے وہ کہنے لگے کہ میں تو خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھوں گا ہم نے ان سے کہا ہم ایسا نہیں کر یں گے چنانچہ نماز کا وقت آنے پر ہم لوگ شام کی جانب رخ کر کے نماز پڑھتے اور وہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے یہاں تک کہ ہم مکہ مکر مہ پہنچ گئے۔ چنانچہ ہم مسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ سیدنا عباس بیٹھے ہیں اور ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیٹھے ہوئے ہیں ہم بھی سلام کر کے بیٹھ گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس سے پوچھا: اے ابوفضل کیا آپ ان دونوں کو پہچانتے ہیں انہوں نے کہا جی ہاں یہ اپنی قوم کے سردار ہیں اور یہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں واللہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت کی بات اب تک نہیں بھولی کہ وہ کعب جو شاعر ہے انہوں نے عرض کیا: جی ہاں۔
پھر سیدنا براء کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! میں اپنے ساتھ اس سفر پر نکلا تو اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت سے مالامال کر چکا تھا میں نے سوچا کہ اس عمارت کی طرف اپنی پشت نہ کر وں چنانچہ میں اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتارہا لیکن میرے ساتھیوں نے اس معاملے میں میری مخالفت کر دی جس کی وجہ سے میرے دل میں اس کے متعلق کھٹکا پیداہو گیا ہے اب آپ کی کیا رائے ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایک قبلہ پر پہلے ہی قائم تھے اگر تم اس پر برقرار رہتے تو اچھا ہوتا اس کے بعد براء نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ہمیں ان کے متعلق زیادہ معلوم ہے۔ پھر ہم لوگ حج کے لئے روانہ ہوئے اور ایام تشریق کے درمیانی دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گھاٹی پر ملاقات کا وعدہ کر لیاجب ہم حج سے فارغ ہوئے اور وہ رات آگئی جس کا ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا تھا اس وقت ہمارے ساتھ ہمارے ایک سردار ابوجابر رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عمرو بن حرام بھی تھے ہم نے اپنے ساتھ آتے ہوئے مشرکین سے اپنے معاملے کو پوشیدہ رکھا تھا تو ہم نے ان سے بات کی کہ اور کہا اے ابوجابر رضی اللہ عنہ آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہیں ہم نہیں چاہتے کہ آپ جس دین پر ہیں اس کی وجہ سے کل کو جہنم کا ایندھن بن جائیں پھر میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی طے شدہ ملاقات کے بارے میں بتایا جس پر وہ مسلمان ہو گئے اور ہمارے ساتھ اس گھاٹی پر پہنچے جہاں انہیں بھی نقیب مقرر کیا گیا۔ جب ہم لوگ اپنی جگہ پر بیٹھ گئے تو سب سے پہلے سیدنا عباس نے گفتگو کا آغاز کیا اور کہنے لگے اے گروہ خزرج محمد کو ہم میں جو حثییت حاصل ہے وہ آپ سب جانتے ہیں ہماری قوم میں سے جن لوگوں کی رائے اب تک ہم جیسی ہے ہم نے ان کی ان لوگوں سے اب تک حفاظت کی ہے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کچھ تلاوت فرمائی اللہ کی طرف دعوت دی اور اسلام کی ترغیب دی اور فرمایا کہ میں تم سے اس شرط پر بیعت لیتاہوں کہ تم جس طرح اپنی بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو میری بھی اسی طرح حفاظت کر و گے یہ سن کر سیدنا براء بن معرور نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک پکڑ کر عرض کیا: جی ہاں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم آپ کی اسی طرح حفاظت کر یں گے جیسے ہم اپنی حفاظت کرتے ہیں یا رسول اللہ! ہمیں بیعت کر لیجیے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے میں سے بارہ آدمیوں کو منتخب کر لو جو اپنی قوم کے نقیب ہوں چنانچہ انہوں نے بارہ آدمی منتخب کر لیے جن میں سے نوکاتعلق خزرج سے تھا اور تین کا تعلق اوس سے تھا۔ پھر سب لوگوں نے یکے بعد دیگرے بیعت کر لی جب ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر چکے تو گھاٹی کے سرے پر کھڑے ہو کر شیطان نے بلند آواز سے چیخ کر کہا اے اہل منزل مذمم (العیاذ باللہ، مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ بےدینوں کی خبرلو یہ تم سے جنگ کرنے کے لئے اکٹھے ہو رہے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وس [مسند احمد/مسنَد المَكِّیِّینَ/حدیث: 15798]