سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حدیث کا مذاکره کرو، اس لئے کہ حدیث سے حدیث یاد آتی ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 615]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 617] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ اس میں ابونضرة کا نام: منذر بن مالک ہے۔ تخریج آگے آرہی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 611 سے 615) مذاکرہ: گفتگو کرنے، یاد کرنے اور دہرانے کو کہتے ہیں۔
ابونضرة بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: حدیث میں گفتگو کرو، کیونکہ ایک حدیث دوسری حدیث کو یاد دلاتی ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 617]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده رجاله ثقات غير أن هشيما قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 619] »
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «، [مكتبه الشامله نمبر: 621] » دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6184] ، [المحدث الفاصل 723] ، [الجامع لأخلاق الراوي 470، 1882] و [جامع بيان العلم 626، 706] ، اور سب کی سند صحیح ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 615 سے 619) یہ تمام روایات سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں۔ معنی اوپر ذکر کیا جا چکا ہے، اور اس میں حدیث یاد کرنے اور دہراتے رہنے کی ترغیب ہے۔
عمرو بن مسلم سے مروی ہے کہ امام طاؤوس رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: ہمیں لے چلو لوگوں کے پاس بیٹھیں گے (یعنی مذاکرہ حدیث کے لئے)۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 621]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 623] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دوسری جگہ نہیں مل سکی۔
سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حدیث دہرا لیا کرو تاکہ تم بھول نہ جاؤ، کیونکہ حدیث قرآن کی طرح مجموع و محفوظ نہیں ہے، اگر تم اس کا مذاکرہ نہیں کرو گے تو بھول جاؤ گے۔ نیز تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ میں نے کل تو حدیث بیان کی ہے لہٰذا آج بیان نہیں کروں، بلکہ گزشتہ كل حدیث بیان کی ہو تو آج بھی بیان کرو اور آنے والے کل بھی بیان کرو۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 622]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 624] » اس سند کے رواة ثقات ہیں، صرف جعفر بن ابی المغیرۃ کے بارے میں ابن مندہ نے کہا ہے کہ وہ سعید بن جبیر سے روایت کرنے میں قوی نہیں۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 729]
سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے ہی مروی ہے، سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: حدیث کو دہراؤ اور یاد کرو، اگر یاد نہ کرو گے تو بھول جاؤ گے، اور کوئی آدمی کسی حدیث کو بیان کرنے کے بعد یہ نہ کہے کہ میں نے ایک بار بیان کر دی، کیونکہ جس نے پہلے حدیث سنی اس کے علم میں اضافہ ہو گا اور جس نے نہیں سنی وہ اب سن لے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 623]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف مندل بن علي، [مكتبه الشامله نمبر: 625] » مندل بن علی کی وجہ سے اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ مذکورہ بالا تخریج ملاحظہ فرمائیں۔
یزید بن ابی زیاد سے مروی ہے عبدالرحمٰن بن ابی لیلی نے کہا: مذاکرہ کرو، حدیث کو زندہ رکھنے کا طریقہ اس کا دہرانا و مذاکرہ کرنا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 624]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 626] » اس قول کی سند بھی ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 727] نیز آنے والا اثر رقم (641)۔
سفیان بن عیینہ سے مروی ہے زیاد بن سعد نے کہا: ابن شہاب الزہری دیہاتیوں کو بھی حدیث سنایا کرتے تھے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 626]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 628] » اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 1888]
وضاحت: (تشریح احادیث 620 سے 626) یہ بھی مذاکرۂ حدیث کا ایک طریقہ ہے۔
اعمش (سلیمان بن مہران) نے کہا: اسماعیل بن رجاء منشیوں کے بچوں کو جمع کر کے انہیں حدیث سنایا کرتے تھے، وہ اسی طرح یاد کرتے تھے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 627]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 629] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 712] ، [الجامع لأخلاق الراوي 680] ، [مصنف ابن أبى شيبه 6187، ومن طريقه أخرجه ابن عبدالبر فى جامع بيان العلم 729، 738] و [العلم لأبي خيثمه 73]
ابوعبدالله الشقری سے مروی ہے ابراہیم رحمہ اللہ نے فرمایا: اپنی حدیث ہر کسی کو سناؤ چاہے وہ اس کو سننے کی خواہش رکھے یا نہ رکھے، اس لئے کہ وہی تمہارے لئے اصل ہو جائیں گے گو کہ تم اصل کو دیکھ کر پڑھ رہے ہو۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 628]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 630] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالنعمان کا نام محمد بن الفضل اور ابوعبدالله الشقری کا نام سلمہ بن تمام ہے۔ تخریج کے لئے دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6188] ، [الجامع لأخلاق الراوي 1885، 1886] ، [جامع بيان العلم وفضله 630]
عطاء (ابن ابی رباح) سے مروی ہے: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب تم ہم سے کوئی حدیث سنو تو آپس میں اس کا مذاکرہ کر لیا کرو۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 629]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «حجاج بن أرطاة ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 631] » اس روایت میں حجاج بن ارطاۃ ضعیف ہیں، ابومعمر کا نام اسماعیل بن ابراہیم بن معمر ہے اور عبدالسلام: ابن حرب ہیں۔ تخریج دیکھئے: [الجامع 469] و [المحدث الفاصل 728]
ہشیم نے کہا: یونس بن عبید نے خبر دی کہ ہم حسن رحمہ اللہ کے پاس جاتے تھے اور جب ان کے پاس سے لوٹتے تو آپس میں مذاکرہ کرتے تھے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 630]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 632] » اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن کہیں اور یہ روایت نہیں مل سکی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی حدیث بیان کرنا چاہے تو اس حدیث کو تین بار دہرا لے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 631]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 633] » اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 640]
عبدالرحمٰن بن ابی لیلی نے کہا: حدیث کو زندہ رکھنے کا طریقہ اس کا مذاکرہ کرنا ہے، عبداللہ بن شداد نے ان سے کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے، کتنی احادیث ہیں جو مٹ گئی تھیں، آپ نے انہیں میرے دل میں زندہ کر دیا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 632]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 634] » یہ روایت یزید بن ابی زیادہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [الجامع 472، 1895] ، [مصنف ابن أبى شيبه 6189] ، [جامع بيان العلم 631، 707] ، [ العلم 72] ۔ نیز دیکھئے اثر رقم (626)۔
محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان کے والد نے کہا: حارث بن یزید عکلی، ابن شبرمہ اور قعقاع بن یزید و مغیرہ جب عشاء کی نماز پڑھ لیتے، فقہ (کے مذاکرے) میں بیٹھ جاتے، اور پھر صبح کی اذان ہی انہیں جدا کرتی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 633]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 635] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 108] ، [المعرفة للفسوي 614/2] ، [الفقيه والمتفقه 956، 957] ۔ نیز اثر رقم (642)۔
مالک بن اسماعیل نے خبر دی کہ میں نے شریک کو کہتے سنا، انہوں نے لیث کے طریق سے کہا، عطاء و طاؤوس و مجاہد میں سے دو نے کہا: فقہی امور میں رات جاگنے میں کوئی حرج نہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 634]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 636] » لیث بن ابی سلیم کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔
لیث سے مروی ہے مجاہد نے کہا: فقہی مذاکرہ میں جاگنے سے کوئی حرج نہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 635]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 637] » اس روایت کی سند میں بھی لیث بن ابی سلیم ہیں جن کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 110] ، [الفقيه و المتفقه 955]
ابن جریج سے مروی ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ایک گھڑی مل جل کر پڑھنا پوری رات کی عبادت سے بہتر ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 636]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ابن جريج لم يدرك ابن عباس، [مكتبه الشامله نمبر: 638] » اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ ابن حجر نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو پایا ہی نہیں۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 20469] ، [جامع بيان العلم 107] ، نیز یہ روایت (270) میں گزر چکی ہے۔
عطاء نے کہا: ہم سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما کے پاس جاتے تھے، اور جب ان کے پاس سے واپس آتے تو آپس میں مذاکرہ کرتے، نیز ابوالزبیر ہم میں سب سے زیادہ حافظ حدیث تھے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 637]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف حجاج وهو: ابن أبي أرطاة، [مكتبه الشامله نمبر: 639] » حجاج بن ارطاة کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ [العلم 79] و [الجامع 471] میں بھی یہ روایت موجود ہے، لیکن سند سب کی ضعیف ہے۔
مروان بن محمد نے خبر دی کہ میں نے لیث بن سعد سے سنا، انہوں نے کہا: ابن شہاب (زہری) ایک رات عشاء کے بعد بیٹھے وضو کر رہے تھے کہ حدیث یاد کرنے لگے، پھر بیٹھے یاد ہی کرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ مروان نے کہا: حدیث کا مذاکرہ کرتے رہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 638]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 640] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ ابن عساكر 95، 96] زہری میں دیکھئے۔
محمد بن اسحاق سے مروی ہے، زہری نے کہا: میں جب عبیداللہ بن عتبہ سے ملاقات کرتا تو ایسا لگتا کہ گویا میں نے سمندر کو چیر دیا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 639]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 641] » اس روایت کی سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کی ہے۔ دیکھئے [مصنف ابن أبى شيبه 6108، 15783] ، [المعرفة والتاريخ 561/1، 552، 622] و [تاريخ دمشق 227]
ابوالأحوص سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حدیث یاد کرو، کیونکہ اس کی زندگی اس کا یاد کرنا یا مذاکرہ کرنا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 641]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف أبي إسرائيل وهو: إسماعيل بن خليفة لكن الأثر صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 643] » اس اثر کی سند ابواسرائیل اسماعیل بن خلیفہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 726] لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ دیکھئے اثر رقم (617، 626، 627)۔
عون بن عبداللہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد ان کے پاس آئے تو انہوں نے ان سے کہا: کیا تم مجلس جماتے ہو؟ جواب دیا: اسے تو ہم چھوڑتے ہی نہیں، فرمایا: کیا تم ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہو؟ جواب دیا: جی ہاں اے ابوعبدالرحمٰن! ہم میں سے کوئی شخص اگر اپنے ساتھی کو نہ دیکھے تو کوفے کے آخری کنارے تک اس کو دیکھنے جاتا ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جب تک ایسا کرتے رہو گے خیر سے رہو گے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 642]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناده علتان: ضعف عبد الرحمن بن عبد الله المسعودي والإنقطاع، [مكتبه الشامله نمبر: 644] » اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير 8979]
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے، امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: علم کی آفت نسیان اور ترک مذاکرہ ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 643]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف الوليد هو: ابن مسلم مدلس وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 645] » اس قول کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [تاريخ دمشق 235]
قاسم بن عبدالرحمٰن مسعودی سے مروی ہے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حدیث کی آفت نسیان ہے (یعنی بھلا دینا)۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 644]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لانقطاعه القاسم بن عبد الرحمن المسعودي لم يسمع عبد الله بن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 646] » اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔ ابوعمیس کا نام عتبہ بن عبداللہ بن عتبہ ہے۔ تخریج دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6191] ، [جامع بيان العلم 691] اس کے دیگر اسانید سے شواہد موجود ہیں «كما سيأتي» ۔
اعمش سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم کی آفت نسیان ہے، اور اس کا ضیاع یہ ہے کہ تم نااہل کو اس کی تعلیم دو۔“[سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 646]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 648] » اس حدیث کی سند سے دو راوی ساقط ہیں، لہٰذا یہ روایت معضل، ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6190] ، [جامع بيان العلم 690] ، [المحدث الفاصل 793]
ابوحمزه التمار سے مروی ہے، حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا: علم کی برائی نسیان ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 647]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «الأثر صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 649] » اس روایت میں ابوحمزہ کو شیخ کہا گیا ہے، باقی رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 689] اس کے شواہد صحیحہ موجود ہیں لہٰذا صحیح ہے۔
ابن بريدة سے مروی ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس (علم) حدیث کو یاد کرو (دہراؤ)، ایک دوسرے کی زیارت کرو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو یہ (علم) مٹ جائے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 648]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 650] » اس اثر کی سند صحیح ہے اور یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6185] ، [جامع بيان العلم وفضله 624] ، [المحدث الفاصل 721] و [الجامع لأخلاق الراوي 468،467]
سفیان رحمہ اللہ سے مروی ہے، امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا: میں سمجھتا تھا کہ میں نے علم کی تکمیل کر لی، لیکن جب عبیداللہ (بن عبدالله بن مسعود) کی مجالست اختیار کی تو لگا کہ میں تو علم کی بہت ساری گھاٹی یا وادیوں میں سے صرف ایک وادی میں تھا (یعنی ان کے مقابلہ میں میرا علم بہت تھوڑا تھا)۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 649]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 651] » اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعة 1395]
وضاحت: (تشریح احادیث 626 سے 649) ان تمام آثار سے علماء کی قدر و منزلت، ان کی زیارت کی اہمیت و فضیلت، اور علمی مذاکرۂ احادیث و اصول یاد کرنے کی ضرورت ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ احادیث کا یاد کرنا دہرانا سمر میں داخل نہیں جس سے احادیث میں روکا گیا ہے اور علمی مذاکره رات بھر تہجد پڑھنے سے بہتر ہے۔