الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
बुलूग़ अल-मराम
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
16. باب صلاة الاستسقاء
16. نماز استسقاء کا بیان
حدیث نمبر: 406
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: خرج النبي صلى الله عليه وآله وسلم متواضعا متبذلا متخشعا مترسلا متضرعا فصلى ركعتين كما يصلي في العيد لم يخطب خطبتكم هذه. رواه الخمسة وصححه الترمذي وأبو عوانة وابن حبان.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی تواضع کے ساتھ سادہ لباس میں نہایت عاجزی و انکساری، بہت خشوع اور بڑی زاری اور تضرع کرتے ہوئے نماز کے لئے باہر نکلے۔ عید کی نماز کی طرح لوگوں کو دو رکعات نماز پڑھائی۔ تمہارے خطبہ کی طرح خطبہ ارشاد نہیں فرمایا۔
اس روایت کو پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی، ابوعوانہ اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 406]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، صلاة الاستسقاء، باب جماع أبواب صلاة الاستسقاء وتفريعها، حديث:1165، والترمذي، الجمعة، حديث:558، والنسائي، الاستسقاء، حديث:1507، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1266، وأحمد:1 /230، 269، 355، وابن حبان(الإحسان):4 /229، حديث:2851، وأبوعوانه:6 /33، القسم المفقود.»

حدیث نمبر: 407
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: شكا الناس إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قحوط المطر فأمر بمنبر فوضع له بالمصلى ووعد الناس يوما يخرجون فيه قالت عائشة: فخرج رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حين بدا حاجب الشمس فقعد على المنبر فكبر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وحمد الله عز وجل ثم قال: «إنكم شكوتم جدب دياركم وقد أمركم الله أن تدعوه ووعدكم أن يستجيب لكم» ثم قال: «‏‏‏‏الحمد لله رب العالمين الرحمن الرحيم ملك يوم الدين لا إله إلا الله يفعل ما يريد اللهم أنت الله لا إله إلا أنت أنت الغني ونحن الفقراء أنزل علينا الغيث واجعل ما أنزلت علينا قوة وبلاغا إلى حين» ثم رفع يديه فلم يزل حتى رئي بياض إبطيه ثم حول إلى الناس ظهره وقلب رداءه وهو رافع يديه ثم أقبل على الناس ونزل فصلى ركعتين فأنشأ الله سحابة فرعدت وبرقت ثم أمطرت. رواه أبو داود وقال غريب وإسناده جيد. وقصة التحويل في الصحيح من حديث عبد الله بن زيد وفيه: فتوجه إلى القبلة يدعو ثم صلى ركعتين جهر فيهما بالقراءة. وللدارقطني من مرسل أبي جعفر الباقر: وحول رداءه ليتحول القحط.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ میں منبر لے جانے کا حکم دیا، چنانچہ منبر عید گاہ میں لا کر رکھ دیا گیا۔ لوگوں سے ایک دن کا وعدہ کیا جس میں وہ سارے باہر نکلیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس وقت نکلے جب سورج کا کنارہ ظاہر ہوا۔ تشریف لا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھ گئے اور «الله اكبر» کہا اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کی پھر (لوگوں سے مخاطب ہو کر) فرمایا تم لوگوں نے اپنے علاقوں کی خشک سالی کا شکوہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ تو تمہیں یہ حکم دے چکا ہے کہ اس سے دعا کرو وہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ پھر فرمایا تعریف اللہ ہی کے لیے سزاوار ہے جو کائنات کا پروردگار ہے۔ لوگوں کے حق میں بڑا مہربان اور ہمیشہ مہربان ہے۔ روز جزا کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا دوسرا کوئی معبود نہیں۔ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ الٰہی! تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں۔ تو غنی ہے اور ہم فقیر و محتاج ہیں۔ ہم پر باران رحمت کا نزول فرما۔ جو کچھ تو ہمارے اوپر نازل فرمائے اسے ہمارے لیے روزی اور مدت دراز تک پہنچنے کا ذریعہ بنا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں دست مبارک اوپر اٹھائے کہ وہ بتدریج آہستہ آہستہ اوپر اٹھتے گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ پھر لوگوں کی جانب اپنی پشت کر کے کھڑے ہو گئے اور اپنی چادر کو پھیر کر پلٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے ہوئے تھے پھر لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور منبر سے نیچے تشریف لے آئے اور دو رکعت نماز پڑھائی۔ اسی لمحہ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر بادل پیدا کیا۔ وہ بدلی گرجی اور چمکی اور بارش ہونے لگی۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور اسے غریب کہا ہے اور اس کی سند نہایت عمدہ و جید ہے۔ صحیح بخاری میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہما کی روایت میں (تبدیلی چادر) کا قصہ اس طرح ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف رخ کیا اور دعا فرماتے رہے، پھر دو رکعت نماز ادا فرمائی۔ ان میں قرآت بلند آواز سے کی۔ اور دارقطنی میں ابو جعفر باقر کی مرسل روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اس لیے پھیر کر بدلی کہ قحط سالی بھی اسی طرح پھر جائے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 407]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب رفع اليدين في الاستسقاء، حديث:1173، وقصة التحويل: ذكرها البخاري، الاستسقاء، حديث:1024، ومرسل أبي جعفر أخرجه الدارقطني:2 /66، وسنده ضعيف، حفص بن غياث مدلس وعنعن، والسند مرسل.»

حدیث نمبر: 408
وعن أنس أن رجلا دخل المسجد يوم الجمعة والنبي صلى الله عليه وآله وسلم قائم يخطب.فقال: يا رسول الله هلكت الأموال وانقطعت السبل فادع الله عز وجل يغيثنا فرفع يديه ثم قال: «‏‏‏‏اللهم أغثنا اللهم أغثنا» ‏‏‏‏فذكر الحديث وفيه الدعاء بإمساكها. متفق عليه
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے روز مسجد میں داخل ہوا، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، وہ بولا یا رسول اللہ! اموال (مویشی) ہلاک ہو گئے اور آمدورفت کے راستے بند ہو گئے ہیں۔ اللہ کے حضور دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش نازل فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے اور دعا فرمائی۔ «‏‏‏‏اللهم أغثنا اللهم أغثنا» ‏‏‏‏ یا الٰہی! بارش سے ہماری فریاد رسی فرما۔ یا الٰہی! باران رحمت سے ہماری فریاد رسی فرما۔ ساری حدیث بیان فرمائی۔ اس میں بارش کے بند کروانے کی دعا کا بھی ذکر ہے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 408]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الاستسقاء، باب الاستسقاء في المسجد الجامع، حديث:1013، ومسلم، صلاة الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء، حديث:897.»

حدیث نمبر: 409
وعنه رضي الله عنه أن عمر رضي الله عنه كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب وقال: اللهم إنا كنا نتوسل إليك بنبينا فتسقينا وإنا نتوسل إليك بعم نبينا فاسقنا فيسقون. رواه البخاري.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہو جاتے تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنا کر بارش طلب فرماتے تھے اور یوں دعا کرتے کہ اے اللہ! ہم تجھ سے تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے بارش طلب کرتے تھے تو ہمیں باران رحمت سے نواز دیتا تھا اور اب ہم تیرے حضور تیرے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے چچا کو بطور وسیلہ لائے ہیں لہٰذا تو ہمیں بارش سے سیراب فرما دے (اس دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں) ان کو بارش سے سیراب کیا جاتا تھا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 409]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا، حديث:1010.»

حدیث نمبر: 410
وعنه رضي الله عنه قال: أصابنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم مطر قال فحسر ثوبه حتى أصابه من المطر وقال: «‏‏‏‏إنه حديث عهد بربه» .‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے یہ حدیث بھی مروی ہے کہ ہم ایک دفعہ بارش کی لپیٹ میں آ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بدن اطہر سے کپڑا اوپر اٹھایا کہ بارش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطیب پر پڑنے لگی اور ارشاد فرمایا کہ یہ اپنے آقا و مالک کے ہاں سے نئی نئی (تحفہ کی صورت میں) آ رہی ہے۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 410]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، صلاة الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء، حديث:898.»

حدیث نمبر: 411
وعن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كان إذا رأى المطر قال: «‏‏‏‏اللهم صيبا نافعا» . أخرجاه
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش کو دیکھتے تو اس طرح دعا مانگتے۔ «اللهم صيبا نافعا» اے اللہ! اس بارش کو منافع بخش و سود مند بنا دے۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 411]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الاستسقاء، باب ما يقال إذا أمطرت، حديث:1032، ومسلم، صلاة الاستسقاء، باب التعوذ عند رؤية الريح والغيم....، حديث:899.»

حدیث نمبر: 412
وعن سعد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم دعا في الاستسقاء: «‏‏‏‏اللهم جللنا سحابا كثيفا قصيفا دلوقا ضحوكا تمطرنا منه رذاذا قطقطا سجلا يا ذا الجلال والإكرام» .‏‏‏‏ رواه أبو عوانة في صحيحه.
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا استسقاء میں یہ دعا مانگی «اللهم جللنا سحابا كثيفا قصيفا دلوقا ضحوكا تمطرنا منه رذاذا قطقطا سجلا يا ذا الجلال والإكرام» یا الٰہی! ہمیں ایسے بادل سے جو ساری زمین پر چھایا ہوا ہو، گہرا ہو، کڑکنے والا، زور سے برسنے والا، چمکنے گرجنے والا، تہ بہ تہ ہو، سے بارش کی باریک بوندیں بہت زیادہ برسا دے۔ اے بزرگی اور عزت کے مالک!۔ (مسند ابی عوانہ) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 412]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبو عوانة:2 /119.* فيه أبو محمد عبدالله بن محمد بن عبدالله الأنصاري المدني ولم أجد له ترجمة، ولعله البلوي الترجم في لسان الميزان وهو كذاب.»

حدیث نمبر: 413
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏خرج سليمان عليه السلام يستسقي فرأى نملة مستلقية على ظهرها رافعة قوائمها إلى السماء تقول: اللهم إنا خلق من خلقك ليس بنا غنى عن سقياك فقال: ارجعوا سقيتم بدعوة غيركم» . رواه أحمد وصححه الحاكم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام بارش طلب کرنے کے لئے باہر نکلے تو انہوں نے ایک چیونٹی کو پشت کے بل ٹانگیں آسمان کی جانب اٹھائے ہوئے دیکھا جو بارگاہ رب العزت میں عرض کر رہی تھی۔ الٰہی ہم تیری مخلوق ہیں تیری دوسری مخلوق کی طرح، ہم بھی تیری بارش سے بے نیاز و مستغنی نہیں ہیں، یہ سن کر سیدنا سلیمان علیہ السلام نے فرمایا چلو واپس چلیں تمہیں بارش سے سیراب کر دیا گیا، غیروں کی دعا کی بدولت۔ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 413]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد، ولم أجده، عزاه المؤلف في كتابه اتحاف المهرة:16 /1 ص70، حديث:20399 إلي الحاكم فقط، قال المؤلف: أخرجه الحاكم في المستدرك:1 /325 وصححه [ووافقه الذهبي]

حدیث نمبر: 414
وعن أنس رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم استسقى فأشار بظهر كفيه إلى السماء. أخرجه مسلم.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لئے دعا فرمائی تو اپنے دونوں ہاتھ الٹی حالت میں آسمان کی طرف اٹھا کر ارشاد فرمایا۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 414]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، صلاة الاستسقاء، باب رفع اليدين بالدعاء في الاستسقاء، حديث:896.»