یو نس نے ابن شہاب سے، انھوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن بن عوف سے، انھوں نے حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کچھ کا م ایسے تھے جو ہم زمانے جاہلیت میں کیا کرتے تھے ہم کا ہنوں کے پاس جا تے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "تم کا ہنوں کے پاس نہ جا یا کرو۔"میں نے عرض کی: ہم بد شگونی لیتے تھے، آپ نے فرمایا: " یہ (بدشگونی) محض ایک خیال ہے جو کوئی انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، یہ تمھیں (کسی کام سے) نہ روکے۔"
حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! بہت سے کام ہیں، جو ہم جاہلیت کے دور میں کرتے تھے، ہم کاہنوں کے پاس جاتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو کاہنوں کے پاس مت جاؤ“ میں نے کہا، ہم بدشگونی لیتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ایک ایسی چیز ہے، جس کا تمہارے کسی کے دل میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو وہ تمہیں تمہارے کام سے ہرگز نہ روکے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5813
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: عرب میں کہانت کی تین صورتیں تھیں، (1) کسی انسان کا کوئی جن دوست ہوتا، جو آسمانی خبریں سن کر آتا اور اپنے انسان دوست کو ان سے آگاہ کرتا، (2) جن زمین کے اردگرد، دور اور نزدیک گھوم پھر کر کچھ باتیں معلوم کرتے اور ان سے اپنے انسانی دوست کو آگاہ کر دیتے، لیکن وہ ان میں سچ اور جھوٹ کی آمیزش کرتے، اس لیے ان کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا، اس لیے آپﷺ نے ان کی تصدیق سے منع فرما دیا۔ (3) نجومی، بعض لوگوں میں اللہ تعالیٰ یہ قوت پیدا کر دیتا ہے، وہ اپنے تجربات اور کچھ قرآئن سے بعض پیشن گوئیاں کرتے ہیں اور کچھ ظاہری اسباب سے بھی استفادہ کرتے ہیں، ان کو عراف کا نام دیا جاتا ہے اور ان سب صورتوں کو کہانت کہا جاتا ہے، لیکن مستقبل کے حالات بتانے میں بھی یہ لوگ جھوٹ زیادہ بولتے ہیں، اس لیے آپ نے ان کی تصدیق کرنے اور ان باتوں پر عمل پیرا ہونے اور ان کے پاس جانے سے منع فرما دیا۔ آپ نے بدفال کو ایک خیالی اور تصوراتی چیز قرار دے کر اس پر عمل کرنے سے منع فرمایا۔