وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «خرج سليمان عليه السلام يستسقي فرأى نملة مستلقية على ظهرها رافعة قوائمها إلى السماء تقول: اللهم إنا خلق من خلقك ليس بنا غنى عن سقياك فقال: ارجعوا سقيتم بدعوة غيركم» . رواه أحمد وصححه الحاكم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” سیدنا سلیمان علیہ السلام بارش طلب کرنے کے لئے باہر نکلے تو انہوں نے ایک چیونٹی کو پشت کے بل ٹانگیں آسمان کی جانب اٹھائے ہوئے دیکھا جو بارگاہ رب العزت میں عرض کر رہی تھی۔ الٰہی ہم تیری مخلوق ہیں تیری دوسری مخلوق کی طرح، ہم بھی تیری بارش سے بے نیاز و مستغنی نہیں ہیں، یہ سن کر سیدنا سلیمان علیہ السلام نے فرمایا چلو واپس چلیں تمہیں بارش سے سیراب کر دیا گیا، غیروں کی دعا کی بدولت۔“ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 413]
تخریج الحدیث: «أخرجه أحمد، ولم أجده، عزاه المؤلف في كتابه اتحاف المهرة:16 /1 ص70، حديث:20399 إلي الحاكم فقط، قال المؤلف: أخرجه الحاكم في المستدرك:1 /325 وصححه [ووافقه الذهبي] .»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 413
تخریج: «أخرجه أحمد، ولم أجده، عزاه المؤلف في كتابه اتحاف المهرة:16 /1 ص70، حديث:20399 إلي الحاكم فقط، قال المؤلف: أخرجه الحاكم في المستدرك:1 /325 وصححه «ووافقه الذهبي» .»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سابقہ پیغمبر بھی بارش کی بندش کے موقع پر شہر سے باہر نکل کر بارش طلب کرنے جاتے تھے۔ 2. دعائے استسقا یا نماز استسقا آبادی سے باہر ہی ادا کرنی چاہیے‘ اس طرح آبادی کی گہما گہمی‘ ہنگامہ خیزی اور شور و شغف سے دور ہو کر اللہ کی طرف توجہ زیادہ ہو جاتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 413