یو نس نے ابن شہاب سے، انھوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف سے، انھوں نے حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کچھ کا م ایسے تھے جو ہم زمانے جاہلیت میں کیا کرتے تھے ہم کا ہنوں کے پاس جا تے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم کا ہنوں کے پاس نہ جا یا کرو۔"میں نے عرض کی: ہم بد شگونی لیتے تھے، آپ نے فرمایا: " یہ (بدشگونی) محض ایک خیال ہے جو کوئی انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، یہ تمھیں (کسی کام سے) نہ روکے۔"
حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! بہت سے کام ہیں، جو ہم جاہلیت کے دور میں کرتے تھے، ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو کاہنوں کے پاس مت جاؤ“ میں نے کہا، ہم بدشگونی لیتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک ایسی چیز ہے، جس کا تمہارے کسی کے دل میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو وہ تمہیں تمہارے کام سے ہرگز نہ روکے۔“
عقیل معمر، ابن ابی ذئب اور مالک، ان سب نے زہری سے اسی سند کے ساتھ یو نس کی حدیث کے ہم معنی روایت کی، مگر مالک نے اپنی حدیث میں بدشگونی کا نام لیا ہے، اس میں کا ہنوں کا ذکر نہیں۔
امام مسلم اپنے مختلف اساتذہ کی چار سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، ان میں امام مالک کی روایت میں، بری فال کا ذکر ہے لیکن کہانت کا ذکر نہیں ہے۔
حجاج صواف اور اوزاعی، دونوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ہلال بن ابی میمونہ سے، انھوں نے عطا ء بن یسار سے، انھوں نے معاویہ بن حکم سلمہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زہری کی ابو سلمہ سے اور ان کی معاویہ سے روایت کردہ حدیث کے مانند روایت کی، اور یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث میں یہ الفا ظ زائد بیان کیے، کہا: میں نے عرض کی: ہم میں ایسے لو گ ہیں جو (مستقبل کا حال بتا نے کے لیے) لکیریں کھینچتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " انبیاء علیہ السلام میں سے ایک نبی تھے جو لکیریں کھینچتے تھے، جو ان کی لکیروں سے موافقت کرگیا تو وہ ٹھیک ہے۔"
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی دو سندوں سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، یحییٰ بن ابی کثیر کی روایت میں ہے کہ حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میں نے کہا، ہم میں سے کچھ لوگ لکیریں کھینچتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء میں سے ایک نبی لکیریں کھینچتے تھے تو جو ان کے طریقہ کے مطابق لکیرین کھینچے گا وہ ٹھیک ہو گا۔“
معمر نے زہر ی سے، انھوں نے یحییٰ بن عروہ بن زبیر سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کا ہن کسی چیز کے بارے میں جو ہمیں بتا یا کرتے تھے (ان میں سےکچھ) ہم درست پاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " وہ سچی بات ہو تی ہے جسے کوئی جن اچک لیتا ہے اور وہ اس کو اپنے دوست (کا ہن) کے کا ن میں پھونک دیتا ہے اور اس ایک سچ میں سوجھوٹ ملا دیتا ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! کاہن ہمیں بعض باتیں بتاتے تھے تو ہم ان کو درست پاتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ سچا بول، جن (فرشتوں سے) اچک لیتا تھا اور وہ اسے اپنے (کاہن) دوست کے کان میں ڈال دیتا اور وہ اس میں سو جھوت ملا دیتا۔“
معقل بن عبید اللہ نے زہری سے روایت کی، کہا: مجھے یحییٰ بن عروہ نے بتا یا کہ انھوں نے عروہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لو گوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کا ہنوں کے متعلق سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: " وہ کچھ نہیں ہیں۔ "صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ لو گ بعض اوقات ایسی چیز بتاتے ہیں جو سچ نکلتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جنوں کی بات ہو تی ہے، ایک جن اسے (آسمان کے نیچے سے) اچک لیتا تھا پھر وہ اسے اپنے دوست (کا ہن) کے کان میں مرغی کی کٹ کٹ کی طرح کٹکٹاتا رہتا ہے۔اور وہ اس (ایک) بات میں سو زیادہ جھوٹ ملا دیتا ہے۔"
حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں، کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں کے بارے میں سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔" لوگوں نے کہا، اے اللہ کے رسول! وہ بعض اوقات سچ بات بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ جن سے حاصل کردہ بول ہوتا ہے، جن اسے اچک لیتا ہے اور اسے اپنے دوست کے کان میں ڈال دیتا ہے، جس طرح مرغ، قرقر کر کے مرغیوں کو دعوت دیتا ہے اور وہ اس میں سو سے زائد جھوٹ ملا دیتے ہیں۔
صالح نے ابن شہا ب سے، روایت کی: کہا مجھے علی بن حسین (زین العابدین) نے حدیث سنا ئی کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ایک انصاری نے مجھے بتا یا کہ ایک بار وہ لو گ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہو ئے تھے۔کہ ایک ستا رے سے کسی چیز کو نشانہ بنایا گیا اور وہ روشن ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: " جب جاہلیت میں اس طرح ستارے سے نشانہ لگا یا جا تا تھا۔تو تم لوگ کیا کہا کرتے تھے؟لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جا ننے والے ہیں ہم یہی کہا: کرتے تھے۔کہ آج رات کسی عظیم انسان کی ولادت ہو ئی ہے اور کوئی عظیم انسان فوت ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے کسی کی زندگی یا موت کی بنا پر نشانے کی طرف نہیں چھوڑا جا تا، بلکہ ہمارا رب، اس کا نام برکت والا اور اونچا ہے، جب کسی کام کا فیصلہ فر ما تا ہے تو حاملین عرش (زورسے) تسبیح کرتے ہیں، پھر ان سے نیچے والے آسمان کے فرشتے تسبیح کا ورد کرتے ہیں۔یہاں تک کہ تسبیح کا ورد (دنیا کے) اس آسمان تک پہنچ جا تا ہے، پھر حاملین عرش کے قریب کے فرشتے حاملین عرش سے پو چھتے ہیں تمھا رے پروردیگا ر نے کیا فرمایا؟وہ انھیں بتا تے ہیں کہ اس نے کیا فرمایا پھر (مختلف) آسمانوں والے ایک دوسرے سے پو چھتے ہیں، یہاں تک کہ وہ خبر دنیا کے اس آسمان تک پہنچ جا تی ہے تو جن بھی جلدی سے اس کی کچھ سماعت اچکتے ہیں اور اپنے دوستوں (کا ہنوں) تک دے چھینکتے ہیں (اس خبر کو پہنچادیتے ہیں) خبروہ صحیح طور پر لا تے ہیں وہ سچ تو ہو تی ہے لیکن وہ اس میں جھوٹ ملا تے اور اضافہ کردیتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک انصاری صحابی نے بتلایا، اس اثناء میں کہ وہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، ایک ستارہ پھینکا گیا اور اس کی روشنی پھیل گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جاہلیت کے دور میں اس طرح تارہ ٹوٹتا تو تم کیا کہتے تھے؟“ انہوں نے جواب دیا، اصل حقیقت اللہ اور اس کے رسول کو خوب معلوم ہے، ہم کہتے تھے، آج رات کوئی عظیم آدمی پیدا ہوا ہے اور ایک عظیم آدمی فوت ہوا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واقعہ یہ ہے، اسے کسی کی موت یا کسی کی زندگی کے لیے نہیں پھینکا جاتا، یعنی کسی کی موت و حیات پر ستارہ نہیں ٹوٹتا، لیکن ہمارا برکت والا رب، جس کا نام بلند و بالا ہے، جب کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو عرش کے اٹھانے والے فرشتے سبحان اللہ کہتے ہیں، پھر ان کے قریشی آسمان والے تسبیح پڑھتے ہیں، حتیٰ کہ یہ تسبیح اس قریبی آسمان والوں تک پہنچ جاتی ہے، پھر حاملین عرش سے قریب والے فرشتے ان حاملین عرش سے دریافت کرتے ہیں، تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ تو وہ انہیں جو اس نے فرمایا ہوتا ہے، اس سے آگاہ کرتے ہیں۔ تو آسمانوں والے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، حتیٰ کہ خبر اس قریبی آسمان تک پہنچ جاتی ہے تو جن چوری چھپے بات اچکتے ہیں اور اسے اپنے دوستوں کی طرف پھینکتے ہیں اور انہیں ستارے پڑتے ہیں تو جو وہ صحیح صورت میں بتاتے ہیں، وہ حق ہوتی ہے، لیکن وہ اس میں ملاوٹ کرتے ہیں اور اضافہ کرتے ہیں۔“
اوزاعی، یونس اور معقل بن عبید اللہ سب نے زہری سے، اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، مگر یونس نے کہا: عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: مجھے انصار میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے خبر دی اور اوزاعی کی حدیث میں ہے۔لیکن وہ اس میں جھوٹ ملا تے ہیں اور بڑھا تے ہیں۔"اور یونس کی حدیث میں ہے: "لیکن وہ اونچا لے جا تے ہیں (مبا لغہ کرتے ہیں) اور بڑھاتے ہیں۔"یونس کی حدیث میں مزید یہ ہے: اللہ تعا لیٰ نے فرمایا: یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے ہیبت اور ڈر کو ہٹا لیا جا تا ہے تو وہ کہتے ہیں۔تمھا رے رب نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں۔ حق کہا۔ اور معقل کی حدیث میں اسی کی طرح ہے جس طرح اوزاعی نے کہا: " لیکن وہ اس میں جھوٹ ملا تے ہیں۔اور اضافہ کرتے ہیں۔
امام صاحب یہی روایت اپنے اساتذہ کی تین سندوں سے بیان کرتے ہیں، اوزاعی کی روایت ہے، ”لیکن وہ اس میں ملاوٹ کرتے ہیں اور اضافہ کرتے ہیں۔“ یونس کی حدیث ہے، ”لیکن وہ اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، اور اضافہ کرتے ہیں۔“ اور یونس کی حدیث میں یہ اضافہ ہے، "اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوتی ہے، وہ پوچھتے ہیں، تمہارے رب نے کیا کہا، وہ کہتے ہیں، جو کہا ٹھیک کہا۔“
۔ (حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ) صفیہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہلیہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، کہ آپ نے فرما یا: "جو شخص کسی غیب کی خبر یں سنا نے والے کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے تو چالیس راتوں تک اس شخص کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سے بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو عَرَّاف کے پاس جا کر، اس سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کرتا ہے، اس کی چالیس روز کی نماز قبول نہیں ہو گی۔“